– شارل پیرو (1703-1628)
ترجمہ نگار
– صبا بشیر، زینب فیاض، شاہ زماں حق
ایک زمانے کی بات ہے کہ ایک بیوہ عورت کی دو بیٹیاں تھیں۔ بڑی بیٹی کا مزاج اور چہرہ اپنی ماں سے اتنا مشابہت رکھتا تھا کہ وہ بالکل اپنی ماں کے طرح لگتی تھی۔ دونوں ماں بیٹی اتنی بدمزاج اور اس قدر مغرور تھیں کہ کوئی ان کے ساتھ رہنا گوارا نہیں کر تا تھا۔ چھوٹی بیٹی باپ کی مانند رحمدل اور ایماندار تھی۔ چونکہ فطری طور پرہم اپنے جیسوں کی طرف مائل ہوتے ہیں، بڑی بیٹی اپنی ماں کی چہیتی تھی جبکہ اِس کے برعکس چھوٹی بیٹی سے وہ نفرت کرتی تھی۔ ماں اسے باورچی خانے میں ہی کھانا کھلاتی تھی اور مسلسل اس سے کام کرواتی تھی۔
اس کے علاوہ ماں نے اس بچی کے ذمہ ایک اور کام بھی لگایا تھا اور وہ یہ کہ روز اسے دس فرلانگ کی دوری سےدو دفعہ پانی بھر کر گھر لانا پڑتا تھا۔ ایک روز جب وہ ایک چشمہ نوش کے پاس بیٹھی تھی تب ایک لاچارعورت اس کے پاس آئی۔ آتے ہی اس نے لڑکی سے پانی پلانے کی درخواست کی۔”جی یقیناً”، کمسن لڑکی نے کہا۔ اپنے گھڑے کو فوراً کنگھالتے ہوئے اس نے چشمے کی سب سے عمدہ جگہ سے پانی نکالا۔ پھر اس نے گھڑے کو اس طرح پکڑ کر ٹیڑھا کیا کہ وہ عورت آرام سے پانی پی سکے۔
پانی پینے کے بعد نیک طبیعت عورت نے کہا: “تم اتنی پیاری اور خدمت گزار ہو، میرا دل بہت چاہ رہا ہے کہ میں تمہیں اپنی طرف سے کوئی انعام دوں”۔
دراصل وہ ایک پری تھی جس نے ایک لاچار عورت کا بھیس بدل لیا تھا تا کہ وہ معلوم کر سکے کہ یہ لڑکی کس حد تک خدمت گزار ہے۔
میں تمہیں یہ انعام دیتی ہوں کہ جب بھی تم کوئی جملہ ادا کرو تمہارے منہ سے پھول یا کوئی قیمتی پتھر جھڑے “۔
جب یہ لڑکی گھر لوٹی تب اس کی ماں نے اسے پانی کے چشمے سے کافی وقفے سے واپس آنے پر ڈانٹ پلائی۔
امی مجھے اتنی تاخیر کے لیے معاف کریں”، بیچاری لڑکی نے کہا۔”
اور یہ کہتے ہوئے اس کے منہ سے دو گلاب کے پھُول، دو موتیاں اور دو بڑے بڑے ہیرے نکلے ۔
یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں!” ماں حیران ہو کر بولی۔”
“مجھے لگتا ہے کہ اس کے منھ سے موتیاں اور ہیرے جھڑ رہے ہیں ۔ یہ کہاں سے آیا میرے بیٹی؟”
یہ پہلی بار تھا کہ ماں نے اُسے بیٹی کہہ کر مخاطِب کیا۔ بیچاری بچّی نے معصومیت سے پورا واقعہ سنایا جب کہ اس دوران اس کے منھ سے لا تعداد ہیرے جھڑتے رہے۔
سچ میں؟”، ماں نے تعجُّب سے کہا۔”
وہاں مجھے اپنی بڑی بیٹی کو لازماً بھیجنا پڑے گا” ماں نے دل میں کہا ۔”
-:یہ سوچ کر ماں اپنی بڑی بیٹی کے پاس گئی اور اسے کہا
یہ لو اپنی اوڑھنی، تم نے غور نہیں کیا کہ جب تمہاری بہن بولتی ہے تو اس کے منہ سے ہیرے جواہرات “
جھڑتے ہیں۔ کیا تمہیں یہ انعام ملنے پر خوشی نہیں ہوگی؟ تمہیں صرف چشمے سے میٹھا پانی نکالنا ہے اور جب
