(Last Updated On: )
تحریر : پارلیگر کوسٹ (سویڈن)
مترجم : نیئر عباس زیدی (ملتان)
سمتھ نامی ایک امیر کبیر تاجر نے لفٹ (Lift)کا دروازہ کھولا۔ اس کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ایک ایسی خاتون بھی ساتھ تھی جس کے جسم سے عطر اور پاؤڈر کی خوشبو آ رہی تھی، وہ (لفٹ کی) آرام دہ سیٹ پر بیٹھ گئے اور لفٹ نے نیچے کی طرف جانا شروع کر دیا، اس چھوٹی سی خاتون نے اپنا ادھ کھلا منہ سمتھ کی طرف کر دیا، اس منہ سے شراب کی بو آ رہی تھی، سمتھ نے ایک بوسہ لیا۔ انہوں نے ٹیرس پر بیٹھ کر رات کا کھانا کھایا تھا اور اب وہ مزید لطف و سرور کی خاطر اکٹھے جا رہے تھے۔
خاتون نے سرگوشی کے سے انداز میں کہا، ’’جاناں ! ہم اوپر بیٹھ کر کتنے محظوظ ہو رہے تھے، آپ کے ساتھ بیٹھنا کتنا اچھا لگ رہا تھا کہ جیسے ہم ستاروں کے درمیان بیٹھے ہوں، خاص طور پر جب آپ کو پتہ ہو کہ محبت کیا ہے، کیا آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں، کیا نہیں کرتے؟ ‘‘
سمتھ نے اس خاتون کی بات کا جواب ایک طویل بوسے سے دیا، اور لفٹ نیچے جاتی رہی، پھر سمتھ بولا، ’’تم نے اچھا کیا کہ تم یہاں آ گئیں ورنہ میں عجیب و غریب کیفیت میں مبتلا تھا‘‘۔
’’جی!لیکن آپ جانتے ہیں کہ اس (شخص) کے لئے یہ مرحلہ کتنا تکلیف دہ تھا۔ جس لمحے میں نے تیار ہونا شروع کیا تو اُس نے مجھ سے پوچھا کہاں جا رہی ہو۔ میں نے جواب دیا، جہاں میری مرضی ہو گی میں وہاں جاؤں گی، میں کوئی قیدی نہیں ہوں۔ پھر وہ دانستہ میرے قریب آ کر کھڑا ہو گیا اور مجھے تیار ہوتا دیکھتا رہا۔ تم پر کون سا رنگ سب سے اچھا دکھائی دیتا ہے، میرے خیال میں گلابی؟ ‘‘
پھر سمتھ نے کہا،’’تم جو رنگ بھی پہنو وہ تمہارا جزو بن جاتا ہے لیکن میں نے تمہیں کبھی اتنا خوبصورت نہیں دیکھا جتنی تم آج نظر آ رہی ہو‘‘۔
خاتون نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ اپنے کوٹ کے بٹن کھولے، وہ دونوں ایک طویل بوسے کے سحر میں گرفتار ہو گئے، اور لفٹ نیچے جاتی رہی۔
’’پھر جب میں گھر سے نکلا ہی چاہتی تھی تو اس (شخص) نے میرا ہاتھ تھام لیا اور اسے اتنی زور سے دبوچا کہ میں ابھی تک اپنے ہاتھ میں تکلیف محسوس کر رہی ہوں، لیکن منہ سے کچھ نہیں بولا۔ وہ شخص اتنا وحشی ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے، میں بولی خدا حافظ۔ لیکن وہ کچھ بھی نہیں بولا۔ اس کا رویہ اتنا بھونڈا اور وحشت ناک ہے کہ میں اسے سمجھنے سے قاصر ہوں ‘‘۔
’’ہائے بے چاری‘‘، سمتھ نے کہا۔
’’کہ جیسے میں تفریح کی غرض سے باہر نکل ہی نہیں سکتی۔ پھر وہ انتہائی سنجیدہ ہو گیا، جس کا آپ تصور نہیں کر سکتے۔ وہ شخص کسی بھی چیز کو فطری اور سادہ طریقے سے نہیں لے سکتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر وقت اور ہر آن زندگی اور موت کا مسئلہ ہے‘‘۔
