اس مریض کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے جس کا علاج ظاہری علامات سے آگے نہیں بڑھ رہا۔ سر میں درد ہوتا ہے تو پیراسٹامول کی دوگولیاں دے دیتے ہیں۔ قے آتی ہے تو میکسولون تجویز کردیتے ہیں۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ سر میں درد کیوں ہورہا ہے اور قے کیوں آرہی ہے۔ حالت یہ ہے کہ معدے میں زہر بھرا ہے۔ انتڑیوں میں انفیکشن ہے۔ جگر کام نہیں کررہا، لبلبہ ضعیف سے ضعیف تر ہورہا ہے۔ سانس کی نالی میں سوزش دن بدن بڑھ رہی ہے۔ پِتّہ کنکریوں سے بھرچکا ہے۔ گردوں کی چھلنیاں خون چھاننے کا کام نہیں کررہیں۔ پھیپھڑوں کے پیندے میں پانی جمع ہونا شروع ہوچکا ہے۔ دل کی نالیاں روزبروز سکڑتی جارہی ہیں جبکہ علاج پیراسٹامول سے آگے نہیں بڑھ رہا !
سکندر ایک علامت ہے۔ یہ وہ قے ہے جو ہمارے قومی جسم نے کی ہے۔ زمردخان کے قصور کو اچھالا جارہا ہے۔ یہ محض سردرد ہے جو مرض کی ظاہری علامت ہے۔ وزیرداخلہ موقع پر نہیں تشریف لائے، تشریف لے آتے تو کیا ہوتا؟ اللہ کے بندو! ریاست کے تمام ادارے کام کرنا چھوڑ چکے ہیں۔ سکندر ہرجگہ گھس چکے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ ایک جگہ سکندر روک لیا گیا اور معاملہ روشنی میں آگیا۔ پولیس کو تو شاباش دینی چاہیے کہ اس نے سکندر کو روکا۔ نہ روکتے تو کیا خبر کہاں جارکتا اور کیا کرتا !
نااہلی اور کرپشن کے سمندر میں وزارت داخلہ اور پولیس برق رفتاری کا جزیرہ کیسے بن سکتی ہے ؟ ریاست کا کون سا حصہ سلامت ہے؟ کون سا شعبہ اپنے فرائض تندہی سے سرانجام دے رہا ہے ؟ ٹیلی فون کا محکمہ، ریل کا محکمہ، پی آئی اے، اسلام آباد‘ لاہور اور دوسرے شہروں کے ترقیاتی ادارے، گیس کا شعبہ، یونیورسٹیوں سمیت چھوٹے بڑے تعلیمی ادارے، نادرا، ہرجگہ کام ٹھپ ہوچکا ہے۔ ہرادارے کی نااہلی اور کرپشن کی بیسیوں مثالیں مع ثبوت فراہم کی جاسکتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ضلعی انتظامیہ جو ملک کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، گل سڑ چکی ہے۔ قانون کا روبار بن گیا ہے۔ اس سے پوچھیں جس نے دس مرلے یا ایک کنال کی زمین اپنے نام کرانی ہے یا فروخت کرنی ہے۔ مرنے والا اگر کچھ رقم اپنے بینک اکائونٹ میں چھوڑ جاتا ہے تو لواحقین اس رقم کی قانونی تقسیم کے لیے کچہری کے چکر لگالگا کر رسوا ہوجاتے ہیں اور تھک ہارکر، روکر، رقم بینک ہی میں پڑی رہنے دیتے ہیں۔ ایک ایسا احاطہ جس میں ڈپٹی کمشنر سے لے کر نائب تحصیلدار تک نصف درجن افسر بنفسِ نفیس تشریف رکھتے ہیں، کرپشن میں گلے تک ڈوبا ہوا ہے۔
