پریشانی کا انسان کی باہر کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا
اگر ایمانداری سے انسان اپنی زندگی پر غور کریں تو کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں جس پر ٹینش لی جائے,یا جس پر ٹینشن لینے کی کوئی ضرورت ہو ۔انسان کی بے شعوری اور بے صبری اسے پریشانی میں مبتلا کرتی رہتی ہے ۔کبھی کبھی میں بات پر بہت سوچتا ہوں کہ انسان کیوں خطرناک حد تک پریشان رہتا ہے،اور جب سوچ کا عمل ختم ہوتا ہے تو انسان اور انسانیت پر بہت ہنسی آتی ہے۔ایک بات تو واضح ہے کہ ٹینشن کا انسان کی باہر کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ،ٹینشن کا تعلق ہمیشہ انسان کی اندر کی دنیا سے ہوتا ہے ۔باہر کی دنیا سے تو ہم صرف نام نہاد وجہ تلاش کرتے ہیں کہ کس طرح اس پریشانی کو جیسٹیفائی کیا جائے ۔پریشانی اندر کی دنیا کی اور وجہ باہر کی دنیا سے ڈھونڈنا انتہائی احمقانہ حرکت ہے۔انسان صدیوں سے ایسی حرکتیں کرنے پر مجبور ہے ۔زندگی جب غلط اسٹائل سے انسان گزارے گا تو پھر وہ پریشان تو ہوگا ۔بدقسمتی سے ہم اس دنیا کا حصہ ہیں جہاں ہر وقت مقابلہ بازی ہو رہی ہے ۔پھر پریشانی تو ہو گی ۔جب انسان ہر وقت دوسرے انسان کے ساتھ مقابلے کی فضاء میں رہے گا ،جب انسان حال اور اب کو بھول کر ماضی اور مستقبل میں رہے گا تو وہ پھر پریشان تو ہوگا ۔انسان ہمیشہ ماضی اور مستقبل میں رہتا ہے ،لیکن حقیقت صرف حال ہے ۔اس پر کبھی انسان توجہ ہی نہیں دیتا ،اسی وجہ سے پھر پریشانیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ٹینشن کے حوالے سے ایک بہت ہی سادہ سی انڈراسٹیندنگ کی ضرورت ہے ۔کسی کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں ،جو تم ہو وہی سب کچھ ہے ۔جیسے ہو بہترین اور خوبصورت ہو ۔اپنے آپ کو قبول کرو ،یہی ایک راستہ ہے جو وجود کی دنیا تم سے چاہتی ہے ۔ٹھیک ہے کوئی تم سے طاقتور ہے ،کوئی تم سے زیادہ دولت مند ہے ،کوئی تم سے زیادہ زہین ہے ،لیکن یاد رکھو کوئی مختلف انفرادیت تم میں بھی ہے جو کسی دوسرے میں نہیں ۔وہ انفرادیت ہی تمہارا ٹیلینٹ ہے ۔مقابلے کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا ،تم اپنا ٹیلنٹ تلاش کرو ۔قدرت نے دنیا کے ساڑھےسات ارب انسانوں میں سے ہر ایک کو ایک منفرد ٹیلنٹ کے تحفے سے نوازا ہو ہے ۔صرف تلاش کرنے کی ضرورت ہے ،اس تلاش میں گمراہ ہونے سے بچنے کا آرٹ آنا چاہیئے ۔مقابلہ بازی ہمیشہ انسان کو پریشان رکھتی ہے ۔زندگی اب ہے اور ہم کل کے لئے پریشان ہیں ۔یہ اپروچ ہی غلط ہے ۔اسی اپروچ کی وجہ سے ہم انسان ابنارمل ہیں،پاگل پن کا شکار ہیں ۔تمام کائنات میں جشن کا سماں ہے اور انسان میں پریشانی کا سماں ۔یہ چاند ،ستارے ،سورج ،درخت،جنگل و بیاباں ،جہاں دیکھو رقص ہی رقص ہے ،خوشی ہی خوشی ہے ،مگر انسان پریشان ہے ،تشدد پسند ہے ، نفسیاتی مریض ہے۔زندگی بہت خوبصورت ہے اور ہم اسے کھو رہے ہیں ۔