مولانا محمدحسین آزاد نے لکھتے ہیں کہ ریگستان عرب سے ایک آندھی اٹھی، اس کے پیچھے گرجتا بادل چمکا تھا۔ خلاصہ یہ کہ ساسانی سلطنت کا اقبال شمشیر اسلام کی قربانی ہوگیا۔ عالی شان آتش خانے ڈھائے گئے۔ دینی و دنیاوی کتابیں ورق ورق اڑیں اور جل کر در خاک ہوگئین۔ اس وقت میں میرے پارسی بھائی وہاں سے بھاگے اور ایمانوں کو بھی بچا لائے۔ تحقیق کی آنکھیں روتی ہیں اس گئے وقت پر جو کسی طرح نہیں آسکتا۔ ان خانہ بربایوں کے ہاں بھی تاریخ کا اخلاق، افسانے، نظم و نثر سب کچھ ہوں گے۔ کیا ان کی عبارتوں کا بھی یہی سیدھا سادہ بے تکلف رنگ تھا۔ افسوس افسوس آج اس عہد کو کہاں سے لائیں اور جو کچھ فنا ہوگیا۔ کیون کر پائیں کہ دوستوں کو دیکھائیں اور کچھ فائدہ نہ اٹھائیں۔
مولانا محمد حسین آزاد ایرانی علم و ثقافت کی تباہی پر ماتم کناں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے بیشتر پارسی بھائی اپنے ایمانوں کو بچالائے۔ مولانا کی بات میں حقیقت ہے کہ نہیں ہم بھی ہم جائزہ لیے ہیں کہ عربوں کی آمد کے بعد واقعی تباہی نازل ہوئی تھی جس کی مولانا بات کر رہے ہیں اور اس میں حقیقت کتنی ہے اور عربوں نے اہل ایران کے علم و مذہب کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا تھا؟ مگر ہم یہاں صرف پارسیوں کی ہجرت پر بحث کرتے ہیں۔
ایرانی مسلمانوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ فاتحین عرب نے ایرانیوں کی مدافعت سے طیش میں آکر ایران کے شہروں کو مسمار، آتشکدوں کو آگ لگادی اور موبدوں کو موت کے گھاٹ اتار یا اور پارسی ادبیات کے ساتھ قابضوں کو بھی مٹا دیا۔ حقیقت میں یہ بھی شاہنامہ کی طرح فسانہ ہے۔
اصخری اور ابن حوقل جو پانچویں ہجری صدی یعنی گیارویں صدی عیسوی میں گزرے ہیں کا بیان ہے فارس کے باشندے اپنے دین پر قائم تھے اور باشندوں کی اکثریت آتش پرست تھی اور کوئی قریہ اور گاؤں ان آتش کدوں سے خالی نہیں۔ دلچسپ بات یہ مسلمان سیاحوں کا بیان ہے کہ لکھنے کی سیاہی ان ہی آتش کدوں کی کالک سے بنتی تھی۔ مقدسی شیراز کے باشندوں کے بارے میں لکھتا ہے کہ ایسی کوئی امتیازی علامت نہیں تھی جس سے مسلمان اور آتش پرستوں میں فرق کیا جاسکتا تھا اور پارسیوں کی حالت نسبتاً اچھی تھی اور وہ اگرچہ مذہبی جوش و تعصب کی وجہ اکثر سازشیں اور بغاوت کرتے تھے۔ مگر اس کے باوجود وہ بڑے بڑے انتظامی عہدوں پر فائز تھے۔ اگرچہ یہ الگ تھلک رہتے تھے تاکہ وہ اپنے قومی اور مذہبی شعار پر قائم رہ سکیں۔
جب کہ ایک روسی محقق نریمان کا کہنا ہے کہ سالا سال تک عرب آثار صنادید عجم کو قدر منزلت سے دیکھتے رہے اور عربوں کی فتح کے بعد کئی سو سال تک پارسی روایات اپنی حقیقی اور قومی صورت میں موجود رہیں۔ نریمان کہتا ہے عربوں کی فاتحانہ حثیت کے باوجود پارسی مذہب کی وقعت اور حرمت ایرانیون اور عربوں کی نظر میں یکساں تھی اور اموی دور میں اکثر باشنے اپنے دین پر قائم تھے۔