’’اوہو! تم کیسی عجیب و غریب صورت حال سے گزر رہی ہو‘‘۔
’’جی! میں ایک بھیانک قسم کی صورت حال سے گزر رہی ہوں، کوئی بھی شخص ایسے کرب کا شکار نہیں ہو گا جیسی میں ہوں۔ بالآخر میں آپ سے ملی اور مجھے معلوم ہوا کہ محبت چیز کیا ہے!‘‘۔
سمتھ نے محبت بھرے انداز میں کہا، ’’جی، جانوں ‘‘! اور لفٹ نیچے جاتی رہی۔
سمتھ سے گلے لگنے کے بعد جب اس کا سانس تیز ہوا تو اس نے کہا، ’’اوپر آپ کے ساتھ بیٹھنا، ستاروں کی طرف دیکھنا اور خیالات میں کھو جانا۔ میں اسے کبھی فراموش نہیں کر سکوں گی۔ آپ میرے بارے میں چیزوں کو محسوس کر سکتے ہیں، اس شخص میں شاعری کے حوالے سے ذرا سی بھی رمق موجود نہیں ‘‘۔
خاتون نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’جی ! یہ یقیناً ’’ناقابل برداشت ہے ‘‘۔ پھر ایک دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ اپنا ہاتھ سمتھ کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی، ’’چلیں، اس سے متعلق مت سوچیں، ہم یہاں لطف انداز ہونے آئے ہیں، آپ یقیناً مجھ سے محبت کرتے ہیں ‘‘؟
سمتھ بولا، ’’کیا میں کرتا ہوں ؟‘‘۔ لفٹ نیچے جاتی رہی۔ اس خاتون کی طرف جھکتے ہوئے سمتھ نے بڑے پیار سے اسے تھپکا، خاتون کھل اٹھی۔
پھر سمتھ نے اس کے کان میں سرگوشی کے سے انداز میں کہا، ’’جاناں ! آج رات ہم ایسا پیار کریں گے جیسا پہلے کبھی نہ کیا ہو، ہم۔۔۔ م۔ ؟ ‘‘
سمتھ نے خاتون کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے (بازوؤں میں ) دبایا اور اپنی آنکھیں موند لیں ، لفٹ نیچے جاتی رہی، نیچے سے نیچے۔۔۔۔۔۔
پھر سمتھ اپنے پیروں پر سیدھا کھڑا ہو گیا، اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔
وہ بولا،’’لیکن یہ لفٹ کے ساتھ کیا مسئلہ ہو گیا ہے، یہ رک کیوں نہیں رہی؟ ہمیں یہاں بیٹھ کر باتیں کرتے ہوئے خاصی دیر ہو گئی ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟ ‘‘
’’جی جاناں ! میرا خیال ہے ایسا ہی ہے، اور شاید وقت بڑی تیزی سے گزر رہا ہے‘‘۔
’’اُف اللہ! ہم یہاں زمانوں سے بیٹھے ہیں ! تم کیا کہتی ہو؟ ‘‘
سمتھ گرل (grill) سے باہر جھانکتا ہے، کچھ نہیں تھا، صرف اور صرف گھپ اندھیرا۔ لفٹ ایک مناسب رفتار کے ساتھ مسلسل نیچے جا رہی تھی، گہرائی سے گہرائی میں۔
اُف اوہ! تمہارا کیا خیال ہے؟ یہ ایک گہری کھائی میں جاتی ہوئی محسوس نہیں ہو رہی، اور نہیں معلوم کہ ہم کتنی دیر سے نیچے جا رہے ہیں ‘‘۔
ان دونوں نے باہر گہرائی میں جھانکنے کی کوشش کی۔ باہر صرف اندھیرا تھا اور وہ گہرائی میں اترتے چلے جا رہے تھے۔
سمتھ نے کہا، ’’یہ دوزخ میں جا رہی ہے‘‘۔
خاتون نے اس کے بازو سے چمٹتے ہوئے کہا، ’’جاناں !میں بہت پریشان ہو رہی ہوں، آپ کو ایمرجنسی بریک لگانا ہو گی‘‘۔
سمتھ نے پورا زور لگا کر بریک کھینچی مگر لفٹ لگاتار نیچے جاتی رہی۔
