پاؤ بھر دال
جب ہم نے کوئنز ٹاؤن ( نیوزی لینڈ) کی سیاحت کا پروگرام بنالیا تو اس کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے لگے۔ اللہ بھلا کرے انٹرنیٹ کا جو ہر جگہ کا کچا چٹھا بیان کردیتا ہے۔ اسی سے ہمیں معلوم ہوا کہ کوئنز ٹاؤن میں نہ حلال کھانوں کا ریستوران ہے اور نہ حلال گوشت کی دُکان۔ یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ تھا ۔پانچ دن تک گوشت کے بغیر گزارا مشکل تھا۔ اس سے زیادہ مشکل یہ تھا کہ مسلسل پانچ دن تک مرچ مسالوں والے کھانوں سے دُور رہاجائے۔ ان دو چیزوں سے دور ی سے بالترتیب ہماری مسلمانی اور پاکستانیت دونوں خطرے میں پڑسکتی تھیں۔ پانچ دن تک روکھا پھیکا اور اُبلا ہوا کھانا کھانے سے تو بہتر تھا کہ ایسی جگہ کی سیاحت سے باز رہا جائے۔ ادھر ہمارے موٹیل کے اپارٹمنٹ میں کچن اور کھانے پکانے کے تمام لوازمات موجود تھے۔ ہم نے اس سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ جہاز میں گوشت لے جانا تو مشکل تھا ۔تاہم ہم نے تھوڑے مسالہ جات اور پاؤ بھر ماش کی دال ساتھ رکھ لی۔ تاکہ دیسی لذّتِ کام ودہن کا اہتمام کیا جاسکے۔ پروگرام یہی تھا کہ باہر کے پھیکے کھانوں کے ساتھ ساتھ شام کے وقت گھر کی دال یا سبزی سے دیسی چٹخارہ حاصل کرلیں گے۔ اس وقت تک ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ پاؤ بھر دال اور چھٹانک بھر مسالے ہمارے گلے کی ہڈی بن جائیں گے۔
دورانِ پروازہم نے صاف نیتی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے کسٹم کے فارم میں ان مسالوں اور دال کا ذکر کردیا ۔جسے دیکھ کرنیوزی لینڈ کے کسٹم حکام کے کان کھڑے ہوگئے ۔انہیں نیوزی لینڈ کی نباتاتی حیات شدیدخطرے میں نظر آنے لگی ۔اس دور افتادہ قصبے کے کسٹم حکام کو ہم نے پہلی مرتبہ شان مرچ مسالوں اور ماش کی دھلی ہوئی دال سے روشناس کرایا تھا ۔جسے دیکھ کر وہاں ہنگامی صورتِ حال پید اہو گئی ۔ہمیں عام قطار سے الگ کرکے دوسرے کاؤنٹر پر لے جایا گیا ۔جہاں مسالوں اور دال کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے’ خطرناک ارادوں‘ کو جاننے کے لئے ہمارا انٹرویو بھی شروع کردیا گیا۔ ہمارے سامان کو تربیّت یافتہ کُتے سونگھتے پھر رہے تھے ۔ آدھے گھنٹے کے سوال و جواب اورتحقیق و تفتیش کے بعد دال اور مرچوں کو نیوزی لینڈ کے لئے خطرے سے خالی قرار دے کر لے جانے کی اجازت دے دی گئی۔ اتنی دیر میں ہماری فلائٹ کے دیگر مسافر اپنے گھروں کو روانہ ہوچکے تھے۔
کسٹم اور امیگریشن سے فارغ ہونے کے بعدہم ٹرالی لے کر کوریڈور میں نکلے تو چند دکانداروں اور سیلزمینوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ طویل کوریڈور کے دونوں اطراف اشیاء اور خدمات کے چند دفاتر اور دکانیں تھیں ۔ بیچ میں ہم دونوں میاں بیوی چلے جارہے تھے۔ اس وقت ائرپورٹ پرہمارے علاوہ کوئی اورمسافر نہیں تھا ۔اس لئے وہ سب ہماری طرف متوجہ تھے ۔ان میں سے دو کو ہم نے خدمت کا موقع فراہم کیا۔پہلے موبائل فون شاپ میں گئے اور مقامی سم خرید کر اپنے موبائل میں ڈلوائی ۔ اس کے بعد رینٹ اے کار کے کاؤنٹر پر جاپہنچے ۔ وہاں سے اگلے پانچ دن کے لئے گاڑی کرائے پر لے لی۔
