ارشد خالد ۔پارٹ ٹائم شاعری کے تنا ظر میں
ارشد خالد صاحب سے میری ملاقات لگ بھگ ایک سال قبل اُن کی رہائش گاہ لوہی بھیر، اسلام آبا د میں ہوئی ۔ ایم ۔فل کے مقالے کے لیے مجھے کچھ کتابیں درکار تھیں ۔ ہمارے نگران اُستاد جناب نذر خلیق صاحب نے مطلوبہ کتب ارشد خالد صاحب کے پاس ہونے کی تصدیق کی اور ان سے کتابیں لے لینے کی تاکید کی ۔چونکہ میں اسلام آباد کے راستوں سے زیادہ واقف نہیں اس لیے اپنے ایک محسن کی راہ نمائی میں ارشد خالد کی رہائش گاہ پر پہنچے ۔ پیشگی اطلاع موصول ہو جانے کے باعث موصوف کتابیں لیے پہلے سے اپنے دروازے پر ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے ۔ اس موقع پر نہایت مختصر ملاقات ہوئی جو رسمی دعا وسلام پر مبنی تھی۔ پہلا تاثر جو اُ ن کی شخصیت کو دیکھنے کے بعد ملا ،وہ
اُن کی عاجزی اور انکسار تھا۔
ارشد خالد صاحب کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’’پارٹ ٹائم شاعری‘‘ جو اُنکی نظموں پر مشتمل ہے
میں میرے اِ س موقف کی تائید خود ارشد خالد صاحب اِن الفاظ میں یوں کرتے ہیں :
’’کسی دعوے کے بغیر اور کسی تقاضے کے بغیر نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ اپنا یہ مجموعہ ادبی دنیا کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔ قارئین کو کچھ پسند آجائے تو یہ ان کی مہر بانی ہو گی۔ جو پسند نہ آئے اِ س کے لیے در گزر سے
کام لیں‘‘ـ ۔
میری رائے میں ارشد خالد صاحب کے اِس شاعری کے مجموعے کا عنوان بھی اُن کی منکسرالمزاجی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اُنہو ں نے اپنی شاعری کے حوالے سے کوئی بلند و بانگ دعوے نہیں کیے۔ اِس حوالے سے شہناز خانم
عابدی لکھتی ہیں:
’’ارشد خالد نے اپنی کتاب کا نام ــ’’ پارٹ ٹائم شاعری ‘‘ رکھا ہے۔ شاید اس لیے کہ وقت نہ ملنے کے سبب فرصت کی کچھ گھڑیاں چرا چرا کر وہ شاعری کرتے رہے ۔ اور انہوں نے ایمان داری کے ساتھ اس کتاب کا نام ’’
پارٹ ٹائم شاعری ‘‘ رکھا۔
حیدر قریشی صاحب کی زبانی مجھے جب معلوم ہوا کہ ارشد خالد صاحب کی شاعری کا مجموعہ شائع ہوا ہے تو یہ بات میرے لیے چونکا دینے والی تھی اِ س لئے نہیں کہ شاعر حضرات کسی اور دنیا کے لوگ ہوتے ہیں بلکہ اِس کی وجہ یہ تھی کہ ارشد خالدکی شخصیت نہایت سادہ اور ہر قسم کی بناوٹ اور تصنع سے پاک نظر آتی ہے ۔ ایسے لوگ الفاظ کے گورکھ دھندے سے کہاں الجھتے ہوں گے۔ جب کبھی ان سے فون پر بات چیت بھی ہوئی تو مسلسل اردو زبان میں بولنے کے بجائے وہ پنجابی زبان میں منتقل ہو جانے میں زیادہ آسانی محسوس کرتے ہیں چاہے مخالف سمت بات کرنے والا میری طرح پنجابی سے بالکل نابلدہو۔ ایسی ہستی کا اردو شعری مجموعہ شائع ہو جانا میرے لیے اچنبھے اور خوشگوار حیرت کی بات تھی ۔لہذٰا جب عکاس ۲۳ کے حوالے سے اُن سے بات ہوئی تو میں نے دانستا ً اُ ن کی شاعری کی کتاب کا ذکر کیا اور اُ ن کی کتاب شائع ہو نے پر مبارکباد پیش کی ۔ ہمیشہ کی طرح شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند دیگر کتب کے علاوہ اُ ن کی
