تحریر: فریڈرک نطشے
ترجمہ : عاصؔم بخشی
کیا تم نے اس دیوانے کی بابت سنا جو ایک روشن قندیل تھامےدن دہاڑے بیچ بازار دوڑتا چلا آیا اور مسلسل چلانے لگا:’’میں خدا کی تلاش میں ہوں! میں خدا کو ڈھونڈتا ہوں!‘‘۔ چونکہ اس وقت اس کے ارد گرد کئی منکرینِ خدا کھڑے تھے ، اس کی یہ حرکت شدید ہنسی مذاق کا باعث بنی۔’’کیا یہ کھو گیا ہے؟‘‘ کسی نے کہا۔ ایک اور کہنے لگا کہ کیا یہ کسی بچے کی طرح گھر کا راستہ بھول گیا ہے؟یا یہ کسی سے چھپتا پھر رہا ہے؟ کیا ہم سے خوف زدہ ہے؟ کسی سفر پر نکلا ہے؟ مہاجر ہے؟ لہٰذا وہ چیختے اور قہقہے لگاتے رہے۔
دیوانہ ان کے درمیان اچھلتے کودتے انہیں اپنی آنکھوں کی سنگینوں سے چھلنی کرتارہا۔ ’’خدا کس جگہ ہے؟‘‘ وہ چلایا، ’’میں تمہیں بتاتا ہوں۔ ہم نے اسے قتل کر دیا۔ ہم سب اس کے قاتل ہیں۔ لیکن ہم نے یہ کیسے کیا؟ ہم کیسے ایک سمندر اپنے حلق میں انڈیل سکتے ہیں؟ ہمیں وہ اسفنج کس نے دیا جو پورا افق ہی مٹا دے؟ہم نے کیا ایسا کیا کہ زمین کو سورج سے علیحدہ کر دیا؟ اب یہ کہاں رواں دواں ہے؟ ہم کہاں رواں دواں ہیں؟ کیا تمام سورجوں سے دور؟ کیا ہم مسلسل گہرائی میں نہیں گر رہے؟ پیچھے، آگے، دائیں بائیں، ہر طرف؟ کیا اب بھی اوپر اور نیچے کا کوئی تصور موجود ہے؟ کیا ہم کسی لامتناہی معدومیت میں بھٹک نہیں رہے؟ کیا ہم کھوکھلے خلا کا طول و عرض محسوس نہیں کرتے؟کیا وہ مزید سرد نہیں ہو گیا؟ کیا رات کی تاریکی مسلسل ہماری جانب نہیں بڑھ رہی؟ کیا ہمیں دن میں قندیلیں روشن کرنے کی ضرورت نہیں؟کیا ہم گورکنوں کا شور سننے سے قاصر ہیں جو خدا کی قبر کھود رہے ہیں؟ کیا ہمیں اب تک گلنے سڑنے کی سڑاند نہیں آئی؟ خدا بھی گل سڑ جاتے ہیں۔ خدا مر چکا ہے۔ خدا مرا پڑا ہے۔ اور ہم نے اسے قتل کیا ہے ۔‘‘
’’ہم قاتلوں کے قاتل کیسے اپنے آپ کو تسلی دے سکتے ہیں؟ جو تمام کائنات میں مقدس ترین اور عظیم ترین تھا ہمارے خون آشام خنجروں کے ذریعے مارا جا چکا ہے۔ کون ہمارے دامن اور آستینوں سے یہ خون صاف کرے گا؟کونسا پانی ہمیں پاک کر سکتا ہے؟ ہمیں کفار کے کونسے میلے، کونسی مقدس کھیلیں ایجاد کرنی ہوں گی؟ کیا اس عمل کی عظمت ہمارے لئے نہایت عظیم نہیں؟ اس سے عظیم عمل کبھی نہیں کیا جا سکا اور جو بھی ہمارے بعد آنکھ کھولے گا، اس عمل کے باعث اب تک کی تاریخ سے بالا کسی تاریخ سے متعلق ٹھہرے گا۔‘‘
اب وہ دیوانہ خاموش ہوا اوراپنے سامعین کی جانب ایک بار پھر نظر دوڑائی۔ وہ بھی خاموش تھے اور اسے حیرانی سے گھورتے تھے۔ آخر کار اس نے اپنی قندیل زمین پر پٹخ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دی اور باہر نکل گیا۔’’میں بہت پہلے آ گیا،‘‘ وہ بولا، ’’میرا وقت ابھی نہیں آیا۔ یہ ہولناک واقعہ ابھی راستے میں ہے، اب تک بھٹک رہا ہے، ابھی تک انسانوں کی سماعتوں سے دور ہے۔ بجلی اور بادلوں کی گھن گرج وقت مانگتے ہیں، ستاروں کی روشنی وقت مانگتی ہے، اعمال ہو بھی جائیں تو سماعتوں اور بصارتوں تک رسائی میں وقت لیتے ہیں۔ یہ عمل اب تک ان سے بعید ترین ستاروں سے بھی دور ہے، اور پھر بھی یہ ان کے اپنے ہاتھوں سے ہی ہوا ہے ۔
اتنا مزید سنا ہے کہ اسی روز وہ دیوانہ کئی کلیساؤں تک زبردستی پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور وہاں زور زور سے ’’خدا میں ابدی آرام پا جاؤ‘‘ کا ترانہ گانے لگا۔ کہا جاتا ہے کہ جب اسے باہر نکالا اور پوچھ گچھ کی گئی تو اس نے ہمیشہ ایک ہی جواب دیا:’’آخر کار اب یہ کلیسا اگر خدا کے مقبرے اور مزار نہیں تو اور کیا ہیں؟‘‘