خاتون چلّائی، ’’یہ بہت خوفناک صورت حال ہے، ہمیں کیا کرنا چاہیے‘‘؟
سمتھ نے کہا،’’شیطان ہمارے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے، یہ سرا سر حماقت ہے‘‘۔
خاتون اس قدر خوف میں مبتلا ہوئی کہ اس نے رونا شروع کر دیا۔
’’جاناں ! رونے کی ضرورت نہیں، ہمیں عقل سے کام لینا ہے، یہاں ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ یہاں بیٹھ جاؤ، بالکل یہاں، اب ہمیں یہاں خاموشی سے اکٹھے بیٹھنا ہے، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، یہ کبھی تو رکے گی یا ہمارے سامنے کوئی شیطان یا کوئی بد روح آئے گی‘‘۔ وہ دونوں بیٹھ گئے اور انتظار کرنا شروع کر دیا۔
خاتون بولی، ’’ہم لوگ لطف اندوزی کی غرض سے باہر نکلے تھے، ہم نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا ہو جائے گا‘‘۔
سمتھ نے کہا، ’’ہاں ! یہ کوئی بد روح یا شیطانی قوت ہی ہے‘‘۔
’’کیا آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں، نہیں کرتے کیا؟ ‘‘
سمتھ نے اپنا ہاتھ خاتون کے گرد ڈالتے ہوئے کہا، ’’کیوں نہیں جاناں !’’ اور لفٹ نیچے جاتی رہی۔ پھر اچانک لفٹ رک گئی۔ لفٹ کے ا رد گرد چکا چوند کر دینے والی روشنی تھی جو آنکھوں کو ناگوار محسوس ہو رہی تھی۔ وہ لوگ دوزخ میں تھے۔ ایک بد روح نے بڑے آرام سے گرل (grill)کھولی۔
وہ بد روح (شیطانی چیلہ) جھکی اور بڑی آہستگی سے بولی، ’’شام بخیر!‘‘ اس کا لباس ٹکڑوں یا چیتھڑوں پر مشتمل تھا جو ایک خاص انداز میں پروئے گئے تھے۔
سمتھ اور وہ خاتون لفٹ سے باہر آئے اور اس اچانک صورت حال سے خوفزدہ ہو کر پوچھنے لگے،
’’خدا کا واسطہ ہمیں بتائیں کہ ہم کہاں ہیں، بد روح نے انہیں روشنی دکھائی اور ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ’’یہ جگہ اتنی بری بھی نہیں جتنی آپ سوچ رہے ہیں، مجھے امید ہے یہاں آپ کا وقت اچھا گزرے گا۔ آپ کو صرف ایک رات کے لئے یہاں لایا گیا ہے، کیا ایسا نہیں ؟ ‘‘
سمتھ نے بڑی بے تابی سے ہاں میں ہاں ملائی اور کہا، ’’جی! صرف ایک رات کے لئے،ہمیں اس سے زیادہ نہیں ٹھہرنا‘‘۔
خاتون کانپتے ہوئے سمتھ کے بازو سے چمٹ گئی۔ زردی مائل سبز رنگ کی روشنی اتنی تباہ کن تھی کہ وہ بمشکل ہی دیکھ سکتے تھے اور ان کے خیال میں انتہائی گرم محسوس ہونے والی بو تھی۔ جب وہ اس بو سے ذرا شناسا سے ہو گئے تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ ایک چوک میں موجود ہیں جس کے گرد مکانات ہیں جن کے دروازوں کے سامنے موجود راہداری خاصی چمکدار ہے، پردے لٹک رہے تھے اور پردوں کی درزوں میں سے انہوں نے دیکھا کہ اندر کوئی چیز جل رہی تھی۔
پھر بد روح بولی، ’’کیا آپ ہی وہ دونوں ہیں جو ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ؟ ‘‘
خاتون نے اپنی دلفریب نظروں کی ایک جھلک دیتے ہوئے جواب دیا، ’’ہاں ! دیوانوں کی طرح‘‘۔