شاعری کی کتاب ’’ پارٹ ٹائم شاعری‘‘ بھی دو دن بعد مجھے موصول ہوگئی۔
اگرچہ مختلف ادبی شخصیات نے اُ ن کی نظموں کو پڑھ کر اپنے اپنے انداز میں رائے دی۔ فرحت نواز صاحبہ (جن کا نام لیتے ہی میرے منہ میں شیرینی گھلنے لگتی ہے)ارشد خالد صاحب کی شاعری کے حوالے سے کچھ یوں رائے دیتی ہیں ’’پا رٹ ٹائم شاعری‘‘ ارشد خالد کی نظموں کا مجموعہ ہے۔ اِس میں شامل نظمیں نئی نظم کی روایت اور مزاج کے مطابق ہیں ۔ تاہم جدید نظم کی عمومی فضا سے ہم آہنگ ہونے کے باوجود یہ ارشد خالد کی ایسی پیش کش ہے جو اپنا الگ
انداز رکھتی ہے ۔ اِس مجمو عے کا نام بھی اِس انفرادیت کا مظہر ہے ‘‘
میری رائے یہ ہے کہ ارشد خالد صاحب نے اپنی شاعری کی کتاب کا نام ’’ پارٹ ٹائم شاعری ‘‘ اِس لیے تجویز کیا کیوں کہ طبعاً منکسر المزاج ہونے کے باعث انہوں نے قدرے ڈرتے جھجکتے ایسی شاعری کو قارئین کے سامنے پیش کیا اور عام روایت کے مطابق کتاب کا نام کسی منفرد سوچ ، نادر خیال ، شاعرانہ مرصع سازی کی نذر نہیں ہوا بلکہ یہ عام سا نام ہی پڑھنے والوں کے لیے باعث ِ کشش بنا اور اُن کی شاعری پر رائے دینے سے پہلے ادبی شخصیات نے اُن کی
کتاب کے نام پر تبصرہ ضرور کیا۔ایوب خاور صاحب اپنی رائے کا اظہا ر اِ س حوالے سے کچھ یوں کرتے ہیں۔
’’ارشد خالد اِن شعرا میں سے ہیں جو ’’عکاس‘‘ کے ذریعے اپنی پروجیکشن کی بجائے معاصر ادب پر توجہ دیتے ہیں اِ سی لیے شاید انہوں نے اپنے مجموعے کا نام پارٹ ٹائم شاعری رکھا ہے۔ پارٹ ٹائم کو عمومی طور پر لوگ ایسا وقت سمجھتے ہیں جس میں لوگ کم اہمیت کے حامل کاموں کو انجام دیتے ہیں ۔مگر ارشد خالد کی نظمیں بتاتی ہیں کہ یہ پارٹ ٹائم
میں کیے جانے والے کاموں میں سے نہیں ہیں‘‘
اگر ہم غور کریں تو شاعری فراغت اور ذہنی و قلبی اطمینان کے ساتھ ہی کی جاتی ہے ۔ بھاگتے دوڑتے معمولات میں تھکاوٹ ہو جا نا تو فطری بات ہے مگر اچھی اور معیاری شاعری کا جنم لینا کم ازکم مجھے ممکن نظر نہیں آتا ۔ کوئی بھی شاعر اُس وقت شاعری تخلیق کرتا ہے جب وہ دنیا کے شورو غل اور ہنگاموں سے خود کو الگ کر کے صرف اپنے اندر جھانکنے لگتا ہے ۔ کوئی شام رنگین ، طلوع صبح ، کسی وادی کا پر سکون خاموش منظر، رات کا پچھلا پہر اور تنہائی کے کچھ لمحے انسان کی
ملاقات اپنے باطن سے کرواتے ہیں اور پھر جو کچھ باطن میں نہاں ہو تا ہے وہی زینت قر طاس ہو جا تا ہے ۔
مومن خان مومن فرماتے ہیں ۔
تم میرے پاس ہوتے ہو گو یا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
ارشد خالد صاحب نے سیدھے سادھے انداز میں اپنی شاعری کو پارٹ ٹائم شاعری کا نام دے دیا
جب کہ یہ مشغلہ تو ہے ہی پارٹ ٹائم کا ۔عبداللہ جاوید اِس نکتے کو یوں بیان کرتے ہیں :
’’ارشد خالد نے اپنی نظمیں اپنے فارغ وقت ((Part Timeمیں کہی ہیں لیکن اس میں سموئی ہوئی شاعری اپنی فطرت ، مزاج اور ادبی قدر کے لحاظ سے فارغ وقتی ( پارٹ ٹائم ) نہیں ہے۔ یہ ذہن اور قلب پر دیر پا
