مادر سری matriarchal معاشرے میں پردے کا کوئی تصور نہیں تھا جیسے ہی پدر سری یا مردانہ معاشرہ تشکیل ہوا تو عورت کی صلاحیتوں کو محدود کر نے کے لئے اس پر چادر اور چار دیواری کا تصور تھونپ دیا گیا تا کہ مجموعی وسائل معاشرہ آ دھے ہو کر صرف مردوں میں تقسیم ہو جائیں عورت کے آ دھا ہونے کا تصور اسی سے جڑا ہے ۔
اصل میں شکار کے معاشرے میں جب عورت حاملہ یا حیض و نفاس میں تو اس جسمانی کمزوری کی وجہ وہی بھاگ نہ سکتی تھی اور نہ ا چھا شکار پکڑ سکتی تھی۔ مرد نے وہاں سے جنسی تفریق gender discrimination کا آ غاز کیا اس کے بعد جب جنگ کا آ غاز ہوا تو وہی مسلہ پیش ایا۔ جنگ کا سبب اشیا خورد ونوش تھا ۔ اس کی تقسم مین عورت کا حصہ بھی محدود ہوا ۔دشمن کے مرد قتل ہوجاتے تو عورتیں کھانے پینے کی اشیا سمیت جنسی شے کے طور کنیز بنالی جاتیں۔البتہ حالت امن میں عور ت مرد کے برابر کام کرتی دستکاری فنون لطیفہ اور زراعت کی موجد عورت ہی ہے
جنگ، قا نون اور معبد temple مرد نے بنائے
علم بشریات کے ماہر ین کے مطابق پردے کے مختلف اسباب بیا ن کرتے ہیں
چند ایک درج ذ یل ھیں
1
جسم فروشی
کنعان اور بابل میں طوائفیں نقاب پہنتی تھی تا کہ ایک مرد اس سے اکتا نہ جائے اور اس کا مستقل گاہک رہے وہ جنسی عمل کے دوران بھی نقا ب نہیں اتارتی تھیں اور امراء کی بیویان مندروں میں نقاب اوڑھ تا کہ ان کا رعب رہے
2
عیاشی
امراء وزرا جاگیرداروں اور کاہنوں پروہتون کے باہمی گٹھ جوڑ سے حرم کا ادارہ بنا جس کا مقصد محض عیاشی تھا ہر عورت پر واجب تھا وہ شادی رات پہلے بادشاہ کے ساتھ گزارے3
بردہ فرشی
اصل میں بردہ اور پردہ ایک ہی لفظ سے نکلے ہیں باد شاہو ں یا امراء کی نظر کسی عام مرد کی حسین بیوی پڑ جاتی تو غنڈ و ں سے اغوا کر وا لیتے جناب ابراہیم ء کو سارہ کو اپنی بہن کہ کر بادشاہ سے خلا صی کرانی پڑی اس طرح اسحاق کو ربقہ کو بہن کہنا پڑا تا کہ ابی ملک سے بچ جائیں اسی وجہ سے “نظر لگنے” اور” جن چمڑ نے” کی کہانیاں گھڑی گئیں تا کہ وہ “نظر بد” سے محفوظ سے رہ سکیں ان پر کالا پردہ ضروری کردیا گیا ۔
حسن پہ ڈاکا پڑتا ہے سیم زر سے پہلے
Beauty provokes the thief sooner than gold (Shakespeare)۔
عزت کو ستر سے وابستہ کیاگیا شرم ،غیرت اور حیا کے تصورات تخلیق ہوئے
4
وراثت کی خواہش
انسان نے جب دولت سمیٹنے کی عادت ڈال لی تو تو اسے اپنے تک محدود رکھنے ایک وارث کی طلب پیدا ھوئی وارث عورت کے اندر سے آ تا تھا اب سوال تھا کہ عورت حقوق کا مطالبہ کرے گی کہ صحت مند توانا وارث تو میں پیدا کرتی ہوں تو میں آ دھی کیو ں ہوں؟
میرے بطن سے وارث تو پورا پیدا ہو تا ہے ? اس وقت تک أپ کسی کے حقوق سلب نہیں کر سکتے جب تک اس کو احساس کم تری میں نہ مبتلا کر دیں۔
صنفی تفریق اور نسلی تفریق کے پیچھے یہی حربہ ہوتا ہے نا قص العقل ہونے ،جذباتی، موجب گناہ ہونے کارن اس کو گھر اور پردے میں “محفوظ” کردیا گیا۔
عورت وہ پھول ہے جس نے پتھر کو جنم دیا اور ا اسی نے اس کو اذن سنگساری دیا مردوں نے اسے شاعری کی خیالی محبوبہ تو بنایا مگر عملی خود مختاری نہیں دی ۔ رومانی محبت کی مگر حقیقی احترام نہیں دیا ایسا قانون اور معاشرہ تشکیل نہیں دیا جو اسےشخصی پہچان دے وہ بنت فلاں، زوجہ فلاں، ام فلا ن کے گمنام لفافوں میں لپٹی رہی۔
5
روسو اور فرائڈ کے خیال میں تہذیب کی بنیاد میں ہی استحصال اور جبر ھے جس کی مثال صنفی تفریق اور طبقاتی تفریق ہے مرد اور عورت کے سماجی بعد سے جدائی اور رومان نے جنم لیا شادی سے پہلے عفت اور بعد distance میں عصمت کے یک طرفہ فیصلے کئے گئے تمام پیدا واری اور تخلیقی کاموں سے دور کرکے انسانی پیدائش اور خانہ داری تک محدود کردیا گیا
خاندان ا صل تو عورت ہی ہے
ملکیت کے غیر فطری تصور نے عورت کو تنزل کی اتھاہ گہرائیوں دھکیل دیا. جس دن انسان نے عورت بحثیت عورت ،اس کے احترام کا راز پا لیا، تاریخ کا اک صفحہ الٹ جا ئے گا ،انسان کے اندرکا جنگل مٹ جائے گا
ا رتقا کا نیا باب شروع ھوگا پہلے انسان جنگل میں رہتا تھا اب جنگل انسان کے اندر رھتا ہے اتنے مندر ، یونورسٹیاں، میوزم ،کتب خانے ،مے خانے بھی اس کا خوف نہیں مٹاسکے یہ ابھی درندہ ہے اپنے ہمدم کو کھا جاتا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...