پس چہ باید کرد اے اقوام شرق؟
——————————–
حکیم الامت کی ایک تصویرمشہور مجسمہ The Thinkerr جیسی ہے کہ وہ ایک ہاتھ سر کے نیچے رکھے سوچ رہے ہین۔۔۔وہی جو اوپر لکھا ہے۔۔کہ آخر کیا کیا جاۓ برادران اسلام۔برادران وطن۔۔برادرن مشرق۔۔زیزدہ متفکر وہ ہم وطنوں کیلےؑ تھے کیونکہ وہ اقوام مغرب کی طاقت اور ترقی کے پیچھے ان کی متحرک ذہنی قوت کو دیکھ بھی آےؑ تھے۔۔اور ان کواقوام شرق سے زیادہ ہم وطنون کی کم علمی و کم عملی یون نظر آرہی تھی جیسے مان کو بچے کی معزوری۔۔ جو نظربھی اتی ہے دکھی بھی کرتی ہے۔۔انہون نے واویلا کیا کہ ؎ نہ سمجھوگے تو مٹ جاوگے اے ہندوستان والو۔۔تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانون میں۔۔ کسی نے نہیں سنی۔۔ مسلمان تھے کہ عظمت رفتہ کے قصوں میں منہمک
انگریزکو الزام دینے سے بات نہیں بنتی۔۔ کتابون میں پڑھو تو کیا دبدبہ تھ کیا شان و شوکت تھی اور کیا فتوحات کا غلغلہ تھا۔۔لیکن ہزاروں میل دور سے فرنگی کی نظر نے تاڑ لیا کہ یہ انارکلیوں کے رسیا۔۔ دربار سجانے اور رقص و موسیقی کے دلدادہ۔۔محل مقبرے اور باغات کے شوقین دنیا کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔۔اچھے موسم مین ساحل کے قریب کشتی میں مچھلی پکڑنے بھی جاییؑں تو امام ضامن بندھواتے ہیں ۔ان کو غلام بنانا کیا مشکل ہے۔۔ جب بابر نے مغل حکومت کی بنیاد رکھی تو برطانیہ میں یونیوسٹی قایم ہو چکی تھی اور ہالینڈ میں بنکنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔۔فرنگی کافروں کو قریب میں کویؑ آسان حریف نہ تھا ہ
ہزارون میل سے برطانیہ۔۔ ہالینڈ او فرانس سے براستہ سمندر آکے انہون نے مغل سلطنت کوبندوق کی نہیں اسپرین کی گولی سے تسخیر کرلیا۔مغل شہزادون کو توپ دم کچھ دن بعد کیا۔۔اسپرین کی گولی کی کہانی یہ ہے کہ جھانگیر کی کسی شہزادی یا ملکہ عالیہ کا بخار نہیں اترتا تھا۔ قوت باہ کے اسپیشلسٹ اور مرغن غزاوں کے ساتھ شراب ناب کیلۓ تقویت جگر کے ٹانک ایجاد کرنے والے شاہی طبیب۔ کم بخت ایک مچھرکی خباثت سے اگاہ نہ تھے جو آدمی کو ہیجڑا بنا دیتا ہے( فرمایا نانا پاٹیکرنے ایک فلم میں بار بار)