“وہ لاچار عورت تم سے پانی طلب کرے تو اس کی خوب خدمت کرنا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ تم وہاں جاؤ
بڑی بیٹی کا دل نہیں مانا لیکن ماں کے فرمان کے سامنے وہ مجبور تھی ۔ اس نے گھر میں پڑی ہوئی سب سے خوبصورت چاندی کی بوتل اٹھائی اور اپنے منہ کو سکیڑتے ہوۓ چشمے کی طرف چل پڑی۔ ابھی وہ چشمے پر پہنچی ہی تھی کہ اس کی نظر ایک شاندار کپڑوں میں ملبوس خاتون پر پڑی۔ وہ خاتون جنگل سے نمودار ہوئی اور چلتے چلتے چشمے پر آکر اس نے پانی پینے کی طلب ظاہر کی۔ یہ وہی پری تھی جو اس کی چھوٹی بہن کو نظر آئی تھی لیکن اب اس نے ایک شہزادی کا روپ دھارا ہوا تھا کیوں کہ وہ جاننا چاہ رہی تھی کہ لڑکی کس حد تک بے ایمان ہے۔
کیا میں تجھے پانی دینے کے لیے آئی ہوں؟،شاید میں بالکل اسی مقصد سے محترمہ کے لیے چاندی کی بوتل لائی ہوں ؟” مغرور لڑکی کرخت آواز میں بُدبُدائی۔
تم میں قطعاً خدمت کا جذبہ نہیں ہے”، پری نے اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا۔
چونکہ تم میں فرماں برداری کا جذبہ نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے میں تمہیں شراپ دیتی ہوں، تم جو بھی لفظ منھ سے ادا کروگی، تمہارے منھ سے سانپ یا مینڈک برسیں گے”۔
“!بڑی بیٹی جب گھر پہنچی تو ماں اس کے انتظار میں تھی، اسے دیکھتے ہی چیخ پڑی “ارے میری لعل
جی ہاں میری ماں !” سنگ دل بیٹی نے اپنے منہ سے دو زہریلے سانپ اور دو مینڈک کو اگلتے ہوئے جواب دیا۔
یا خدا”، ماں چیختے ہوئی بولی، یہ کیا غضب ڈھا گیا میری بچی ؟ یہ سب تیری بہن کا قصور ہے ۔ میں اس کا حساب لیتی ہوں” اور فوراً وہ اس کو پیٹنے کے لیے دوڑی۔ بیچاری چھوٹی بیٹی بھاگم بھاگ قریب کے جنگل میں جا کر پناہ لی۔
اس دوران ایک بادشاہ کا بیٹا شکار سے واپس آرہا تھا کہ اس نے جنگل میں ایک غمگین اور اداس لڑکی کو دیکھا۔ شہزادے نے اُس لڑکی سے دریافت کیا کہ وہ کیوں تنہا ہے اور آنسو بہانے کی وجہ کیا ہے۔
جناب عالی، میں کیا بتاؤں میری ماں نے مجھے گھر سے بے دخل کر دیا”، چھوٹی بیٹی نے بِلکتے ہوئے کہا ۔”
شہزادے نے دیکھا کہ اُس لڑکی کے منہ سے موتیاں اور ہیرے جھڑ رہے ہیں، اُس نے استفسار کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ لڑکی نے پوری کہانی بیان کی۔ شہزادے کے دل میں خیال آیا کہ یہ نایاب خوبی ان تمام چیزوں سے زیادہ قیمتی ہے جو ہم بطور جہیز شادی میں کسی کو دے سکتے ہیں۔ وہ لڑکی کو اپنے ہمراہ والد کے محل لے گیا اور وہاں جاکر اُس سے شادی رچائی ۔
دوسری طرف اس کی بڑی بہن سے اُسکی ماں نے اتنی نفرت برتی کہ اسے گھر سے نکال دیا۔ اور جب کہیں بھی اسے پناہ نہ ملی تو وہ جنگل کی طرف نکلی اور وہیں اس کی موت ہوگئی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...