’’تو پھر اس طرف آ جائیں ‘‘ بد روح بولی اور انہیں اپنے پیچھے آنے کے لئے کہا۔ وہ سب ایک تاریک سڑک پر چل پڑے۔ ایک دروازے کی چکنی چپٹی راہداری کے قریب ایک پرانی لالٹین لٹک رہی تھی اور وہ جگہ خاصی گندی دکھائی دے رہی تھی۔
اس نے دروازہ کھولا اور کہا، ’’یہاں آ جائیں ‘‘، اور پھر وہاں سے چلی گئی۔
وہ اندر داخل ہوئے، وہاں ان کا ایک اور (شیطانی) بد روح نے استقبال کیا، جو انتہائی موٹی تھی، اس کی چھاتیاں خاصی بڑی تھیں، اور اس کی مونچھوں پر ارغوانی رنگ کا پاؤڈر لگا ہوا تھا۔ وہ خرخراہٹ کے ساتھ ہنسی، جو اپنی موتی جیسی چھوٹی آنکھوں میں نسبتاً بھلی معلوم ہو رہی تھی، اس نے اپنے ماتھے پر ابھرے ہوئے سینگ میں بالوں کی ایک لٹ پروئی ہوئی تھی اور اس میں نیلے رنگ کے چھوٹے ریشمی ربن باندھے ہوئے تھے۔
پھر وہ بد روح بولی، ’’کیا یہ سمتھ اور ان کی ساتھی خاتون ہیں ؟ تو پھر ان کا کمرہ نمبر آٹھ ہے،‘‘ اور انہیں ایک بڑی سی چابی تھما دی۔
انہوں نے تاریک اور چکنی سیڑھیوں پر چڑھنا شروع کر دیا۔ سیڑھیوں پر چکناہٹ چربی کی وجہ سے تھی۔ دو حصوں میں سیڑھیاں چڑھنے کے بعد سمتھ نے آٹھ نمبر کمرہ تلاش کیا، دروازہ کھولا اور کمرے کے اندر داخل ہو گئے۔ یہ ایک نسبتاً بڑا مگر بوسیدہ اور گرد آلود کمرہ تھا۔ کمرے کے درمیان میں ایک میز پڑی تھی جس پر ایک میلا میز پوش ڈھکا ہوا تھا، دیوار کے قریب ایک بیڈ لگا ہوا تھا جس پر چادریں بچھی ہوئی تھیں۔ ان دونوں کو یہ سب کچھ بھلا محسوس ہوا، انہوں نے اپنے اپنے کوٹ اتار دیئے اور ایک طویل بوسہ لیا۔
کمرے کے دوسرے دروازے سے ایک شخص، بلا روک ٹوک،اندر داخل ہو گیا۔ اس نے ویٹروں جیسا لباس پہن رکھا تھا مگر اس کی ڈنر جیکٹ کی تراش خراش نہایت شاندار تھی اور اس اندھیرے نما ماحول میں کسی آسیب کی طرح چمک رہی تھی۔ وہ بہت خاموشی سے چل رہا تھا اس کے چلنے کی آواز نہیں آ رہی تھی اور اس کی حرکات و سکنات بڑی میکانکی قسم کی اور مدہوش تھیں۔ اس کے چہرے کے خد و خال بڑے کرخت اور بے رونق تھے اور اس کی نگاہیں بالکل سیدھ میں دیکھ رہی تھیں اور وہیں مرکوز تھیں۔ اس کے چہرے کا رنگ زرد تھا اور اس کی کنپٹی میں گولی لگنے کا زخم تھا۔ اس نے وہ کمرہ صاف کیا، ڈریسنگ ٹیبل کی جھاڑ پونچھ کی، ایک چھوٹا ظرف اور کوڑے دان بھی وہاں لا کر رکھ دیا۔
ان دونوں نے اس شخص کے کمرے میں داخل ہونے پر زیادہ دھیان نہیں دیا لیکن جیسے ہی وہ واپس جانے لگا تو سمتھ اس سے مخاطب ہوا، ’’ میرا خیال ہے ہمیں کچھ شراب بھی چاہیے، ہمیں میڈ یرا (Madeira)کی آدھی بوتل لا دیں، ‘‘وہ شخص تعظیم سے جھکا اور وہاں سے چلا گیا، سمتھ نے اپنی قمیص اتارنی شروع کی، خاتون ذرا ہچکچاہٹ کا شکار ہی رہی۔ خاتون بولی، ’’وہ شخص پھر آ رہا ہے‘‘۔
