البان نے کہیں سے پارس پتھر کے بارے میں سن لیا، تو اپنی امی سے پوچھنے لگا۔ "امی، پارس پتھر کہاں ملے گا؟ " البان کا سوال سن کر اس کی امی نے حیرت کا اظہار کیا۔’’کیوں؟ تم اس کا کیا کرو گے؟ ‘‘ البان نے وضاحت کی۔ ’’ اگر پارس پتھر مجھے مل جائے، تواسے جس لوہے سے گھس دوں وہ سونا بن جا ئےگا اور پھر ہم بہت دولت مند ہو جائیں گے۔ ‘‘البان کی امی نے کہا۔’’پارس پتھر تو مل جائے گا، مگر اس کے لیے تم کو چھ ماہ تک انتظار کرنا ہوگا۔ ‘‘البان کی امی نے مزید کہا" دو شرطیں اور ہیں۔‘‘البان نے پوچھا۔ ’’ وہ کیا؟ ‘‘امی نے بڑے پیار سے بتایا’’ پہلی شرط اس سال امتحان میں اچھے نمبر لانا ہوں گے۔ دوسری شرط یہ کہ ہر سال تمہارے اسکول میں جو میلہ لگتا ہے، تمہیں اس میں شریک ہو کر ایک اسٹال لگانا ہوگا۔ جو چیز تمہیں ٹھیک لگے، وہ اس اسٹال سے بیچوگے۔ ‘‘یہ سن کر البان جز بز ہو گیا۔ ’’ یہ کیا ہے ، امی؟ آپ مجھے پارس پتھر ابھی کیوں نہیں دے رہی ہیں؟ ‘‘امی نے سمجھایا’’ تمہیں کیا لگتا ہے، مفت مل جائے گا؟ مجھے تمہارے ابو سے بات کرنا ہو گی تاکہ اسے خریدنے کے لیے رقم کا انتظام کیا جائے۔ بس اب تم امتحان کی تیاری شروع کر دو اور اسکول میں لگنے والے میلے میں حصہ لینے کے لیے اپنا نام بھی درج کروا دینا۔ ‘‘
البان پارس پتھر کے حصول کے لیے کچھ بھی کرنے تیار تھا۔ اس نے خوب جی لگاکر پڑھائی کی۔ اسکول کے میلے میں حصہ لیا۔ جس کے لیے اس کے ابو نے ایک ہزار روپے دیے تھے۔ البان کی امی نے اس رقم سے چاکلیٹ بنانے کا سامان خریدا اور مختلف ذائقے اور رنگوں کے ڈھیر سارے چاکلیٹ بنا کر دیے۔ جس دن اسکول میں میلہ لگنا تھا، اس میں شریک ہونے والے بچے بہت خوش تھے۔ سب نے اپنے اپنے اسٹال میں بیچنے کا سامان سجایا تھا۔ البان کے اسٹال پر رنگ برنگے چاکلیٹ کی بہار تھی۔ اس کے اسٹال پر بچوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ البان سب سے خوش اخلاقی سے پیش آ رہا تھا۔ اس کے اسٹال پر ایک شیشے کی برنی میں رنگ برنگی کینڈی رکھی تھیں۔ البان ہر بچے کو ایک ایک کینڈی مفت دے رہا تھا،کیونکہ یہ اس کی امی کا حکم تھا کہ وہ کینڈی سے تمام بچوں کا منہ میٹھا کرے۔ بچے اس سے چاکلیٹ بھی خرید رہے تھے۔ شام سے پہلے ہی البان کے تمام چاکلیٹ ختم ہو گئے، البان کے ہاتھ میں کل رقم دو ہزار روپے سے زیادہ تھی وہ بہت خوش تھا۔ البان خوشی خوشی گھر لوٹا اور رقم اپنی امی کے ہاتھ میں دی۔ یہ دیکھ کر امی نے کہا۔ ’’میرا بیٹا پارس پتھر بن گیا۔‘‘البان نے حیرت کا اظہار کیا۔ ’’ وہ کیسے امی؟ ‘‘امی نے وضاحت کی۔’’ بیٹا ایک ہزار روپے کے چاکلیٹ بنا کر دیے، تم نے انہیں فروخت کیا اس کے دو ہزار روپے بن گئے، یعنی ایک ہزار روپے منافع، تمہاری محنت سے ایک ہزار روپیہ حاصل ہوا ہے۔ اس کا مطلب تم محنت کر کے پیسے کما سکتے ہو۔ ‘‘امی نے مزید کہا۔’’ جس کام کو جی جان سے کرو گے، کامیابی ملے گی۔ پارس پتھر ایک خیالی پتھر ہے۔ جو انسان کسی بھی کاروبار میں محنت کر کے منافع حاصل کرتا ہے اس کے بارے میں کہتے ہیں ' یہ شخص تو پارس پتھر ہے، مٹی بھی چھو لے تو سونا بن جائے۔ ہمارے لیے ہماری محنت اور لگن ہی پارس پتھر ہے، جو تم میں موجود ہے، تم خود ایسے بن جاؤ کہ جس کام میں ہاتھ لگاؤ کامیابی حاصل ہو جائے۔ ’’ یہ سن کر البان مسکرایا اور بہت خوش ہوا کہ امی نے عملی طور ہر سمجھایا کہ پارس پتھر کیا ہوتا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...