ابھی تک انسان نے جینا شروع ہی نہیں کیا ۔انسان کی وجہ سے کائنات رقص میں ہے لیکن انسان اب بھی اداس ،غمگین اور پریشان ہے ،مسجد میں ہے ،مندر میں ہے ،درگاہ پر ہے ،کعبہ میں ہے ،جہاں بھی پریشان ہے ۔ آج کی سوچ ،ابھی کا مزہ لے ،اب کا مزہ لے ،کل پر لعنت بھیج ،کل کس نے دیکھا ،کسی نے دیکھا کیا؟واہ انسان تیری کیا بات ہے؟ایک انسان کے اندر جو انفرادیت ہے یا جو ٹیلنٹ ہے ،اسے وہ مکمل استعمال کرے ،ایک صوفی تھا جس کا نام تھا ۔۔۔۔کبیر ۔۔۔۔۔۔وہ کپڑے بنتا تھا ،مطلب جولاہا تھا ۔لیکن بادشاہ اس کے غلام اور پیرو کار تھے ۔ایک دفعہ ایک بادشاہ نے اس سے کہاآقا،یہ کپڑے بنننا بند کردیں،ہمیں بہت شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔۔۔۔کبیر نے کہا ،بادشاہ میں تمہاری پرابلم سمجھتا ہوں،لیکن میرے پاس صرف ایک ہی ٹیلنٹ ہے کہ میں ایک ٹیلنٹڈ جولاہا ہوں۔جب میں کپڑے بناکر مارکیٹ میں بیچنے جاتا ہوں تو خدا مختلف شکلوں ،جسموں میں مجھ سے کپڑے خریدنے آتا ہے۔میں خدا سے کہتا ہوں ،خدا ان کپڑوں کا خوب دھیان رکھنا،کیونکہ جس طرح میں کپڑے بناتا ہوں ،شاید ایسا جولاہا دنیا میں نہیں ہے ۔ان کپڑوں میں میری روح ہے،میرا رقص ہے ،میرے نغمے ہیں ۔اسی وجہ سے میں مطمن رہتا ہوں۔انسان جو بھی کرے مکمل مطمئن ہو ۔پر سکون ہو ۔اپنی تمام انرجی کے ساتھ وہ کام کرے جو اسے آتا ہے ،اس سے تمام پریشانیاں جاتی رہتی ہیں ۔لیکن ہم انسان اپنی تمام زندگی پریشانی کے حوالے کردیتے ہیں ۔بادشاہ ہے تو ہو پریشان ،غریب ہے تو وہ پریشان ،عظیم ہے تو وہ پریشان،عام زندگی ،عام نہیں ہوتی ،نہ وہ روٹین والی ہوتی ہے ۔عام زندگی میں رقص ہے ،خوشی ہے ،محبت ہے ،پیار ہے ،سکون ہے ۔لیکن ہم انسان اس قدر بدبخت ہیں کہ ماں کی گود سے قبر تک پریشان ہی پریشان رہتے ہیں ۔ہم انسان ہمیشہ ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے ہیں ۔دوسرا کیا ہے ،میں بھی وہ بنوں گا ۔بھائی وہ بانسری بجا سکتا ہے ،تو توں لکھاری ہے ،تیرا کام لکھنا ہے ،لیکن لکھاری بانسری بجانا چاہتے ہیں ،پھر پریشانی تو ہو گی ۔چھوٹی سے چھوٹی چیز میں بھی انسان آرٹ تخلیق کرسکتا ہے ۔انسان کا مسئلہ ہے وہ کچھ بننا چاہتا ہے ،وہ خود کو بھول کر کچھ اور بننا چاہتا ہے ۔خود کو قبول کرو میرے پیارے انسان ۔پریشانی یہ ہے کہ انسان جو ہے وہ نہیں ہے بلکہ وہ کچھ اور بننا چاہتا ہے ،وہ اپنے آپ کو قبول نہیں کررہا ۔ہم دولت مند بننا چاہتے ہیں ،طاقتور بننا چاہتے ہیں ،خدا بننا چاہتے ہیں ،لیکن ہم ہیں کیا ،ہمیں علوم نہیں ،اسی وجہ سے ٹینشن ہے ۔اسی وجہ سے ہم زہنی مریض ہیں ،اسی وجہ سے ہم دہشت گرد ہیں ،انتہا پسند ہیں ،یہی وجہ ہے کہ ہم بے سکون ہیں۔سٹریس ہمیشہ غلط نہیں ہوتا ،اس سٹریس کو بھی خوبصورت انداز میں استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ضروری نہیں یہ منفی ہو ۔لیکن اگر ہم سوچیں یہ منفی ہے تو پھر بیڑہ غرق تو ہوگا ۔