پارٹیکل فزکس اور ہم
آج سے قریب قریب 14 ارب سال پہلے جب ایک کثیف گرم ذرے نے پھیل کر ہماری کائنات میں بدلنا شروع کیا تو اس وقت موجود مادہ اور ضد مادہ کو ایک دوسرے کو فنا کر کے توانائی میں بدل جانا چاہیے تھا لیکن کسی طرح مادہ کی کچھ مقدار بچ گئی جس سے بعد مین کہکشائیں، سورج، چاند اور ہم بنے۔ کائنات کے آغاز والا لمحہ اب بگ بینگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
الیکٹران 1897 میں دریافت ہوا، پھر ردرفورڈ نے نیوکلیس دریافت کیا اور کچھ عرصے بعد نیوٹران اور پروٹان بھی دریافت ہو گئے۔ اس کے بعد تو جیسے پارٹیکلز کے دریافت ہونے کا ایک سرکس سا لگ گیا۔ پارٹیکلز بہت تیزی سے دریافت ہونے لگے جب کہ سائنسدانوں کے پاس ان پارٹیکلز کی گروہ بندی کا کوئی ذریعہ موجود نہ تھا۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے کسی نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ اب جو سائنسدان نیا پارٹیکل دریافت کرے اس کو دس ہزار ڈالر(جو کہ اس وقت نوبل انعام کی انعامی رقم کے برابر تھی) جرمانہ کیا جائے۔
یہی نہیں بلکہ زمیں پر موجو د ذرات یا پارٹیکلز کی ماسز(masses) بالکل اتنی ہی ہیں جتنی زمین پر زندگی کے وجود کے لیے چاہیے، اگر یہ تھوڑی سی بھی کم یا زیادہ ہوتی تو زندگی کا وجود جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں، نہ ہوتا۔ خیر یہ باتیں تو ایک طرف یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ان سب پارٹیکلز کا ہماری زندگی سے کوئی بلاواسطہ تعلق بھی ہے؟ آخر لارج ہیڈرون کولائیڈر میں انہی پارٹیکلز کو دیکھنے کے لیے اربوں ڈالر لگائے جا رہے ہیں۔
ہمارے جسم کا تقریباً ننانوے فیصد حصہ ہائیڈروجن، آکسیجن، نائٹروجن اور کاربن کے جوہروں سے مل کر بنا ہوا ہے۔ جب کہ بہت کم مقدار ان عناصر کی بھی موجود ہے جو زندگی کے لیے ضروری ہیں، جیسا کہ آئرن۔
یہ ہائیڈروجن کے جوہر بگ بینگ کے دوران بنے تھے جب کہ نائٹروجن، آکسیجن اور کاربن ستاروں کے اندر بنتے ہیں۔ ہمارے سورج کے اندر بھی یہی عمل وقوع پذیر ہو رہا ہے جس سے ہمیں روشنی بھی ملتی ہے۔ سورج میں ہائیڈروجن کے جوہر آپس میں مل کر یہ بھاری عناصر بناتے ہیں۔ یہ عمل فیوژن کہلاتا ہے، یہ تقریباً پانچ ارب سال سے جاری ہے اور سورج میں ابھی اتنی ہائیڈروجن موجود ہے کہ یہ اتنے ہی عرصے تک مزید روشنی فراہم کر سکتا ہے۔
جوہر یا ایٹم دو حصوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ایک حصہ مرکزہ یا نیوکلیس کہلاتا ہے اور ایٹم کے مرکز میں ہوتا ہے جبکہ دوسرا حصہ برقیوں یا الیکٹرانز پر مشتمل ہوتا ہے جو مرکزے کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ ایٹم کا سائز کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ الیکٹرانز مرکزے سے کتنے فاصلے پر گھوم رہے ہیں۔ مرکزہ ایٹم سے تقریباً ایک لاکھ گنا چھوٹا ہوتا ہے۔ یعنی کہ اگر مرکزہ ٹینس کے گیند کے جتنا ہو تو اس کے گرد الیکٹران تقریبا چار کلو میٹر کے فاصلے پر چکر لگا رہا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایٹم کا زیادہ تر حصہ خالی ہے۔ اگر ہم ایٹمزکے بیچ میں سے اس خالی حصے کو نکال دیں تو سارے انسان(سات ارب) چینی کے ایک دانے (sugar cube)میں سما سکتے ہیں۔
