کیا آپ میموگرام دیکھ کر پہچان سکتے ہیں کہ چھاتی کا سرطان کس کو ہے اور کس کو نہیں؟ ساتھ لگی تصاویر ان کی مثالیں ہیں۔ اگر آپ تربیت یافتہ پیتھالوجسٹ یا ریڈیولوجسٹ نہیں تو آپ کا جواب نفی میں ہو گا۔ برسوں کے تربیت یافتہ میڈیکل ایکسپرٹ بھی ان کی پہچان میں غلطی کر جاتے ہیں۔ یہ فن کس قدر جلد سکھایا جا سکتا ہے؟ اس پر تجربہ کرنے کے لئے کچھ نوآموز بھرتی کئے گئے جن کو تربیت سے پہلے اس کا کوئی علم نہیں تھا۔ ان نوآموزوں کو تربیت دی گئی۔ میموگرام دکھائے گئے جن میں سرطان تھا اور جن میں سرطان نہیں تھا، انہوں نے ان تصاویر کو دیکھ کر پہچان کرنا سیکھا۔ صرف دو ہفتے کی تربیت کے بعد ان کی ایکوریسی 85 فیصد ہو چکی تھی۔
یہاں پر یہ ذکر کرنا ضروری ہو گا کہ یہ نوآموز میڈیکل ایکسپرٹ انسان نہیں، کبوتر تھے۔
ان کو تربیت پہلے تصاویر کا ایک سیٹ دکھا کر کی گئی تھی جس میں ان کو پہچان کروائی گئی۔ ٹھیک بتانے پر انعام کے طور پر کھانے کو دیا جاتا۔ اس کے بعد ان کو وہ تصاویر دکھائی گئیں جن کو انہوں نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ اور اس میں پہچان کرنا تھی۔ اگر تصویر میں رنگ نہ ہوں یا واضح نہ ہو تو ان کی ایکوریسی کم ہو جاتی، ویسے ہی جیسے انسانوں میں کم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد ان کو ریڈیولوجی کے ٹیسٹ دکھائے گئے۔ اس میں بھی انہوں نے اتنی ہی مہارت حاصل کر لی۔ نہ صرف پہلی تصاویر یاد کر لیں بلکہ نئے دکھائے جانے والی تصاویر پر بھی اتنے ہی اچھے نتائج دے دئے۔
اس سے زیادہ متاثر کن نتائج اس وقت ملے جب ان کی ووٹنگ کروائی گئی۔ یعنی ایک تصویر کو دیکھ کر کتنے کبوتر کیا شناخت کرتے ہیں، اکثریت کا فیصلہ دیکھ کر نتیجہ نکالا گیا۔ اس کو فلاک سورسنگ اپروچ کہا جاتا ہے اور اس سے ایکوریسی 99 فیصد ہو گئی۔
اس تجربے میں صرف ایک کبوتر تھا جو دو ہفتے میں کچھ نہیں سیکھ سکا۔
میڈیکل تصاویر کی پراسسنگ (ایکسرے، مائیکروسکوپ سلائیڈز وغیرہ دیکھ کر نتیجہ اخذ کرنا) آسان کام نہیں۔ اس میں ابھی تک کمپیوٹر کو اتنا اچھا ٹرین نہیں کیا جا سکا کہ وہ اچھے نتائج دے سکے۔ کبوتروں کے اوپر پچھلے پچاس برس میں ہونے والی تحقیق بتاتی ہے کہ تربیت سے یہ خاصے پیچیدہ بصری مسائل حل کر سکتے ہے۔ الفاظ پہچان سکتے ہیں۔ خراب کیپسول کی شناخت کر لیتے ہیں۔ تصاویر کو الگ کیٹیگری میں تقسیم کر لیتے ہیں، پکاسو اور مونے کی تصاویر کو الگ کر لیتے ہیں۔ انسان کے چہروں کے جذبات اور لوگوں کی شناخت سیکھ لیتے ہیں۔ 1800 تصاویر کو یاد رکھ لیتے ہیں۔ (یہ سب کبوتروں پر کئے جانے والے الگ الگ تجربے ہیں)۔ ابھی ہم یہ جاننے سے بہت دور ہیں کہ کبوتر سب کچھ کیسے کر لیتے ہیں لیکن ان پر کئے گئے تجربات کے نتائج حیران کن ہیں۔
اس قسم کے دوسرے تجربات میں کتوں کی حسِ شامہ کے ذریعے تھائیرائیڈ کے سرطان شناخت کرنے اور افریقی چوہوں کے تپ دق (اور بارودی سرنگوں) کی شناخت کرنے پر تجربے کئے جا چکے ہیں۔
نہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کا اگلا ڈاکتر کبوتر یا کوئی اور جانور ہو گا۔ ابھی یہ کام انسانوں کے پاس ہی رہے گا۔ لیکن ان تجربات سے نہ صرف جانوروں کو جاننے میں مدد مل رہی ہے بلکہ ان کا دیکھنے اور نتیجہ نکالنے کا طریقہ سمجھ کر ہم کمپیوٹر کے ذریعے میڈیکل امیج کی پہچان کا سسٹم بھی بہتر کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔
یہ تصاویر ان سیمپلز میں سے ہیں جن کبوتروں کے تجربے میں شامل تھیں۔