آج – ٣٠ ؍ستمبر ١٩١٠
ترقی پسند تحریک کے سرگرم کارکن اور معروف شاعر” پرویز شاہدی صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام سیّد اکرام حسین، قلمی نام پرویز شاہدی۔٣٠ ؍ستمبر١٩١٠ء کو عظیم آباد میں پیدا ہوئے۔ کلکتہ سے 1925 میں میٹرک کیا۔ 1930 میں پٹنہ یونیورسٹی سے فارسی ادبیات میں بی اے کیا اور 1934 میں ایم اے۔ 1935 میں بغرض ملازمت کلکتہ چلے گئے۔ کلکتہ میں ملازمت کے دوران ہی کمیونسٹ تحریک سے وابستہ ہوگئے اور بہت سرگرم طریقے سے پارٹی کے کاموں میں لگ گئے۔ 1949 میں جیل بھی گئے۔ پرویز معاش کے لئے بہت پریشان رہے کئی اسکولوں میں تدریس کے فرائض انجام دئے ۔ آخر عمر میں 1958 سے 1968 تک کلکتہ یونیورسٹٰی میں اردو کے لکچرر کے طور مامور رہے۔
پرویز شاہدی کے دوشعری مجموعے ’رقصِ حیات‘ اور ’تثلیثِ حیات‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ انہوں نے نظم اور غزل دونوں اصناف میں شاعری کی۔ ٥؍مئی ١٩٦٨ء کو انتقال ہوا۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
ترقی پسند شاعر پرویز شاہدی کے یوم پیدائش پر منتخب اشعار بطور خراجِ تحسین…
ابھی سے صبح گلشن رقص فرما ہے نگاہوں میں
ابھی پوری نقاب الٹی نہیں ہے شامِ صحرا نے
—
نہ جانے کہہ گئے کیا آپ مسکرانے میں
ہے دل کو ناز کہ جان آ گئی فسانے میں
—
یاد ہیں آپ کے توڑے ہوئے پیماں ہم کو
کیجئے اور نہ شرمندۂ احساں ہم کو
—
مری زندگی کی زینت ہوئی آفت و بلا سے
میں وہ زلفِ خم بہ خم ہوں جو سنور گئی ہوا سے
—
سخت جاں وہ ہوں کہ مقتل سے سرافراز آیا
کتنی تلواروں کو دیتا ہوا آواز آیا
—
تاج کے سائے میں زر و سیم کے خرمن
کیوں آتش کشکول گدا سے نہیں ڈرتے
—
ملے گی رستے میں تم راہِ گزر کی بات کرو
آغازِ سفر سے پہلے کیوں انجامِ سفر کی بات کرو
—
بحران صدا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ
سناٹا تک چیخ رہا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ
—
بت گریٔ جمال میں گزرا
عہدِ کفر ایک حال میں گزرا
—
موقعِ یاس کبھی تیری نظر نے نہ دیا
شرط جینے کی لگا دی مجھے مرنے نہ دیا
—
اے بے دلو حریف شبِ تار کیوں ہوئے
کچی اگر تھی نیند تو بیدار کیوں ہوئے
—
چھپ کر نہ رہ سکے نگہ اہلِ فن سے ہم
محفل میں جھانکتے ہیں نقابِ سخن سے ہم
—
تم خنک جذبہ ہو بے تابئ فن کیا جانو؟
کیا گزرتی ہے دم فکرِ سخن کیا جانو؟
—
شکایت کر رہے ہیں سجدہ ہائے رائیگاں مجھ سے
نہ دیکھا جائے گا اب سوئے سنگِ آستاں مجھ سے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
پرویز شاہدی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