ہم چونکہ اُس دن کے آخری مسافر تھے اس لئے ہمارے گزرنے کے ساتھ ساتھ دفاتر اور دکانیں بند ہورہی تھیں ۔ رینٹ اے کار کے برطانوی نوجوان نے بھی گاڑی کی چابی ہمارے حوالے کی اور دفتر بند کرنے کی تیاری کرنے لگا۔ اس وقت آسٹریلیا میں شام کے پانچ بجے تھے۔ نیوزی لینڈ جو آسٹریلیا سے ایک گھنٹہ آگے ہے ،وہاں چھ بجے تھے۔
مرچ مسالے اور دال کلیئر کروانے ،سم کارڈ ڈلوانے اور گاڑی بک کروانے کے بعد ہم خود کوہلکا پھلکا محسوس کررہے تھے۔ جیسے مشکل مرحلے طے کر لئے ہوں اور آگے کی منزلیں آسان ہوں ۔ اس وقت تک ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں ۔ ایئرپورٹ کی عمارت سے نکلنے تک ہمیں یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ باہر تاریکی پھیل چکی ہے۔اُدھر بارش مسلسل جاری تھی ۔اُوپر سے غضب یہ کہ ہماری گاڑی کسی عمارت کے اندر نہیں بلکہ باہر کھلے میدان میں کھڑی تھی۔ وہاں اس وقت عملے کا کوئی فرد موجود نہیں تھا ۔ ہمیں پہلے اس کمپنی کی پارکنگ اور پھر اس میں سے اپنی گاڑی خود ڈھونڈنی تھی۔ جو اس سرد اور گیلے موسم میں کڑا امتحان تھا ۔
ہم بارش اور انتہائی مدھم روشنیوں میں انگریز نوجوان کی بتائی ہوئی نشانیوں پر چلتے ہوئے مطلوبہ پارکنگ تک تو پہنچ گئے۔مگر اس میں پارک سینکڑوں گاڑیوں میں سے اپنی گاڑی ڈھونڈنا ایسے ہی تھا جیسے میلے میں کھوئے ہوئے بچے کو ڈُھونڈنا ۔پارکنگ میں مکمل تو نہیں مگر کافی حد تک اندھیرا تھا ۔پارکنگ کے ارد گرد کھمبوں پر نصب لیمپ دبیز بادلوں ،بارش کی پھوار اور رات کی سیاہی میں جگنو کی طرح چمک رہے تھے۔ اتنی مدھم روشنی میں بلکہ اندھیرے میں گاڑی کا رنگ اور نمبر پلیٹ دیکھنا بہت مشکل تھا۔ میں نے بیگم کو سامان سمیت ایک شیڈ کے نیچے کھڑا کردیا اور خود نیم تاریکی میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اپنی گاڑی ڈھونڈنے لگا ۔کافی دیر کی تلاش کے بعد بھی گاڑی نہیں ملی۔ بارش سے میرا لباس گیلا ہوگیا تھا ۔ میں سردی سے کپکپا رہا تھا۔ کافی تلاش کے بعد اچانک مجھے گاڑی کے سگنل بٹن کا خیال آیا ۔میں نے گاڑی کی چابی کا الیکٹرانک بٹن دبایا تو دور ایک کونے میں ہماری گاڑی گھوڑی کی طرح ہنہنائی ۔یہ سن کر میری جان میں جان آئی۔ اس کونے میں گیا تو گاڑی سہمی ہوئی نظر آئی۔ شایدرات کے اس سمے وہ کسی مسافر کی توقع نہیں کر رہی تھی ۔بٹن دباتے ہی گاڑی کے اند رکی لائٹیں جل اُٹھیں ۔ ہم نے اپنا سامان ڈگی میں رکھا ۔میں نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر چابی اگنیشن میں ڈالنے کی کوشش کی۔’’ارے یہاں تو اگنیشن ہول ہی نہیں ہے۔ ‘‘ میں نے ٹٹولتے ہوئے کہا
بیگم نے مشورہ دیا ’’وہیں ہوگا ۔آپ آرام سے چیک کریں ۔ ‘‘
