’’سرسید احمد خان مسلمانوں کے محسن تھے۔ انہوں نے بے غرض ہو کر رات دن مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے کام کیا۔ اپنا گھر اور اثاثے فروخت کیے اور لندن جا کر ولیم میور کی قابلِ اعتراض تصنیف ’’لائف آف محمدؐ‘‘ کے جواب میں مدلل کتاب لکھی‘‘۔
’’سرسید غدار تھے۔ انگریز کے ایجنٹ تھے۔ نیچری تھے۔ انہوں نے جدید تعلیم متعارف کرا کے ہمیں اسلام سے دور کیا‘‘۔
موضوعِ گفتگو سرسید احمد خان نہیں! بتانا یہ مقصود ہے کہ اکثر و بیشتر حالات میں ہم انتہا پسند ہیں۔ سرسید احمد خان اس کی ایک مثال ہیں۔ ایک گروہ کے نزدیک وہ ہیرو ہیں۔ دوسرے کی نظر میں ولن۔ بہت کم ایسے ہیں جو معتدل رائے رکھتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے۔ تعلیمی اور تحقیقی میدان میں ان کی خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ احسان ان کا برصغیر کے مسلمانوں پر عظیم ہے۔ تاہم مذہبی پہلوئوں پر اور قرآن کی تفسیر کے ضمن میں ان سے اتفاق کرنا ہرگز ضروری نہیں۔
سیاست‘ مذہب‘ معاشرت اور زندگی کے تمام شعبوں میں یہ انتہا پسندی ہمارا ٹریڈ مارک بن گئی ہے۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ عسکریت پسندوں کو ہم انتہا پسند کہتے ہیں جب کہ سچی بات یہ ہے کہ ہم من حیث القوم انتہا پسند ہیں۔
یہی رویہ ایم کیو ایم کے بارے میں ہے۔ ایک طرف وہ حضرات ہیں جو اس کی تشکیل سے لے کر موجودہ پراگندہ صورتِ حال تک… ہر مرحلے کو تشکیک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یرقان زدہ آنکھ کو ہر شے زرد دکھائی دیتی ہے۔ مہاجر پرستی سے لے کر دہشت گردی تک سارے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو ایم کیو ایم کو ہر جرم اور ہر غلطی سے مبرا ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اس کے رہنمائوں کو ’’فکری‘‘ اور کبھی کبھی تو روحانی مقامات تک لے جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ دوراہا جس پر تاریخ نے آج ایم کیو ایم کو لا کھڑا کیا ہے‘ اُس دوراہے پر پہنچ کر بھی اِدھر اُدھر دیکھ کر‘ کسی ایک راہ پر چلنے کا فیصلہ کرنے سے قاصر ہے!
چند دن پہلے ہی ان سطور میں عرض کیا گیا تھا کہ مہاجر پرستی کا الزام لگانے سے پہلے یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ ایم کیو ایم کی تشکیل و تاسیس سے بہت پہلے لسانی‘ نسلی اور علاقائی بنیادوں پر پورے ملک میں بالعموم اور سندھ اور بلوچستان میں بالخصوص سیاسی تنظیمیں وجود میں آ چکی تھیں۔ کراچی یونیورسٹی میں جب ’’مہاجر طلبہ تنظیم‘‘ بنی تو اس سے پہلے وہاں لسانی اور علاقائی حوالے سے طلبہ کے دس گروہ مصروفِ سیاست تھے! ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو
Melting Pot
کہا جاتا ہے اس لیے کہ مختلف لسانی اور نسلی اکائیاں تحلیل ہو کر قومی دھارے میں شامل ہو گئیں۔ شناختیں موجود ہیں مگر سب پہلے امریکی ہیں اور گروہوں کے حوالے بعد میں دیے جاتے ہیں۔ ہم ایسا برتن نہ بن سکے جس میں سب دھاتیں پگھل کر ایک مرکب بن جاتیں۔ ہم کشمیری‘ پنجابی‘ بلوچی اور پٹھان بن گئے اور وہ جو ان میں سے کچھ بھی نہ بن سکتے تھے‘ انہیں لامحالہ مہاجر بننا پڑا۔
لیکن یہ تاریخ ہے اور ماضی ہے۔ ماضی کی تاریخ پڑھی جاتی ہے۔ دہرائی جاتی ہے۔ جہاں تک بنانے کا سوال ہے‘ صرف حال اور مستقبل کی تاریخ بنائی جاتی ہے۔ آج ایم کیو ایم جس کھلے میدان میں کھڑی ہے اور تمام نظروں‘ ملامتوں اور تیروں کا ہدف ہے‘ اس سے نکلنا اس کے اختیار میں ہے اور کسی اور کے نہیں‘ اس کے اپنے اختیار میں ہے!