سکندر کے حادثے کو جولوگ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بناکر پیش کررہے ہیں وہ خوابوں کے خوبصورت جزیرے میں رہتے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ الیکٹرانک میڈیا کے اینکر پرسن اور تجزیہ کار اور پریس کے قلم کار۔ یہ حضرات بھی بالائی طبقے میں شامل ہوچکے ہیں۔ یہ بھی بس یا ویگن پر نہیں سوار ہوتے۔ یہ بھی بازار سے سودا سلف خود نہیں خریدتے۔ کچہری میں جاتے ہیں تو افسر استقبال کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ ہرشعبے میں ان کے محسن اور ممنون موجود ہیں۔ چنانچہ عام آدمی پر جو کچھ گزر رہی ہے، میڈیا سے خال خال ہی نشرکیا جاتا ہے۔ میڈیا بھی اب زیادہ توجہ مصر کے حالات پر دیتا ہے، صدارتی انتخابات کو کور کرتا ہے، وزیراعظم کی تقریر پر تبصرے کرتا ہے اور لندن کی پاکستانی سیاست اور اس سیاست کے کرداروں پر گھنٹوں نہیں، پہروں بحث کرتا ہے۔ میڈیا پر اگر کسی کو کوریج نہیں دی جا رہی تو وہ عام پاکستانی ہے۔ ایک عام پاکستانی کے ساتھ سرکاری ادارے جو سلوک کررہے ہیں اس کا وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ سوچ بھی نہیں سکتے۔ غضب یہ ہے کہ حکومت یعنی پبلک سیکٹر نے سب کچھ اپنی مٹھی میں رکھا ہوا ہے۔ صرف ایک مثال سے یہ نکتہ سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ جب سے نجی کوریئر سروس میدان میں آئی ہے، عوام ڈاکخانوں کے عذاب سے چھوٹے ہیں، ورنہ یو ایم ایس سے خط بھی چوتھے دن ملتا تھا حالانکہ دعویٰ یہ تھا کہ چوبیس گھنٹے بعد ملے گا۔ نجی کوریئر سروس والے آپ کا خط یا پارسل چوبیس گھنٹے کے اندر اندر پہنچا کر آپ کو ایس ایم بھی کرتے ہیں۔ آپ انٹرنیٹ پر اپنے پارسل کو ٹریک بھی کرسکتے ہیں۔ ایک حل اس ملک کے مسائل کا یہ ہے کہ حکومتی پنجوں میں جکڑے ہوئے شعبوں کورہائی دلوائی جائے۔ پی آئی اے، واپڈا، ٹیلی فون، ریلوے، نجی شعبے میں جائیں تو خلق خدا سکھ کا سانس لے۔
جب تک پالیسیاں بنانے والے سیاست دان اور پالیسیوں کا نفاذ کرنے والے بیوروکریٹ عام پاکستانی کے ساتھ قطار میں نہیں کھڑے ہوں گے، مسائل اسی طرح رہیں گے۔ ہر شعبہ ناکامی کی طرف بگٹٹ دوڑتا رہے گا۔ وہ کھائی اب قریب ہے جس میں دوڑتے ہوئے ریاستی شعبے منہ کے بل گرنے والے ہیں۔ جنہوں نے ریاست کی بدانتظامی کو درست کرنا ہے، انہیں بدانتظامی کا تجربہ ہے نہ خبر ۔ ایسے میں سورج مغرب سے تو طلوع ہوسکتا ہے، ریاست کی ناکامی، کامیابی میں نہیں بدل سکتی۔
اس سے پہلے بھی رونا رویا جاچکا ہے اور ایک بار پھر عرض گزاری کی جارہی ہے ع
بارہا گفتہ ام و بار دِگر می گویم
پولیس مظلوم ترین مخلوق بن چکی ہے۔ (اس کالم نگار کا دورنزدیک کا کوئی عزیز پولیس میں نہیں ) بھرتی سے لے کر تعیناتی اور ترقی تک ۔ میرٹ پر کچھ نہیں ہورہا ۔ گندم اور جَو ایک نرخ پر فروخت ہورہے ہیں۔ دیانت دار اور بدقماش ایک لاٹھی سے ہانکے جارہے ہیں۔ کوئی ٹرانسفر پالیسی نہیں۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ذوالفقار چیمہ کو پاسپورٹ کے محکمے کی سربراہی سے چند ماہ بعد ہی کیوں ہٹادیا گیا ؟ اگر بلند ترین سطح پر یہ ہورہا ہے تو نیچے کیا نہیں ہورہا ہوگا ؟ جب سیاست دان پولیس کے نوجوان افسروں سے کہیں گے کہ ۔’’ہمارے ساتھ دوستی کرنی ہے ۔‘‘ تو پھر پولیس سکندروں کے ساتھ کس طرح کامعاملہ کرے گی‘ یہ جاننے کے لیے افلاطون یا بقراط ہونا ضروری نہیں۔ مریض کی حالت لمحہ بہ لمحہ دگرگوں ہورہی ہے۔ اب پیراسٹامول سے کام نہیں چلے گا!