میں نے بیگم کے قیمتی مشورے پرعمل کرتے ہوئے دوبارہ تسلی سے وہ جگہ دیکھی مگر کی ہول نظر نہ آیا۔ہمارے لباس بارش کی وجہ سے گیلے ہوچکے تھے اور ٹھنڈ لگ رہی تھی۔گاڑی سٹارٹ ہوجاتی تو ہیٹر آن کرکے اس سردی سے نمٹا جاسکتا تھا۔ مگر ہمارے ساتھ ایسا عجیب مسئلہ درپیش آگیا تھا جس کے بارے میں سنا تھا،نہ پڑھا تھا ۔میں نے سوچا کہ رینٹ اے کاروالوں کو فون کرکے اس مسئلے کا حل دریافت کروں۔پھر سوچا تھوڑا صبر کرو اور دماغ لڑاؤ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مسئلہ اتنا بڑا نہ ہو جتنا میں سمجھ رہا ہوں۔ خواہ مخواہ کی سُبکی ہو گی ۔
اچانک مجھے خیال آیا کہ کہیں یہ ان جدید گاڑیوں میں سے تو نہیں ہے جنہیں سٹارٹ کرنے کے لئے چابی کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ ڈیش بورڈ پر نصب ایک برقی بٹن اور بریک پیڈل کو بیک وقت دبانے سے گاڑی سٹارٹ ہوتی ہے۔ یہ خیال آیا تو وہ بٹن بھی نظر آگیا۔ اُسے اور بریک پیڈل کو دبایا تو انجن آن ہوگیا۔ یہ ٹیکنالوجی میرے لئے نئی نہیں تھی۔ دھوکا کھانے کی وجہ وہ چابی تھی جو مجھے دی گئی تھی۔ ایسی گاڑیوں کی چابی نہیں چپ (Chip ) ہوتی ہے۔ اس چابی کی وجہ سے یہ مسئلہ کھڑا ہواتھا۔یہ صرف نمائشی چابی تھی۔ اس چابی نے ہمیں خوب نچایا اور گھمایا تھا ۔چِپ کے ساتھ یہ چابی دینے کا مقصد مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا۔
بہرحال گاڑی سٹارٹ ہوگئی ۔ہم نے ہیٹر ،فین اور وائپر چلائے تو ونڈ سکرین پر جمی کہر پگھلنے لگی ۔ بارش کی وجہ سے گاڑی کے دائیں بائیں اور سامنے کے شیشوں پر پانی بہہ رہا تھا۔ سامنے صرف چند میٹر تک دکھائی دیتا تھا۔ اس تاریکی اور بارش میں گاڑی پارکنگ سے نکال کرہم سڑک پر آ گئے ۔ بڑی سڑک پر چڑھنے سے پہلے میں نے گاڑی کنارے پر روک لی۔ بیگم نے پریشان ہوکر پوچھا ’’کیا ہوا! گاڑی تو ٹھیک ہے نا؟ ‘‘
میں نے کہا’’ گاڑی تو ٹھیک ہے۔ مگریہ جاننا بھی تو ضروری ہے کہ ہمیں جانا کہاں ہے۔ میں نئی نکور سم کارڈ والے نیٹ ورک کو آزماتا ہوں ۔ اگر نیٹ ورک دستیاب نہ ہوا تو ہمارے پاس متبادل ذریعہ کوئی نہیں ہے ‘‘۔
میں نے اللہ کا نام لے کر نیوی گیٹر آن کیا تو نیوی گیٹر والی محترمہ چہک چہک کر راستہ بتانے لگی ۔ہم اس شوخ کی رہنمائی میں چل پڑے۔
ویسے آپس کی بات ہے برطانوی لب و لہجے کی حامل اِس خاتون نے قدم قدم پر جس طرح ہماری رہنمائی کی، اس سے کچھ اپنائیت سی محسوس ہونے لگی تھی ۔اب آپ اس کو کچھ اور رنگ نہ دیجئے گا۔میری اکلوتی بیگم میرے ہمراہ تھیں اور نیوی گیٹر والی انگریز خاتون سے کچھ نالاں تھیں۔ کیونکہ جتنی توجہ سے میں اس حسینہ کی بات سنتا تھا اتنی توجہ سے کبھی بیگم کی نہیں سنی تھی۔
گاڑی کی ہیڈ لائٹ کے سامنے بارش اس طرح برس رہی تھی کہ چند فٹ سے آگے دکھائی نہیں دیتا تھا۔ میں نے بریک پر مستقلاََدباؤ ڈالا ہوا تھا ۔ہینڈ بریک پر بھی احتیاطً ہاتھ رکھا ہوا تھا۔ یہ چھ سلنڈر والی تقریباََ نئی فورڈ فالکن تھی۔ اس کی بریکیں اور ٹائر اچھی حالت میں تھے۔ مگر اس بارش ،پھسلن اور غیر فطری زاویے پر بنی سڑک پر ڈرائیونگ میرے لئے امتحان بن گئی تھی۔ میری دور کی نظر بالکل ٹھیک ہے۔صرف لکھتے پڑھتے وقت چشمہ استعمال کرتا ہوں ۔لیکن نیوزی لینڈ کے اس پہاڑ ی قصبے کی اس تاریک سڑک پر مجھے اپنی نظر پر شک ہونے لگا تھا۔ میری نظروں کے سامنے دُھندلاہٹ تھی۔