سر طامس رو نے اسپرین کی گولی سے بخار اتار دیا تو حسب ؑعادت شہنشاہ مکرم نے فرمایا کہ ولایتی حکیم کا منہ موتیون سے بھر دیا جاےؑ۔وہ گھبرا گیا کہ اس سے تو دم گھٹ کے مرجاونگا۔۔اس نے کہا کہ کہ ظل الہی (معنی۔۔ سایہؑ خداےؑ ذوالجلال)۔۔مجھے تو بمبیؑ کے ساحل پرایک دکان الاٹ کر دیں۔۔درباری اس دیوانے پر ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوےؑہونگے کہ احمق نے مانگا بھی تو کیا۔۔سمندر میں جنوب سے گورا مشرق میں کلکتہ گیا پھر مغرب میں کراچی ۔۔شمال میں تو پہاڑ تھے۔۔۔اور پھرچشم فلک نے آخری مغل شہنشاہ کی جلا وطنی اور شہزادون کے توپ دم کےؑ جانے کا منظر بھی دیکھا۔۔درد ناک شاعری کے علاوہ اس پر رقت انگیز ناول ابھی تک لکھے جارہے ہیں۔۔ تازہ ترین ہے سید محمد اشرف کا" آخری سواریاں"۔۔اس سے پہلے "کیؑ چاند تھے سر آسمان" ادبی دنیا میں تہلکہ مچا چکا ہے۔دور خلافت راشدہ۔۔ ۔ سومنات کے بت شکن ۔۔ فاتح اندلس طارق بن زیاد اور دنیا کے سب سے کمسن سپہ سالار محمد بن قاسم کی کہانیوں پر فخرہمارا سرمایہ ہے۔۔(ان دو کو خود ہم نے کیا درس عبرت بنایا ،یہ ہم نہ پڑھتے ہیں نہ پڑھنے دیتے ہیں)
اصل واقعاتی تاریخ لکھنے کی روایت ہم نے ڈالی ہی نہیں۔۔صرف تعریف و توصیف پر مبنی سیرت لکھنے کی البتہ اجازت اور روایت تھی چنانچہ دین الہٰی کے بانی فلم مغل اعظم فیم اکبر ۔۔ اور پھر کسی بھایؑ اور کسی نماز کو نہ چھوڑنے والے آخری رحمت اللہ علیہ اورنگ زیب دونو نے 49 سال یعنی نسف صدی حکومت کی لیکن کویؑ بتا سکتا ہے کہ ان کا جنازہ کیسے اور کب اٹھا؟ یا زنجیر عدل والے اور فلم پکار فیم کے جہانگیر۔۔ دنیا کا ساتوان عجوبہ سنگ مرمرمیں غزل محبت کا لافانی شہکار تاج محل بنانے والے فلم شاہجہاں فیم والے انجینییؑر بادشاہ۔۔ تخت پر ان سب کے روز و شب کے ہر لمحہؑ شان و شکوہ کا احوال توشاہی مورخ نے لکھا۔۔ ۔۔۔مگر ان کی شاندار تدفین کے جلوس۔۔رعایا کے لاکھوں افراد کی اشک فشانی اور سینہ کوبی اور سہیم چہلم تک سرکاری سوگ کی روداد پر کہیں ایک لفظ نہیں
اب یہ بات کسی اور طرف نکل گیؑ لیکن کیاکسی مستند حوالے سے اس روایت کی تردید کویؑ کر سکتا ہے کہ کسی بھی شہنشاہ کی موت کا اعلان عام نہیں ہوتا تھا؟ اس کی میت کو نےؑ بادشاہ کی تخت نشینی کے لےؑ لایا جا تا تھا۔وہ اس پر پاوں رکھ کے تخت پر بیٹھتا تھا اور پھر خدام اسے کسی پچھلے دروازے سے نکال کے کسی گمنام گوشے میں گاڑ دیتے تھے۔ان کے مقبرے بہت بعد میں بنتے تھے۔اکبر اورنگزیب شاہجہاں کے مقبرے مشہور نہیں جہانگیر کا نورجہاں نے بنایا تھا لیکن اس کا اپنا تو ایک شکستہ و خستہ حال کوٹھری ہے