’’ایسی جگہ پر تمہیں بالکل بھی ہچکچانا نہیں چاہیے۔ پھر وہ خاتون سمتھ سے چمٹ کر بیٹھ گئی اور سرگوشی کے سے انداز میں کہا،’’ذرا سوچیں !یہاں ہم دونوں اس رومانوی ماحول میں بیٹھے محظوظ ہو رہے ہیں۔ یہ سماں کتنا شاعرانہ ہے، میں اسے کبھی فراموش نہیں کر سکوں گی‘‘۔
’’جی جاناں ! ‘‘ اور وہ دونوں بوسہ لینے لگے۔
وہ شخص بڑی خاموشی سے دوبارہ کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے کسی آہٹ کے بغیر، میکانکی انداز میں قدم رکھے، گلاس ان کے سامنے سجائے اور شراب ڈالنے لگا۔ ٹیبل لیمپ کی روشنی اس کے چہرے پر پڑی۔ اس میں کوئی خاص بات نہیں تھی سوائے اس کے کہ اس کے چہرے کا رنگ زرد تھا اور اس کی کھوپڑی میں گولی لگنے کا زخم تھا۔
خاتون کے منہ سے زور دار چیخ نکلی، ’’اوہ میرے خدا!یہ تو اروڈ (Arvid)ہے؟ کیا یہ تم ہی ہو؟یا اللہ! یہ تو مر چکا ہے! اس نے خود کو گولی ماری تھی۔ ‘‘
وہ شخص ساکن سامنے کھڑا رہا اور اسے کھڑا ہو کر گھورتا رہا، اس کے چہرے پر کسی قسم کے تاثرات نہیں تھے، انتہائی سنجیدہ اور بے حس و حرکت۔
’’لیکن اروڈ (Arvid)یہ تم نے کیا کیا تھا، کیا کیا تم نے! تم نے ایسا کیسے کیا! میری جان! اگر مجھے ایسی کسی چیز کا شبہ ہو جاتا تو میں گھر پر ہی رک جاتی۔ لیکن تم نے مجھے کچھ بھی نہیں بتایا، تم نے مجھے اس سے متعلق کچھ نہیں بتایا، ایک لفظ بھی نہیں ! میں کیسے جان سکتی تھی جب تم نے ہی کچھ نہیں بتایا! اف میرے خدایا !‘‘
اس خاتون کا تمام جسم کانپ رہا تھا، وہ شخص اس کی طرف ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کوئی اجنبی ہو، اس کی نگاہ بہت بے حس اور سرد تھی اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ہر چیز میں سے گزر کر پار جا رہی ہو۔ اب اس کا چہرہ چمکدار لگ رہا تھا اور کھوپڑی کے زخم سے خون نہیں رِس رہا تھا، صرف ایک سوراخ دکھائی دے رہا تھا۔
خاتون زور سے چلائی، ’’یہ بہت بھیانک ہے، بہت بھیانک،میں یہاں نہیں ٹھہر سکتی، فوراً یہاں سے چلیں، میں بالکل بھی نہیں ٹھہر سکتی‘‘۔
اس نے اپنا لباس، ہیٹ اور کوٹ اٹھایا اور باہر کی طرف بھاگی، اس کے پیچھے پیچھے سمتھ بھی دوڑتا ہوا آیا۔ سیڑھیوں سے اترتے ہوئے وہ پھسلے، خاتون وہیں بیٹھ گئی، اس کے پچھلی طرف سگریٹ کی راکھ لگ گئی۔ سیڑھیوں کے نیچے مونچھوں والی بد روح (عورت) کھڑی ہوئی مسکرا رہی تھی اور اپنا سینگ ہلا رہی تھی۔
باہر سڑک پر آنے کے بعد ان کی گھبراہٹ ذرا کم ہو گئی۔ خاتون نے اپنے تمام کپڑے پہنے، خود کو ذرا درست کیا، ناک پر تھوڑا پاؤڈر لگایا، سمتھ نے اپنا ہاتھ اس کے گرد ڈال لیا اور ایک بوسے کے ذریعے ان آنسوؤں کو تھامنے کی کوشش کی جو ابھی گرنے ہی والے تھے۔ وہ پیدل چلتے ہوئے چوک تک آ گئے۔
بڑی بد روح بھی وہاں ٹہل رہی تھی، وہ ایک مرتبہ پھر اس کی طرف بڑھے۔ بد روح ان سے مخاطب ہوئی، ’’میرا خیال ہے آپ آرام سے رہے ہوں گے ‘‘!
