پرندے اس شہابیے سے کیسے بچ گئے جس کی وجہ سے ڈائنوسارز معدوم ہو گئے
سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ پرندے ڈائنوسارز سے ارتقاء پذیر ہوئے – تاہم یہ سوال سائنس دانوں کے لیے ایک چیلنج رہا ہے کہ موجودہ پرندوں کے اجداد اس شہابیے کے گرنے کے بعد کیسے بچ پائے جس کی وجہ سے ہزاروں انواع ناپید ہو گئیں اور خصوصاً تمام بڑے ڈائنوسارز ناپید ہو گئے – اب سائنس دانوں نے اس راز سے بھی پردہ اٹھا دیا ہے – اس شہابنے کے گرنے سے پہلے ڈائنوسارز کی بہت سی انواع اڑنے کے قابل ہو چکی تھیں – ان میں سے بہت سی انواع درختوں میں بسیرا کرتی تھیں لیکن کچھ چھوٹی انواع زمین پر بسیرا کرتی تھیں اور دانہ دنکا چن کر گذر بسر کرتی تھیں – آج سے ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے اس شہابیے کے گرنے سے دنیا بھر میں درخت ختم ہو گئے اور صرف گھاس پھونس ہی زندہ رہ پایا – بہت سے ڈائنوسارز جو شہابیے کے دھماکے سے بچ رہے بھوک سے دم توڑ گئے کیونکہ وہ جن درختوں کے پتے کھا کر گذارا کرتے تھے وہ درخت بھی ختم ہو گئے – بڑے بڑے ڈائنوسارز جو گوشت خور تھے وہ بھی اس وجہ سے ختم وہ گئے کہ وہ جن نسلوں کا شکار کرتے تھے وہ نسلیں بھی ختم ہو گئیں – لیکن وہ چھوٹے چھوٹے اڑنے والے ڈائنوسار جو زمین پر رہتے تھے وہ گھاس پھونس اور ان کے بیج وغیر کھا کر معدوم ہونے سے بچ رہے – گھاس اور چھوٹے پودے (جنہیں ferns کہتے ہیں) شہابیے کے ٹکرانے کے چند سال بعد ہی کامیابی سے اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہو گئے تھے – چنانچہ بچ جانے والے چھوٹے ڈائنوسار انہی پودوں کو کھا کر زندہ رہے – چونکہ انہیں شکار کرنے والے تمام بڑے جانور معدوم ہو چکے تھے اور ferns بہت جلد تمام دنیا میں پھیل گئے تھے اس لیے کئی ہزار سالوں تک یہ ڈائنوسارز بلا روک ٹوک تمام دنیا میں پھیل گئے اور آہستہ آہستہ ایک دوسرے سے الگ تھلگ آبادیوں میں رہنے لگے جہاں یہ مختلف انواع میں تقسیم ہو گئے – انہی انواع سے موجودہ پرندے ارتقاء پذیر ہوئے
http://www.newsweek.com/only-handful-birds-survived-dinosau…
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