ناسا ایک دن بعد یعنی 11 اگست 2018 کو پاکستانی وقت کے مطابق دن 12:33 پہ سورج کی جانب اپنا تاریخی مشن بھیجنے والا ہے جو سورج کے انتہائی قریب پہنچ کر ڈیٹا collect کرے گا اور بالآخر سورج کے قریب جاتے جاتے پگھل کر فنا ہوجائے گا، اس مشن میں نام اندراج کروانے پر مجھے ناسا کی جانب سے سرٹیفیکیٹ بھی موصول ہوا اور میں نے 11 مارچ 2018ء کو ایک آرٹیکل بھی لکھا تھا جس میں سورج کی جانب بھیجے جانے والے مشن کے متعلق تفصیل سے بتایا تھا، وہی آرٹیکل آج دوبارہ آپ سب سے شئیر کرنے لگا ہوں جب اس مشن کی لانچنگ میں ایک دن رہ گیا ہے…
پارکر سولر پروب
انسان ابتداء سے ہی کائنات کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتا آیا ہے ، آسمان کو چھُونا ایسا خواب ہے کہ لٹریچر میں بھی انسان ہر کامیابی کو اسے چھونے سے تعبیر کرتا دِکھائی دیا ، کئی صدیاں پہلے تک ہماری کائنات،ہمارا آسمان فقط چاند،سورج اور چند ستاروں تک ہی محدود تھا لیکن جیسے جیسے حضرت انسان کائنات کی جستجو کے سفر پہ روانہ ہوا ویسے ویسے اُس پر یہ راز عیاں ہوئے کہ ہم آسمان پر رات کو جتنے بھی ستارے دیکھتے ہیں (اندازاً 5 ہزار) وہ تمام کے تمام ہماری کائنات ملکی وے (Milky way)کا حصہ ہیں اور اِن میں سے 3 یا 4 تو ہمارے نظامِ شمسی کے ہی سیارے ہیں ، پھر تحقیق کا دامن تھام کر جب آگے بڑھے تو معلوم ہواکہ ملکی وےکے علاوہ بھی کائنات میں بے پناہ کہکشائیں موجود ہیں اور ہماری کہکشاں ملکی وے جو ایک لاکھ نوری سال پر محیط ہے وہ اِن کائناتوں کے سامنے انتہائی چھوٹی ہے۔ پھر کچھ عرصے بعد معلوم ہوا کہ بلیک ہول نامی پرسرار شے بھی ہماری کہکشاں کی طرح ہر کہکشاں کے وسط میں موجود ہوتی ہے اور تمام ستارے/سورج اس کا چکر لگا رہے ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے ان تحقیقات میں اضافہ ہوا ویسے ویسے انسان حیرتوں کے سمندر میں غرق ہوتا گیا۔ اس خوبصورت کائنات کے متعلق معلومات حاصل کرنے کےلئے کئی مشن خلاء کی اندھیر نگری میں بھیجے گئے۔ آج ہمارے پاس اِن مشنز کی بدولت عطارد، زہرہ، چاند، مریخ، مشتری، زحل الغرض تمام سیاروں کے متعلق معلومات کا خزانہ موجود ہے۔ ان مشنز کے متعلق سوچتے ہوئے 1990ء میں سائنسدانوں کے دل میں ایک عجیب سی حسرت جاگی کہ کیوں نہ ہم ایک غیر انسانی مشن سورج کی جانب بھی بھیجیں۔ اس مشن کا مقصد سورج کے متعلق انتہائی مفید معلومات کا حصول ہوگا۔ یہ خیال آتے ہی سائنسدانوں نے اس متعلق تحقیقات شروع کردیں۔ اس مشن کے لئے ناسا کے ماہرین نے دن رات کام کیا اور آخر کار کچھ سال پہلے اعلان کیا کہ 11 اگست 2018ء کو زمین کے قریب ترین ستارے "سورج" کی جانب ایک غیرانسانی مشن بھیجا جائے گا اور یہ پہلا مشن ہوگا جو کسی ستارے کی جانب تحقیق کی غرض سے بھیجا جائے گا۔ ان مشن کی خاص بات یہ ہے کہ 19 دسمبر 2024ء کو یہ سورج کے انتہائی قریب پہنچے گا ، اس کے بعد سورج کے گرد چکر کاٹتے کاٹتے اس کا مدار چھوٹے چھوٹے سے چھوٹا ہوتا جائے گا بالآخر دسمبر2025ء میں سورج کے قریب جا کر پگھل کر ختم ہوجائے گا۔ اس سے پہلے بھی ناسا اپنے کئی اسپیس کرافٹس (خلائی گاڑیوں) کو دیگر سیاروں سے ٹکرا کر ختم کرچکا ہے جن میں سب سے مشہور کچھ ماہ پہلے کیسینی اسپیس کرافٹ کا زحل سے ٹکراؤ تھا، بہرحال یہ پہلا مشن ہے جسے ناسا نے کسی زندہ سائنسدان Hugene Parker کے نام پر رکھا ہے اور اسی نسبت سے اس مشن کو Parker Solar Probe کے نام سے جانا جاتا ہے۔