اس کشیدہ اور خطرناک صورتحال میں رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی جب اچانک ایک کینگرو اُچھل کر ہماری گاڑی کے سامنے آگیا۔ اسے دیکھ کرمیرے تو جیسے ہو ش اُ ڑ گئے۔ کینگرو گاڑی کے بالکل سامنے تن کر کھڑا ہوگیا اورگھور گھور کر ہماری طرف دیکھنے لگا۔یہ بہت خطرناک صورتحال تھی ۔کینگرو بکری کی جسامت کا اچھا خاص بڑا جنگلی جانور ہے۔ اس سے ٹکرا کر گاڑی کو حادثہ پیش آسکتا تھا۔ اس خطرناک اُترائی میں گاڑی روکنا اس سے بھی زیادہ خطرناک تھا۔ اگرچہ میں پہلے ہی بہت آہستہ آہستہ گاڑی چلا رہا تھا ۔بریک پیڈل پر دباؤ بڑھا کر مزید آہستہ ہوگیا۔ کینگرو تھوڑی دیر وہیں سڑک کے درمیان کھڑ ا ہمیں گھورتا رہا۔شائد سوچ رہا تھا کہ رات کی اس تاریکی اور جنگل کے سنّاٹے میں مخل ہونے کون آگیا ہے۔ پھر شائد اسے ہم پر رحم آگیا ۔ وہ مست خرامی سے ٹہلتا ہوا سڑک کے کنارے جاکھڑا ہوا۔ اُسے ہٹتا دیکھ کر میرے حواس بحال ہوئے۔ میں اسی آہستہ روی سے اس کے سامنے سے گزرتا چلا گیا۔نیچے پہنچے تو خدا خدا کرکے کھمبے کی روشنیاں اور دو طرفہ مکانات کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔
ایک ذیلی گلی میں موڑ کر میں نے گاڑی روک دی۔ اور اسٹیئرنگ پر سر رکھ کر لمبے لمبے سانس لے کر اعصاب کو معمول پر لانے کی کوشش کرنے لگا۔میری ہتھیلیاں اور ماتھابدستور پسینے سے گیلا تھا۔ چند منٹوں کے بعد حواس بحال ہوئے تو میں گاڑی سے اُتر کر باہر آکھڑا ہوا۔
یہ تو طے تھا کہ ہمارا ہوٹل وہیں کہیں تھا ۔لیکن ہمیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ گاڑی میں بیٹھ کر ڈھونڈنے کی بجائے اس مرتبہ میں سڑک کے کنارے جاکھڑا ہوا۔ ابھی بھی ہلکی بارش ہورہی تھی۔ ایک راہ گیر کو روک کر میں نے پوچھا’’ کیا آپ بتا سکتے ہیں لیک فرنٹ ہوٹل کہاں واقع ہے۔نیو ی گیٹر کے مطابق یہیں کہیں ہے؟‘‘
وہ سیاح تھا اور اسی ہوٹل کا مہمان تھا ۔کہنے لگا ’’ یہ ہائی وے کے دوسری طرف نشیب میں واقع ہے۔ آپ نیچے روڈ پر جائیں تو چند میٹر آگے ہوٹل شروع ہوجاتا ہے۔‘‘
چند میٹر آگے بائیں یعنی نشیب کی جانب ہمارا فلیٹ تھا۔گاڑی پارک کرکے ہم نے اپنے اپارٹمنٹ کا دروازہ کھولا ۔ روشنیاں آن کیں تو آج شام کی ساری کلفت بھول گئے۔ اپارٹمنٹ بہت کشادہ ،آرام دہ اور تمام سہولتوں سے مزیّن تھا۔
دو دن بعد ایک شام ہم ہوٹل واپس آئے ۔دن بھر کی تھکاوٹ دُور کرنے اور سردی بھگانے کے لیے ہوٹل پہنچتے ہی میں گرم پانی سے شاور لینے غسل خانے میں گھس گیا۔اس دوران بیگم سڈنی سے لائی ہوئی پاؤ بھر ماش کی دال پکانے کی تیاری کرنے لگیں ۔یہ وہی دال اور مسالے تھے جن کی وجہ سے کوئنز ٹاؤن ایئرپورٹ پر ہماراآدھا گھنٹہ ضائع ہوا تھا اور نیوزی لینڈ کے کسٹم حکام میں ہلچل مچ گئی تھی۔اُس شام اس پاؤ بھر دال نے ہمیں تگنی کا ناچ نچا دیا تھا ۔