طبرستان میں اسپہاد خاندان ساسانی گورنر تھے اور فتح کران کے بعد ایک صدی 760ء تک حکومت کرتے رہے اور ان کے سکے جو اب بھی موجود ہیں اور اس کے گواہ ہیں۔ عرب مصنفین قدیم فارسی کتابوں کی تلاش میں ان موبدوں تک پہنچتے اور ان سے پارسی کتابیں حاصل کرتے اور انہیوں نے ان کا ترجمہ کیا اور انہیں اپنی تصانیف میں محفوظ کرلیا اور ان کی بدولت یہ علمی مواد باقی رہے گیا۔ وہ مزید نریمان نے لکھا ہے ہیں جسیے جیسے مقامی لوگ اسلام قبول کرتے گئے پارسیوں کا اثر و رسوخ کم اور پست ہوگئی اور ان میں سے ایک ٹولی بتدیح مغربی ہند میں آباد ہوگئی۔
پارسیوں نقل مکانی کا ذکر نہ ہی پارسی ادبیات اور نہ ہی مسلمانوں کی کتابوں میں ملتا ہے۔ اگر کہیں ذکر ملا ہے تو صرف ایک کتاب ’قصہ سنجان’میں اس نقل مکانی کا ذکر مبہم انداز میں ملتا ہے۔ یہ کتاب سولیوں صدی کے آخر میں لکھی گئی تھی۔ اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے تسلط کے بعد سو سال تک پارسی ایک پہاڑی علاقہ میں زندگی بسر کرتے رہے پھر ہرمز منتقل ہوئے اور وہاں سے گجرات منتقل ہوئے۔ اس کتاب کی تاریخی اہمیت نہیں ہے۔ لیکن اگر اس کتاب پر یقین کرلیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ پارسی مذہب ایک چھوٹے فرقہ کا مذہب تھا جو کہ چھپ کر پہاڑی علاقہ میں رہ رہا تھا اور یہ لوگ رفتہ رفتہ ہزمز اور ہرمز سے گجرات متقل ہوگئے۔
لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے پارسی مسلمانوں کی آمد سے صدیوں پہلے سے ہندوستان میں آباد تھے۔ مقامی روایتوں اور یونانیوں نے بھی ان کا ذکر کیا ہے۔ سندھ کے ایک بڑے علاقہ کا نام یعنی پراسیاں Parsine یعنی پارسیوں کا علاقہ کہلاتا تھا۔ پارتھی اور سیتھوں کی مشرک حکومتیں قائم رہیں اور یہ وسط ہند تک ان کی علمداری رہی۔ یہ بھی پراسی یعنی پارسی کہلاتے تھے۔ راجپوتوں کے بہت سے خاندان جن میں میواڑ کا گہلوٹ سورج بنسی خاندان بھی شامل ہے نوشیرواں کی اولاد کا دعویٰ کرتے ہیں۔ موریہ خاندان کو بھی پراسی یعنی پارسی کہا گیا ہے۔ جیمز ٹاڈ نے لکھا ہے کہ راجپوتوں کا سب سے بڑا دیوتا سورج تھا اور سورج بنسی پہلے سورج اور آگ کی پوجا کرتے تھے۔ سوراشٹر یا سراشٹر جہاں سورج کے بے شمار شوالے تھے اور اس کو سوراشٹر اس لیے کہاجاتا ہے کہ یہاں سورج کی پوجا کی جاتی تھی، اس کے معنی ملک سارس یعنی سورج کے پجاریوں کا ملک۔ سورج بنسی پہلے صرف آگ اور سورج کی پوجا کرتے تھے۔ ہندوستان کے قدیم طرز تعمیر کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس پر ایرانیوں کا اثر ہے۔ ان میں موریا خاندان کی تعمیرات سرفہرست ہیں۔
برہمنوں کا ایک طبقہ مگو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سورج کی پوجا کرتے تھے اور انہوں نے ایران سے آکر اس پوجا کو قائم کیا۔ رامائن کی روایت کے مطابق رام کے باپ دسترتھ نے سورج کی پوجا کے لیے انہیں ایران سے بلایا تھا۔ مہابھارت کی روایات کے مطابق پراسی اس جنگ میں بھی شریک تھے۔ رگوید میں بھی ان کا ذکر ملتاہے۔ حقیقت یہ ہے یہ قدیم زمانے سے ہی برصغیر میں آباد ہیں اور ممکن ہے عربوں کی فتح کے بعد کچھ باشندے آئے ہوں۔ مگر ان کی اکثریت قدیم زمانے سے برصغیر میں آباد تھی اور نے ہندو مذہب قبول کرلیا اور ایک اقلیت بدستور اپنی روایت پر قائم رہی اور انہوں نے اپنے رابطہ ایران سے نہیں توڑا تھا۔
تہذیب و تر تیب
(عبدالمعین انصاری)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...