خاتون نے جواب دیا،’’نہیں ! وہ ایک بھیانک صورت حال تھی‘‘۔
’’نہیں ایسا نہ کہیں، آپ ایسا سوچیں بھی نہیں۔ آپ یہاں کافی عرصہ پہلے آئے ہوں گے، اس وقت صورت حال مختلف تھی۔ اب دوزخ ویسی نہیں۔ ہم تمام لوگ (بد روحیں ) مل کر اس دوزخ کو بیّن اور عیاں بنانے کی کوشش کرتے ہیں بجائے اس کے کہ ہم اسے لطف اندوزی کی ایک جگہ بنائیں ‘‘۔
سمتھ نے کہا، ’’ہاں ! میرے خیال میں یہ پہلے سے ذرا مختلف اور بہتر ہے، یہ بات درست ہے‘‘۔ بد روح بولی، ’’ہم نے ہر چیز کو جدید تر بنا دیا ہے، اس کی ترتیبِ نوکر دی ہے، جیسا کہ اس جگہ کو ہونا چاہیے‘‘۔
’’جی ہاں ! آپ لوگوں کو بھی زمانے کے ساتھ چلنا چاہیے‘‘۔
’’جی ! آج کل صرف ’’روح‘‘ ہی کڑے مرحلے سے گزرتی ہے‘‘۔
خاتون بولی، ’’اس کے لئے خدا کا شکر‘‘۔
اس کے بعد وہ بد روح انہیں لفٹ کی طرف لے گئی اور بڑی تعظیم سے جھکنے کے بعد کہا، شام بخیر! واپس جانا مبارک!‘‘۔ اس کے بعد گرل بند کی اور لفٹ اوپر کی طرف چل پڑی۔ وہ دونوں لفٹ کی سیٹ پر بیٹھ گئے اور انہوں نے کہا، ’’خدا کا شکر ہے کہ یہ صورت حال ختم ہوئی‘‘۔
خاتون نے چپکے سے اس کے کان میں کہا، ’’ میں آپ کے بغیر کبھی اس صورت حال سے نہیں نکل سکتی تھی۔ سمتھ نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور ایک بوسہ لیا، اس کے بعد خاتون بولی، ’’اس شخص کا یہ حرکت کرنا !لیکن ہمیشہ اس کے اسی قسم کے انوکھے خیالات رہے ہیں اس نے کبھی بھی چیزوں کو فطری اور سادہ طریقے سے نہیں لیا تھا، جیسے کہ وہ ہیں، اس نے انہیں ایسے لیا جیسے ہمہ وقت یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہو‘‘۔
سمتھ نے کہا، ’’یہ سرا سر حماقت ہے‘‘۔
’’وہ اگر مجھے بتا دیتا! تو میں وہاں رک جاتی۔ ہم آج کی بجائے کسی اور شام واپس اُوپر آ سکتے تھے‘‘۔
سمتھ ہاں میں ہاں ملاتا ہوا بولا، ’’جی! یقیناً ہم کسی اور شام بھی واپس آ سکتے تھے‘‘ َ خاتون نے بڑے پیار بھرے اور دھیمے انداز میں کہا، ’’جاناں ! اب اس صورت حال کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیں ‘‘، پھر اس نے اپنی باہیں سمتھ کے گلے میں ڈال کر کہا،’’وہ معاملہ اب ختم ہو چکا ہے‘‘۔
’’ہاں جاناں !اب وہ معاملہ ختم ہے‘‘، سمتھ نے اسے اپنے بازوؤں میں تھام لیا اور لفٹ اوپر جاتی رہی۔
English Title : The lift that went down into hell
Written by:
Pär Fabian Lagerkvist (23 May 1891 – 11 July 1974) was a Swedish author who received the Nobel Prize in Literature in 1951.