اگر جوہروں کا زیادہ تر حصہ خالی ہے تو پھر ہماری کمیت یا ماس کہاں سے آتی ہے؟ ایٹم کا مرکزہ پروٹانز اور نیوٹرانز سے مل کر بنا ہوتا ہے اور یہ پروٹانز اور نیوٹرانز مزید چھوٹے ذرات سے مل کر بنتے ہیں جنہیں کوارکس کہا جاتا ہے۔ کوارکس جدا جدا نہیں رہ سکتے، یہ دو یا تین کے گروہوں کی صورت میں پائے جاتے ہیں۔ جو ذرات ان کو ان گروہوں میں باندھ کر رکھتے ہیں وہ گلو آنز (gluons) کہلاتے ہیں۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ ہماری تمام کی تمام ماس ان کوارکس کی حرکی توانائی اور گلوآنز کی بندھنی توانائی (binding energy) سے آتی ہے۔
ہمارے جسم قدرتی تابکاری کا ذخیرہ بھی ہیں۔ ہمارا جسم تقریباً چالیس ملی ریم(40 milirem) تابکار شعاعیں سالانہ ہمارے جسم میں پیدا ہونے والی تابکاری سے جذب کرتا ہے۔ یہ اتنی ہی شعاعیں ہیں جو چھاتی کا چار بار ایکسرے کرانے سے آپ کے جسم میں جاتی ہیں۔ آپ بہت ساری شعاعیں خارج بھی کرتے ہیں۔ بہت سارے پھل اور ڈرنک جو آپ پیتے ہیں ان میں تابکار عناصر جیسا کہ پوٹاشیم۔ 40 اور کاربن۔ 14 موجود ہوتے ہیں جو بالآخر آپ کے جسم میں شعاعیں خارج کرتے ہیں۔ پوٹاشیم۔ 40 پازیٹران(positron) خارج کرتا ہے جو کہ الیکٹرون کا ضد ذرہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے اندر کچھ مقدار ضد مادہ کی بھی موجود ہے۔ ان ذرات کی پیدا ہونے کی شرح چار ہزار ذرات فی دن یاپھر180 ذرات فی گھنٹہ ہیں۔ لیکن یہ ذرات فوراً ہی الیکٹرانز کے ساتھ مل کر فنا ہو جاتے ہیں۔
کاسمک شعاعیں بیرونی سپیس سے آنے والی زیادہ توانائی کی شعاعیں ہیں۔ جب یہ ہمارے کرہ ہوائی میں داخل ہوتی ہیں توجوہری مرکزوں سے ٹکراتی ہیں جس کی وجہ سے اور بہت سارے ذرات پیدا ہوتے ہیں۔ جن میں میزانز (Mesons)اور نیوٹرینو(Neutrino) شامل ہیں جو زمین پر پہنچتے ہیں اور ہمارے جسموں سے گزرتے ہیں۔ نیوٹرینو سورج کے اندر سے بھی خارج ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے جسم سے ہر سیکنڈ میں ایک لاکھ ارب نیوٹرینو گزرتے ہیں۔ لیکن یہ ذرات مادہ سے اتنا کم تعامل کرتے ہیں کہ ہمارے جسم پر ان کے گزرنے کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اگر سارے نظامِ شمسی کو سیسے سے بھر دیا جائے تو بھی نیوٹرینو اس کے آر پار یوں گزر جائیں گے جیسے کچھ موجود ہی نہیں تھا۔
مرئی مادہ جس سے سورج، جاند، سیارے، کہکشائیں اور ہم سب بنے ہیں کائنات میں موجود کل مادے کا صرف 5 فیصد بناتے ہیں۔ باقی کا حصہ تاریک مادہ اور تاریک توانائی پر مشتمل ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ان کے ذرات بھی ہر لمحہ ہمارے جسم سے گزرتے ہیں لیکن وہ ہم سے تعامل نہیں کرتے۔
اگلی بار جب آپ یہ سوچیں کہ پارٹیکل فزکس کا ہم سے کیا تعلق ہے؟ تو اپنے اندر جھانک لیجیے گا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“