ایک وقت تھا ماحول میں پرندوں کی مناسب تعداد تھی شام کے وقت آسمان پر پرندوں کے غول دل فریب نظارے پیش کرتے تھے صبح آلارم کی جگہ چڑیوں کو چوں چوں سے آنکھ کھلتی تھی۔ شام کو پرندے گھروں کو جاتےاپنی بولیوں سے ہماری سماعتوں کو تازہ کرتے تھے۔
اب تو چپ چاپ شام آتی ہے
پہلے چڑیوں کے شور ہوتے تھے
پھر درخت کم ہوتے گئے انسان پرندوں کا شکار کرتا رہا اور زہروں کے بے تحاشہ استعمال سے پرندوں کی تعداد کم ہوتے ہوتے اب نہ ہونے کے برابر رہ چکی ہے۔ ماحول غیر متوازن ہو چکا ہے۔پرندے کئی سطحوں پرزندگی میں حوصلے کی علامت بن کرسامنےآئے ہیں ۔ پرندوں کا رخصت ہوجانا زندگی کی معصومیت کے خاتمے اور شہری زندگی کے عذاب کا اشارہ بھی ہے
عجیب درد کا رشتہ تھا سب کے سب روئے
شجر گرا تو پرندے تمام شب روئے
اب وقت آگیا ہے کہ پرندوں کو بچایا جائے اور ان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ہم مجموعی طور پر اس کے لیے کوششیں کریں گے۔ پرندے کسانوں کے لیے اور ماحول کے لیے بہت مفید ہیں
پرندے ایکو سسٹم کو ٹھیک رکھتے ہیں
پرندے درختوں کے بیج ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا کر درختوں میں اضافہ کرتے ہیں۔
قدرتی طور پر یہ کیڑے مکوڑے کھا کر پیسٹ کنٹرول کرتے ہیں۔
ماحول کو خوبصورت بناتے ہیں اور فطرت میں توازن پیدا کرتے ہیں
پرندے کھیتوں میں پولی نیٹر کا کام بھی کرتے ہیں اور پولن کو ایک پھول سے دوسرے پر منتقل کرتے ہیں۔
یہ پرندے بھی کھیتوں کے مزدور ہیں
لوٹ کے اپنے گھر شام تک جائیں گے
مختصر یہ کہ پرندے ہمارے مخلص دوست ہیں ان کو بچانے کے لیے اور ان کی تعداد بڑھانے کے لیے ہمیں عملی طور پر میدان میں آنا ہوگا۔
اپنے کھیتوں میں اور گارڈن میں درخت لگائیں اور پہلے سے موجود درختوں پر پرندوں کو دعوت دیں ایک برتن میں پانی اور خوراک رکھ دیں نیکی کا ثواب اور پرندے بھی محفوظ ہوں گے۔
اور جس خاص چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ کسان اپنے کھیتوں میں موجود درختوں پر اور فش فارموں والے فارمز پر شکار باکل ممنوع کر دیں کم از کم دس سال تک یہ شکار ممنوع ہونا چاہیے۔ کوئی شکاری آپ کے کھیتوں میں آتا ہے تو اسے منع کریں کہ وہ یہاں شکار نہ کرے۔
حکومت وقت سے بھی درخواست کریں ہر فورم پر کہ شکار پر دس سال کے لیے سخت سزاؤں کے ساتھ پابندی لگائی جائے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...