یہ تھی وہ تاریخ ضس کا بینڈ ہم بڑے فخر سے بجاتے رہے لیکن کب تک؟ گورون نے ا کے ہمارا بینڈ بجادیا،،مگر اس سے پہلے کا آحوال کون سا مختلف ہے۔بابر ترکی سے آیا۔۔محمود غزنوی افغانستان سے،،سکندر اعظم یونان سے۔۔۔۔چنگیز خان منگولیا سے ( ہم میں ایسے بھی ہیں جو ان کو بھی مسلمان سمجھتے ہیں)۔اخر کیا وجہ ہے کہ جس کا دل چاہتا تھا ہندوستان آجاتا تھا۔یہ سونے کی چڑیا مشہور تھا۔ مگراتنا آساں ہدف کیوں رہا؟۔۔۔ یہ بھی واضح نہیں کہ ہندوستان تھا کیا۔۔کہاں سے کہاں تک کا علاقہ ہندوستان کہلاتا تھا؟۔۔آج کی طرح ایک ایک انچ کی جغرافیایؑ حد بندی تو خیر نہیں تھی کیونکہ کہیں پاسپورٹ وغیرہ نہیں تھا ۔جس کا جہان جی چاہے جاےؑ۔۔ان گوروں کیلےؑ کسی قریب کے ملک پر لشکر کشی میں کیا مسیلہؑ تھا؟
میرا خیال ہے کہ یہ کم ہمت دماغ سے محروم کاہل جاہل بے عقل بے شعورافراد کے گروہ پر مشتمل اقوام کے ایک خطے کا نام تھا اور ان کی اصل کمزوری تھی ذہنی پسماندگی۔یہندوستان ( بشمول پاکستان ) روایت پسند لکیر کے فقیر۔ کنویں کےمینڈک جیسے انسانوں کی undefinedآبادی تھی۔۔اور ہےجہان نہ کویؑ ہومریا ارسطو پیدا ہوا نہ شیکسپییؑر۔نہ ایڈیسن نہ ابن الہیثم ۔جہان کچھ بھی ایجاد نہیں ہوا۔۔مکیؑ آلو سےچاےؑ کافی سگرٹ مدافعتی ٹیکا۔عوامی بیماریون کا علاج پرنٹنگ پریس کرنسی ،تریفک رولز تک انگریز لاےؑ ،باوا ادم کے زمانے سے جو تھا وہی چلتا رہاInnovation صفر،،یکہ تانگا۔ رہٹ۔ ہل۔ چکی ۔ بیل گاڑی۔ پاندان ۔حقہ۔ لسی۔ دھوتی یاتہمد(جس کا زنانہ ایڈیشن ساری ہے) سب وہی ہیں چھوتے قصبوں اور دیہات کی اکژیت آج بھی گھوڑون کے نعلیں ٹھوکتی ہے لکڑی کے پہیون پر لوہا چزھاتی ہے۔جن بھوت چڑیل اوراسیب کالے عمل اور جادو ٹونے پر یقین رکھتی ہے
اکثریت۔سوچ نہیں بدلتی۔۔تبدیلی کے خلاف ہے۔خیال کی آزادی سے خایف ہے۔۔ لبرل کا لفظ گالی بنالیتی ہے جب کہ اس کا مطلب آزاد خیال سے زیادہ کچھ نہیں۔۔جو آقاے دوجہاں ؑؑ ﷺ اگر نہ ہوتے تو ابا و اجداد کے پرانے مسلک پر چلتے رہتے اور غلط معاشرتی اقدار کے خلاف آواز نہ اٹھاتے۔۔یہ اقدار ازلی اور ابدی کیسے ہو سکتی ہیں جب کہ وقت ایک مسلسل تغیرکا نام ہے
ایسی صورت حال میں شاعر مشرق کی فکر جایؑزتھی کہ اخر کیا کیا جاےؑ؟ بہت بڑی غریب اور محکوم اکثریت کیلؑےؑاسی ذہنی رویے کے باعث دنیا ایک جہنم ہے اور بہت چھوٹئ دولتمند حاکم اقلیت کیلےؑ جنت۔۔ذہن کی کشادگی کے بغیر صور حالات ایسی ہی رہے گی۔۔رکھی جاےؑ گی
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