بچہ بھی بخوبی جان سکتا ہے کہ قائدِ تحریک کا دفاع کرنا‘ ایم کیو ایم کے ان رہنمائوں کے لیے جو ملک کے اندر موجود ہیں‘ اب مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ کئی ایسے دلائل ہیں جن کا اطمینان بخش جواب نہیں دیا جا سکتا۔ مثلاً یہ کہنا کہ قائدِ تحریک کارکنوں کی خاطر بیرون ملک مقیم ہیں‘ ایک ایسی بات ہے جس سے اس سیاسی جماعت کی وقعت زیادہ نہیں ‘کم ہوتی ہے! اسی طرح مصطفی کمال جیسے مقبول عام اور بے مثال کارکردگی دکھانے والے کارکنوں کو منظرعام سے کیوں اور کس طرح ہٹا دیا جاتا ہے‘ اس کا جواب بھی کوئی نہیں دیتا! ہاں! ایک بات ضرور سمجھ میں آتی ہے‘ وہ یہ کہ جن لوگوں نے تین عشرے ایم کیو ایم میں گزارے ہیں‘ وہ اب کہیں اور کیا جائیں گے! اس لیے طوعاً و کرہاً انہیں پالیسیوں کا دفاع بھی کرنا پڑتا ہے اور قائدِ تحریک کی سیماب صفت کیفیات اور بیانات کو سنبھالنا بھی پڑتا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح ساری زندگی سیاست کے خارزار میں پابرہنہ چلنے والے سفید سر رہنمائوں کو کبھی حمزہ شہباز کے سامنے اور کبھی بلاول کے سامنے آمنا بھی کہنا پڑتا ہے اور صدقنا بھی! اس لیے کہ اب کہاں جائیں گے اور کون قبول کرے گا ؎
عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومنؔ
آخری عمر میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
یہ تو پارٹی کی داخلی حرکیات ہیں! رہا خارج کا معاملہ‘ تو تحریکِ انصاف کی صورت میں ایم کیو ایم کو ایسا چیلنج درپیش ہے جس کی مثال تشکیل سے لے کر آج تک نہیں ملتی۔ تحریکِ انصاف کے رہنما پر مالی بددیانتی کا الزام ہے نہ تشدد کی سیاست کا۔ اسے یہ بھی فائدہ ہے کہ وہ وفاق میں برسرِ اقتدار کبھی نہیں رہی اور آثار بتاتے ہیں کہ اقتدار میں آئی تو غالباً میرٹ کی پذیرائی کرے گی‘ اقربا پروری اور دوست نوازی کا خاتمہ کرے گی اور ٹیکس نیٹ کو وسیع تر کرے گی! کراچی کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہتر سیاسی شعور رکھنے والی آبادی کا تحریک انصاف کی سمت کھنچے چلا آنا فطری اور منطقی ہے!