سٹریس کو تخلیقی قوت کے لئے استعمال کریں ۔سٹریس سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ،سٹریس کا مطلب ہے ،انسان مسئلے سے لڑنے کے لئے تیار ہو جائے مطلب اس مسلئے کو قبول کر لے ۔لیکن انسان نے نیند کی گولیاں کھانی ہیں ،شراب پینی ہے ،سگریٹ پینا ہے ۔یہ تو سب کچھ جسم کے خلاف اقدامات ہیں ،مسئلہ تو وہی کا وہی ہے ۔انسان کو چیلنج کو انجوائے کرنا چاہیئے ۔کبھی کبھار رات کو نیند نہیں آتی،اس میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ،اٹھو بیٹھو ،دوڑو بھاگو ، یا لمبی واک کرو ،اگر ایسا بھی ممکن نہیں تو سوچو ،سوچو کیا کرنا چاہیئے ؟لیکن سونے کی کو شش مت کرو ،کیونکہ نیند نہیں آئے گی ۔اس صورتحال کو تخلیقی انداز میں استعمال کرو ۔اپنی بات کروں تو ایسی صورتحال میں لکھنا اور بہت زیادہ لکھنا مجھے اچھا لگتا ہے اور میں ٹینشن کو شکست دے دیتا ہوں ۔دنیا میں دو قسم کے انسان ہیں،ایک وہ جو گھوڑے کی ریس کی طرح کی عادات رکھتے ہیں اور ایک وہ جو کچھوے کی چال جیسی طبعیت سے مالا مال ہیں ۔اب مسئلہ یہ ہے کہ گھوڑے جیسی ریس والے انسان کو تیز بھاگنے نہیں دیا جاتا ،وہ کچھوے کی چال جیسی زندگی گزار رہے ہیں اور وہ جو کچھوے کی سی عادات رکھتے ہیں ،انہیں کہا جاتا ہے تم بھاگو،پھر ٹینشن تو ہو گی ۔پھر سکون کیسے آئے گا،پھر انسانوں کی دنیا میں جشن کا سماں کیسے پیدا ہوگا؟جب بھی کوئی انسان تمہاری بے عزتی کرتا ہے ،بے عزتی کرنے والے کے بارے میں مت سوچو،اس نے کیوں بے عزتی کی ؟میں اس سے کیسے بدلہ لوں گا،وہ امیرہے،سارا فوکس اس انسان پر ہوتا ہے جس نے بے عزتی کی ۔اس صورتحال میں وہ انسان جس کی بے عزتی ہوئی ہوتی ہے وہ اپنے آپ کو بھول جاتا ہے ۔ اس وقت اپنے اندر کی دنیا کے ساتھ رابطہ کرو اور دیکھو اندر کی دنیا میں کیا ہورہا ہے؟یہی سچ اور یہی شعور ہے۔لیکن ہم ایسا نہیں کرتے ۔یہ غلط اور سہی کیا ہے؟جو شعور سے ابھرے وہ درست ہے اور جو بے شعوری سے پیدا ہو وہ غلط ہے ۔اگر ایک انسان پریشانی سے مررہا ہے ،تو اسے چایئے وہ ایک کمرے میں آرام سے بیٹھ جائے ،اکیلے میں باتیں کرے اپنے آپ کے ساتھ ،ایسا نہیں کرسکتا تو کمرے کی دیواروں سے باتیں شروع کردے ۔وہ دیواریں اس وقت زیادہ انسانی ہوں گی ،ٹینشن کو دباؤ مت ،ورنہ یہ بوجھ بن جائیں گی ۔اور انسان پاگل ہو جائے گا ۔دیواریں بڑی خوبصورت ہوتی ہیں ،ان سے باتیں کرنے کے بعد اچھا محسوس ہوگا ،۔دنیا زیادہ بہتر اور خوبصورت ہوجائے اگر پریشان انسان اپنے کمروں کی خوبصورت دیواروں سے باتیں کرنا شروع کردیں ۔زندگی کو کبھی کبھار کچھ یقینی ٹینشن کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ انسانی زندگی کی رنگینیاں اور دلکشیاں زندہ رہیں ۔پریشانیاں انسان کے جسم اور دل و دماغ کے لئے نقصان دہ ہے ۔اس سے انسان اپنی صلاحتیں اور انفرادیت کھو دیتا ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