پارکر سولر پروب مشن کے ذریعے سورج کی ساخت اور اس کی magnetical field کو سمجھنے میں مدد ملے گی،اس کے علاوہ اس مشن کے ذریعے ماہرین کو سورج کے متعلق کئی پیچیدہ سوالات کے جوابات ملنے کی توقع ہے۔ اس مشن کے ذریعے یہ بھی معلوم کیا جاسکے گا کہ سورج پر بڑے بڑے شعلے جنہیں solar flairs کہا جاتا ہے کیوں بنتے ہیں ۔ دورانِ مشن خلائی جہاز سیارہ زہرہ کی کشش ثقل کو استعمال کرتے ہوئے سورج کے قریب ترین مدار میں چکر لگانے کی کوشش کرے گا۔ ہمارے سورج کا زمین سے فاصلہ تقریباً 15 کروڑ کلومیٹر ہے جبکہ یہ سپیس کرافٹ سورج سے محض 60 لاکھ کلومیٹر کی دُوری پر ہوگااس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہےکہ سورج کی روشنی زمین تک 8 منٹ اور 20 سیکنڈز میں پہنچتی ہے جبکہ یہ خلائی جہاز سورج کے اتنے قریب ہوگا کہ سورج کی روشنی کو اس تک پہنچنے میں فقط 20 سیکنڈز لگیں گے۔ اتنا قریب ہونے کے باعث سورج کی حدت وہاں زمین کی نسبت 520 گنا زیادہ ہوگی لہٰذااس میں موجود آلات کو خصوصی طور پر ایسے حالات کے لئے بنایا گیا ہے کہ زیادہ درجہ حرارت کا مقابلہ کرسکیں۔سورج کی گرمائش خلائی جہاز کے اندر کم سے کم پہنچے اس خاطر اس کے باہر کاربن کی 11 سینٹی میٹر موٹی ایک شیلڈ لگائی گئی ہے جو 1500 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرمی کا مقابلہ کرسکے گی اور خلائی جہاز کے خاص حصوں تک radiations نہیں پہنچنے دے گی،اس کے علاوہ خلائی جہازکے آلات کو ٹھنڈا رکھنےکے لئے بھی خصوصی انتظام کیا گیا ہے ،آلات کو بجلی فراہم کرنے کے لئے خلائی گاڑی پر سولر پینلز نصب کئے جائیں گے۔یہ خلائی جہاز 7 سالوں میں سورج کے گرد تقریباً 17 چکر لگائے گا جبکہ سیارہ زہرہ کے گرد تقریباً 7 چکر لگا کر اپنی رفتار کو 200 کلومیٹرفی سیکنڈ تک بڑھائے گا ، جس کے بعد یہ انسانی تاریخ کا سب سے تیز رفتار اسپیس کرافٹ ہونے کا اعزاز اپنے نام کرلے گا۔اس مشن کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ ناسا پوری دنیاسے فلکیات کے چاہنے والوں کو موقع دے رہا ہے وہ بھی اس تاریخی مشن کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اس خلائی جہاز میں ایک چِپ موجود ہوگی جس میں اس دنیا کے باسیوں کے نام موجود ہونگے ، یہ چپ بھی 2025ء میں اس خلائی جہاز کے ساتھ پگھل کر ختم ہوجائے گی۔ آپ اپنے نام کا اندراج مندرجہ ذیل لنک پر جاکر کر سکتے ہیں، آپ کے نام کے اندارج کے بعد ناسا کی جانب سےآپ کو سرٹیفیکیٹ بھی بھیجا جائے گا جسے Hot Ticket نام دیا گیا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہوگا کہ آپ کا نام بھی اس مشن میں شامل کیا گیاہےاور ڈیجیٹل ڈیٹا کی صورت میں سورج کی جانب بھیجا جائے گا (میرا نام تو شامل کردیا گیا ہے اور میں نے سرٹیفکیٹ بھی وصول کرلیا ہے جو آپ نیچے دیکھ سکتےہیں) ذرائع کے مطابق ناسا کو لاکھوں کی تعداد میں نام موصول ہوچکے ہیں۔ آپ بھی اگر اپنے کا نام کا اندراج کروانا چاہتے ہیں تو بنا کسی تاخیر کے فوراً نیچے موجود لنک پر اپلائی کریں اور اس تاریخی مشن کا حصہ بن جائیں!
http://parkersolarprobe.jhuapl.edu/The-Mission/Name-to-Sun/
نوٹ: اس مشن میں اپنے نام کا اندراج کروانے کی آخری تاریخ 28 اپریل 2018ء تھی، لہذا اب اس میں اپنا نام شامل نہیں کروایا جاسکتا.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“