اثرات مرتب کرنے والی زندگی کی سچائیوں سے بھر پور اور دلچسپ شاعری ہے۔ پڑھ دیکھئیے ۔‘‘
ارشد خالد صاحب کی نظمیں اُ ن کی ذات کے اُن پوشیدہ گوشوں کی طرف راہ نمائی کرتی ہیں جو شاید اُ ن لوگوں پر تو عیاں ہوں جو اُ ن سے نہایت قریب تر ہوں مگر اُن سے چند ملاقاتیں اور عمومی بات چیت کرنے والے لوگ جب اُن نظموں کے موضوعات اور اُن کے اندازِ فکر سے آشنا ہوتے ہیں تو ایک نئے ارشد خالد کو دریافت کرتے ہیں ۔ عبد اللہ جاوید صاحب نے اُن کی شاعری کو پڑھنے کے بعد اُن کی شخصیت کے جن پہلوؤں کو دریافت کیا ہے اُ ن کو وہ کچھ یوں
بیان کرتے ہیں ۔
’’ــــارشد خالد کی نظموں سے ان کی شخصیت کے بارے میں یہ آگاہی بہم ہوتی ہے کہ انہوں نے زندگی کو خوب بھگتا ہے ۔ زندگی کے تلخ و شیریں ذائقوں سے آشنائی پیدا کی ہے ۔ وہ علم و حکمت سے بہرہ ور ہو کر بھی عقیدے ، متھ((Mythسے جڑے ہوئے ہیں ۔ ذات اور کائنا ت سے آگے رب کائنات کی جانب ان کا ذہنی اور قلبی جھکاؤ ہے۔ نا کامیوں ،محرومیوں، دکھوں اور زندگی کی کر ب ناکیوں کو انہوں نے لوازمات کے طور پر لیا اور کسی مرحلے پر نہ تو ہراساں ہوئے نہ ہی شکست خوردہ ۔ زندگی کے تجربات کو انہوں نے چھوٹے چھوٹے دانشمند انہ نتائج کی صورت دی۔
اور اپنی ’’ پارٹ ٹائم شاعری‘‘ میں نہا یت اختصار لیکن ارتکاز سے ابلاغ کر دیا۔
اِ س مجموعے کی پہلی نظم ’’ اسمِ محمد ﷺ‘‘ سادگی ، خلوص ، پرکاری اور عشق رسول ﷺ کی تر جمانی نہایت موثر انداز
میں کرتی ہے۔جیسا کہ علامہ محمد اقبال نے فرمایا ۔
قوت ِ عشق کو ہر پست سے بالا کر دے
دہر میں اسم ِ محمد سے اُجالا کر دے
ارشد خالد صاحب بھی اپنی نظم کے ذریعے اسمِ محمد ﷺ سے اپنی محبت اور والہانہ عقیدت کے اظہار سے عاشقانِ رسول
ﷺ کی بزم میں ایک دیا روشن کر کے اِ س اُجالے میں اضافے کا موجب ہوئے ہیں۔کیا ہی پیا را ا ور پر خلوص اظہار عشق ہے ۔ لکھتے ہیں:
نظم اسم محمد ﷺ
میں جب اسم محمدﷺ
لوح ِ دل پر پیا ر سے
تحریر کر تا ہوں
تو پھر فرطِ عقیدت سے
میں اس کو چوم لیتا ہوں
اے میر ے محمد ﷺ
آپﷺ میرے واسطے
دونوں جہانوں میں
بڑی نعمت ہیں
وہ نعمت۔۔۔۔۔۔
کہ جس کو کائنات ِ عقل و دانش
خود بخود تسلیم کرتی ہے
بڑی تعظیم کرتی ہے
ارشد خالد صاحب کے ہاں حضرت علی کرم اللہ وجھہ، نواسہ رسولﷺ جنتی نوجوانوں کے سردار اور میدان کربلا کا ذکر اُ ن کی عقیدت اور اِن عظیم ہستیوں سے عشق کا اظہار ہے اور بے شک اِن بلند پایہ ہستیوں سے محبت
ہی ایمان کی تکمیل کا موجب ہے۔
عجیب سی ہیں منزلیں
یقیں کی
نواسہ رسولﷺجب
ہوئے سوار دوش پر
تو جیسے رک کے رہ گئے
وقت بھی، نما ز بھی
خطۂ حجاز بھی
ارشدخالد کی چھو ٹی چھوٹی نظمیں، اُن کے دعائیہ لب و لہجہ، اُ ن کے خلوص کی صداقت اور بارگا ہِ الٰہی میں وارفتگی اور سپردگی کی عکاس ہے۔ ان دعائیہ نظموں میں ارشد خالد کا انداز ان مطہر جذبات سے معمور ہے جو دعا کی
قبولیت کی مسند پر جا بٹھاتا ہے۔ اِ س ضمن میں اُن کی نظم’’ دعائیہ نظم ‘‘بھی اپنی مثال آپ ہے ۔
