ایڈون سمتھ کو قدیم مصر کی چیزیں اکٹھی کرنے کا شوق تھا۔ 1862 میں انہوں نے مصر کے شہر الاقصر میں ایک نوادرات بیچنے والے سے پندرہ فٹ لمبا پیپرس خریدا جس پر قدیم مصری زبان میں لکھا گیا تھا۔ بوسیدہ حال اور زرد رنگ کا یہ کاغذ سترہویں صدی قبلِ مسیح میں لکھا گیا تھا۔ اس کو لکھنے والے نے اپنے سے آٹھ سو سال پرانے ایک مسودے کو نقل کیا تھا۔ یہ دنیا کی تاریخ کی ملنے والے سب سے قدیم میڈیکل کی کتاب ہے۔
اس کا ترجمہ 1930 میں ہوا۔ اس کے اصل مصنف امہوٹپ تھے۔ وہ عظیم مصری ڈاکٹر جو 2565 قبلِ مسیح میں مصر میں رہا کرتے تھے۔ فرعون جوزر کے معالج اور مصر ان چند شخصیات میں جن کو شاہی خاندان میں نہ ہونے کے باوجود ہم جانتے ہیں۔ ان کا کام معالج ہونے کے علاوہ آرکیٹکچر اور فلکیات پر بھی تھا۔ بقراط، جو قدیم یونان کے عظیم ترین معالج سمجھے جاتے ہیں اور امہوٹپ سے ایک ہزار سال بعد آئے تھے، ان کے مقابلے میں امہوٹپ کا میڈیکل نالج ان سے کم نہیں تھا۔
یونانیوں نے امہوٹپ کو جادوگر اور طب کا دیوتا قرار دیا تھا۔ لیکن سمتھ کو ملنے والے پیپرس کی سب سے حیران کن چیز یہ ہے کہ اس میں کوئی جادو نہیں۔ جادو ٹونوں اور عملیات کی اُس دنیا میں بیماریوں کے لئے کی لکھی ہدایات کسی بھی طرح کے جادو سے خالی ہیں۔ اس میں مفید عملی طریقے ہیں۔ بہتے خون کو کیسے روکنا ہے۔ پٹی کیسے کرنی ہے۔ ہڈی ٹوٹنے پر کیسے اس کی دیکھ بھال کرنی ہے۔ پھوڑوں سے لے کر ریڑھ کی ہڈی کے مہرے کے جگہ سے ہل جانے تک میڈیکل پروسیجر لکھے ہیں۔ ہر ایک کی علامات، تشخیص کے طریقے، علاج اور خلاصہ۔
اس میں 48 الگ کیس درج ہیں۔ ان میں سے 45ویں کیس میں یہ لکھا ہے۔
“اگر ایسا کیس ملے، جہاں مریض کے چھاتی پر ابھار ہوں اور یہ پتا لگے کہ یہ پھیل چکے ہیں۔ اگر ان کو ہاتھ لگانے پر یہ سرد محسوس ہوں، کوئی بخار نہ ہو۔ یہ دانے دار نہ ہوں، ان میں سے کوئی سیال نہ بہتا ہو، لیکن پھر بھی چھونے سے چبھتے ہوئے سے لگیں، تو اب یہ مزید خراب ہو گا، چھاتی کے یہ ٹیومر سوجن کریں گے، بڑھیں گے، پھیلیں گے، سخت ہوں گے، ان کو ہاتھ لگانے سے ایسے لگے گا کہ ہیماٹ کے کچے پھل کو ہاتھ لگایا جا رہا ہے۔ سرد اور سخت۔”
اس پیپرس کے ہر کیس کے آخر میں کسی نہ کسی طرح کا علاج درج کیا گیا ہے۔ زخم کے مرہم، شہد سے انفیکشن روکنے، دماغی امراض میں کان میں دودھ ڈالنے جیسے طریقوں تک کچھ نہ کچھ تجویز کیا گیا ہے۔ البتہ اس پینتالیسویں کیس کے آگے جو لکھا ہے، وہ پڑھنے والے کے لئے خوف کی لہر دوڑا دیتا ہے، کیونکہ اس کے آگے یہ لکھا ہے۔
علاج: کچھ بھی نہیں۔
ساڑھے چار ہزار سال پہلے لکھی اس دستاویز میں یہ علامات جس بیماری کی تھیں، آج بھی یہ تشخیص جسم میں ویسے ہی خوف کی لہر دوڑا دیتی ہے۔
اہموٹیپ نے یہاں پر چھاتی کے سرطان کی علامات لکھی تھیں۔ یہ کینسر کی تاریخ کا پہلا دستاویزی ریکارڈ ہے۔