ایم کیو ایم کے قائد جس دن لندن کے ایئرپورٹ پر اترے تھے‘ تاریخ پر نظر رکھنے والے اسی دن کہہ اٹھے تھے کہ پاکستانی اندازِ سیاست یہاں جلد یا بدیر رنگ لائے گا۔ منی لانڈرنگ پاکستان میں تو ہو سکتی ہے اور عشروں تک ہو سکتی ہے‘ یہاں ڈیرے چلا کر‘ بڑے بڑے عالی شان اداروں میں بیٹھا جا سکتا ہے اور ٹیکس ادا کیے بغیر لیڈری اور منسٹری کی جا سکتی ہے مگر یہ سب کچھ کفار کے ملکوں میں نہیں کیا جا سکتا۔ ایم کیو ایم کے لیے ایک اور ابتلا یہ آن پڑی ہے کہ چند روز قبل قائدِ تحریک نے جن تین حضرات کے بارے میں ہدایت کی تھی کہ جانشین ان میں سے ہوگا‘ ان میں سے ایک گرفتار کیے گئے‘ ان کے گھر کی تلاشی لی گئی‘ دستاویزات قبضے میں کر لی گئیں اور پھر ضمانت پر رہا کیا گیا۔ صولت مرزا کے الزامات‘ ان کی قانونی حیثیت جو بھی ہو‘ ایک مخصوص فضا پیدا کرنے کے حوالے سے اس کے علاوہ ہیں!
ایم کیو ایم کے لیے اب دو ہی راستے ہیں۔ ایک یہ کہ جس ڈگر پر وہ چل رہی ہے‘ چلتی رہے اور یوں اپنے آپ کو تاریخ کے تھپیڑوں کے حوالے کردے اس لیے کہ ہر حال میں فردِ واحد کا دفاع کرنا‘ ہر قسم کے الزامات سے انکار کرنا اور اُن رہنمائوں کو بدستور پارٹی کے اندر بلند مقام پر رکھنا جو متنازعہ ہو چکے ہیں‘ ایسا رویہ ہے جو جلد یا بدیر پارٹی کو تاریخ کی تندوتیز موجوں کے طاقت ور ریلے کی نذر کردے گا۔ تاریخ وقت کی طرح ہوتی ہے۔ اس کی اپنی رفتار اور اپنی قیامتیں ہیں! تاریخ چکی ہے جو چلتی رہتی ہے ؎
پیستی جاتی ہے اک اک کو ظہورؔ
آسیائے گردشِ لیل و نہار
تاریخ کی لہروں کو کسی پریس کانفرنس سے روکا جا سکتا ہے نہ بائی کاٹ سے، نہ واک آئوٹ سے، نہ ہی تاریخ کی تفتیش میں ضمانت کی سہولت میسر ہے!
ایم کیو ایم کے لیے دوسرا راستہ یہ ہے کہ تین عشروں کے طریقِ کار پر مکمل نظرثانی کرے۔ کشتی کے لیے جو جو بوجھ بن رہا ہے‘ اُسے کشتی سے اتارے۔ زبانِ خلق کو سنجیدگی سے نقارۂ خدا سمجھے۔ اُن چیزوں کا دفاع نہ کرے جن کا دفاع مضحکہ خیز لگتا ہے۔ کراچی کے عوام کو سیکٹر کمانڈروں کے ذریعے نہیں‘ دلوں کی راہ سے قائل کرے کہ وہ بھی اقربا پرستی‘ دوست نوازی‘ تشدد اور اسلحہ کی سیاست سے اسی طرح پاک صاف ہے جس طرح تحریک انصاف کا دعویٰ ہے! اس کے جن رہنمائوں کے اہل و عیال ملک سے باہر رہتے ہیں‘ اور وہ نیمے دروں نیمے بروں ہیں وہ یا تو مکمل دروں ہو جائیں یا پورے کے پورے بروں ہوں! ایم کیو ایم کو مان لینا چاہیے کہ ٹی وی اور وی سی آر بیچ کر کلاشنکوف خریدنے کا فلسفہ بیکار ثابت ہوا۔ اب ٹی وی اور وی سی آر کا زمانہ بھی لد چکا۔ کراچی کے ہر نوجوان کے پاس لیپ ٹاپ اور کتاب ہونی چاہیے۔ تیز رفتار موٹر سائیکل پر بیٹھ کر نشانہ لینے والا راستہ خودکشی کا راستہ ہے۔ ایم کیو ایم کو اہلِ حکمت و دانش سے رہنمائی لینا ہوگی کسی پہاڑی اور کسی لنگڑے سے نہیں۔ وقت کم ہے۔ تاریخ انتظار کر رہی ہے ؎
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل چکا
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