واقعہ کربلا کا دکھ ہر مسلمان کے دل میں جاں گزیں ہے۔اور کربلا والوں کا اعجاز کسی قلبِ ایماں سے پو شیدہ نہیں ۔’’ مجھے اب کربلا جانا پڑے گا‘‘ اور ’’ نیا سویرا ‘‘ جیسی نظمیں اِس حوالے سے ارشد خالد کی عقیدت اور محبت کا مظہر
ہیں۔
ارشد خالد صاحب کی نظم ’’دیکھ سمندر‘‘ اِ س حوالے سے ایک منفرد نظم قرار دی جا سکتی ہے کہ شاعر اِ س نظم میں مخاطب تو سمندر سے ہے لیکن خدا کی قدرت کے اِس مظہر کو گواہ بنا کر تمام کائنات کے خالق سے اپنی بے مثل محبت کا اظہار کرتا ہے۔ یہ اظہار براہ ِراست نہیں بلکہ سمندر کومخاطب کر کے اپنے دل کی گہرائی اور وسعت میں اُس مالک کی محبت کے خزینوں کی موجودگی کا اقرار کرتا ہے اور یہ گہرائی اور وسعت سمندر کی بیکراں وسعت سے کہیں زیادہ ہے۔
حیدر قریشی صاحب اِ س نظم کی تعریف اِ ن الفاظ میں کرتے ہیں:
’’ ارشد خالد کی بعض نظمیں ایسی شاندار ہیں کہ میں نے سچ مچ دل میں خواہش کی کہ کاش یہ خیال مجھے سوجھتا اور میں اسے اپنے انداز میں کہہ سکتا ۔ ایسی نظموں میں ’’ دیکھ سمندر‘‘ اور’’جنت کے گھر‘‘ کا بطور خاص نام لوں گا۔ ‘‘
’’قاتل لمحے ‘‘ ، بوجھل آنکھیں ‘‘ قلب و روح پر گزرنے والی وار دات کی بہترین عکاس ہیں ۔ یوں گمان ہوتا ہے گویا یہ میرے دل کی کہانی ہو۔ اور یہی شاعر کا جذبوں کی کو ملتا کی معراج پر پہنچنا ہے کہ قارئین کو یہ گمان ہونے لگتا ہے گویا یہ اُن کی اپنی کہانی ہو جسے لفظوں کا پیرہن پہنا دینے میں ارشد خالد نے پہل کر دی ۔ ارشد خالد کی محبتیں جہاں ہر جہت میں خلوص و صداقت اور والہانہ پن کا اظہار کرتی ہیں وہاں فطری محبت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے احساسات کی ترجمانی بھی کرتی ہیں۔ نظم ’’ مستقبل‘‘ اِ س لحاظ سے ایک مکمل نظم ہے۔ ’’جنت‘‘، ’’انتظار‘‘، ’’چلو ہم ساتھ چلتے ہیں‘‘، ’’تیری یاد سے ‘‘، ’’ دو صحرائی نظمیں ‘‘، ’’ماضی ‘‘،’’ قسمت‘‘ارشد خالد کی بہترین مختصر نظمیں ہیں جن کو پڑھ کر جذبات کی
گہرائی اِس طرح موجزن دکھائی دیتی ہے گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہو۔
آخر میں نظم ’’اسے کہنا‘‘ کا حوالہ ضرور دینا چاہوں گی جو اک قاریہ کی حیثیت سے مجھے اپنے من کی بات لگی
اور جسے پڑھ کر میری روح نہال ہو گئی ۔
اسے کہنا
محبت رقص کرتی ہے
کبھی گنجان سڑکوں پر
کبھی سنسان رستوں پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے کہنا
محبت پھول اگاتی ہے
کبھی بنجر زمینوں میں
کبھی غم ناک چہروں پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے کہنا
محبت خواب بنتی ہے
کبھی پرنو ر سینوں میں
کبھی بوجھل سی آنکھوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے کہنا
محبت کم نہیں ہوتی
کسی کے دور جانے سے
کسی کے روٹھ جانے سی
میں برملا یہ بات کہہ سکتی ہوں کہ ادب کی دنیا میں ارشد خالد کی اِس کاوش کویقینا سراہا جائے گا کیونکہ ان کی شاعری معیار کی اِ ن سطحوں کو چھو کرگزرتی ہے جو موجودہ دور کے بہت کم شاعروں کے حصے میں
آئیں ہیں۔