اس پاؤ بھر دال نے اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آج ہماری اور ہوٹل کی سا لمیت کو بھی خطرے میں ڈال دیا ۔ہوا یوں کہ بیگم نے دال پکنے کے لئے چولہے پر چڑھا دی اور خود جائے نماز بچھا کر نماز ادا کرنے لگیں ۔ چولہے میں گیس کا دباؤ بہت زیادہ تھا ۔جس کی وجہ سے دال جل کر دُھواں دینے لگی۔ لمحوں میں ہمارے اپارٹمنٹ میں لگے سموک الارم نے آسمان سر پر اُٹھا لیا ۔یہ بہت طاقتور سموک الارم تھا ۔اس کی آواز پورے ہوٹل بلکہ دور تک سنائی دے رہی تھی۔ اتنی دیر میں ،میں غسل خانے سے نکل آیا ۔ہم نے جلدی سے چولہا بجھایا لیکن جلی ہوئی دال کا دُھواں کمرے میں پھیل چکا تھا۔ ہم نے تما م کھڑکیاں اور دروازے کھول دیئے۔دُھواں آہستہ آہستہ کم ہونے لگا ۔ مگر سموک الارم اسی طرح زور و شور سے بجتا رہا ۔اس کی کرخت آوازسے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ ہوٹلوں کے اسموک الارم براہ راست فائر بریگیڈ کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں ۔ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں کسی بھی لمحے آیاہی چاہتی تھیں ۔میں سموک الارم کا سوئچ ڈھونڈ رہاتھا کہ کھلے ہوئے دروازے پر کسی نے دستک دی۔ باہر جاکر دیکھا تو ہوٹل کا منیجر جارج کھڑا ہوا تھا۔ پوچھنے لگا ’’کیا ہوا ! آپ خیریت سے ہیں نا!میں کوئی مدد کرسکتا ہوں؟‘‘
میں نے کہا ’’ یوں تو خیریت ہے، کہیں آگ نہیں لگی ہے ۔تاہم کھانا پکانے کے دُھوئیں سے سموک الارم بج اٹھا ہے،،۔
جارج نے سوئچ بورڈ سے سموک الارم آف کیا تو کرخت آواز میں بجنے والا الارم خاموش ہوگیا۔ اُس نے فون کرکے فائر بریگیڈ کی گاڑیاں رُکوادیں ۔اُس نے بتایا’’ عام طور پر اس وقت عملے کا کوئی فرد یہاں موجود نہیں ہوتا ۔میں ایک ضروری کام کی وجہ سے ابھی پہنچا ہی تھا کہ الارم کی آواز سنائی دی ۔ فائر بریگیڈ کی گاڑی آجاتی تو آپ کو پانچ سو ڈالر فیس دینی پڑتی۔‘‘
میری بیگم نے کہا ’’آپ چولہے کا سوئچ چیک کریں ،مجھے لگتا ہے کہ یہ صحیح کام نہیں کررہاہے۔‘‘
جارج نے چیک کیا تو سوئچ واقعی خراب تھا۔ اس کو جس پوزیشن میں رکھیں شعلہ کم نہیں ہوتا تھا ۔جارج نے معذرت کی اور اسی وقت پلمبر بلوالیا۔ یوں اس پاؤ بھر دال نے ہمیں ایئرپورٹ ،کو ئنز ٹاؤن کی سڑکوں ،پہاڑوں ،جنگلوں اور اب ہوٹل کے کمرے میں خوب نچایا۔ یہ دال جل بھن کر کوئلہ ہو گئی لیکن ہمارے کام نہ آئی۔ اس رات آسٹریلیا سے لائی ہوئی دال نہیں بلکہ نیوزی لینڈ سے خریدے ہوئے انڈے ہمارے کام آئے۔ یوں لگتا تھا کہ نیوزی لینڈ کے اربابِ بست و کشادنے ہمیں دال کھانے کا موقع اس لئے نہیں دیا تاکہ ان کی مرغیوں کے انڈے فروخت ہوسکیں۔ چند انڈے فروخت کرنے کے لئے اتنی بڑی سازش کا ارتکاب پہلے کسی نے نہیں کیا ہو گا۔ نیوزی لینڈ کے اربابِ اختیارہمیں شروع میں ہی دال کھانے سے منع کردیتے ، ان آزمائشوں میں تو نہ ڈالتے ۔انہوں نے یہ دال کھانے سے روکنے کے لئے ہر حربہ آزما ڈالا تھا۔ بالآخروہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے ۔ ہم یہ کہتے رہ گئے۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ دال ہوتا
اگر اور بھی لاتے تو اس کا یہی حال ہوتا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