پروفیسر براؤن کہنا ہے کہ مشرق کی عجیب بات ہے یہاں یہ عقائد مرتے نہیں ہیں بلکہ شکل بدل کر سامنے آجاتے ہیں ۔ پروفیسر براؤن کی بات درست ہے اور ہم اس سے صرف اتنا اختلاف کرسکتے ہیں کہ یہ صرف مشرق کا خاصہ نہیں ہے بلکہ مغرب میں بھی ایسا ہوتا ہے مثلاً تثلث کا عقیدہ ۔ تاہم پروفیسر کی اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ انسان کے ابتدائی عقائد مذہب کی تبدیلی کے باوجود فنا نہیں ہوتے ہیں اور قوموں کے ذہنوں میں موجود رہتے ہیں ۔ خود پاک و ہند میں دیکھیں تو یہاں کے مسلمانوں پر بہت سی رسومات پر ہندوؤں کا اثر ہے ۔ جنہیں مذہب کے سانچے میں ڈھال گیا ہے ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہے کہ ایران کے بشتر قدیم عقائد کو شیعت نے مختلف شکلوں میں اسلام میں داخل کیا ۔
یعنی قدیم عقائد و خیالات مٹتے نہیںہیں بلکہ مذہب کی تبدیلی کے ساتھ اپنی شکل تبدیل کرلیتے ہیں ۔ ان میں ایک عقیدہ پنج تن کا ہے جو کہ شیعت کا بنیادی عقیدہ ہے اور اسے بہت سے سنی بھی مانتے ہیں ۔ مگر یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس عقیدے کی قدیم ایرانی شکل کیا تھی ۔ اس کے لیے ایک طویل بحث کی ضرورت ہے ۔
قدیم ایرانی مذہب کا تار پور مادرائی ہستیوں پر اعتماد نیز ان کی رضا جوئی سے بنا ہے ۔ اس لیے ان کے عقائد کی نوعیت فوق البشر قوتوں کی رضا جوئی سے عبارت ہے ۔ اس لیے ان میں کچھ ہستیاں ایسی شخصیتں ایسی ہوتی ہیں جنہیں ربانی تقدس حاصل ہے اور ان ہستیوں کو خدائی اختیارات حاصل ہوتے ہیں ۔ مذہب کی تبدیلی کے باوجود ان کے ذہن میں ماضی کے قدیم افکار اور توہمات کی طرح یہ عقیدہ بھی ہے جس پر وہ یقین رکھتے ہیں اور یہ اسلامی عقائد کا حصہ نہیں ہونے کے باوجود انہوں نے اسے مسلمانوں نے جزو ایمان بنایا ہوا ہے ۔
ہم پہلے قدیم زرتشتیوں کے بارے میں لکھ چکے ہیں کہ زرتشتی ساسانی عہد میں چار خداؤں زروان ، مزد ، اناہتا اور متھرا کی پرستش کرتے تھے ۔ مگر یہ چار خدا تھے اور یہ پانچ نہیں تھے ۔ جب کہ پنج تن کی ترکیب سے ظاہر ہے کہ یہ پانچ ہستیاں تھیں ۔ مگر ان چار خداؤں کے علاوہ ایک خدا اور تھا ۔ وہ انگرامنو یا اہر من بدی کا خدا تھا ۔ اگرچہ اس کی پرستش نہیں کی جاتی تھی مگر یہ بھی زروان کا بیٹا اور ہورا مزد کا بھائی جو اس کی طرح طاقت ور اور تخلیق کی قوت پر قادر تھا ۔ ہورا مزد اور اہرمن کے درمیان جسے برائی اور بھلائی کی کشمکش کہا گیا جاری تھی ۔ اس طرح اس ربانی ترکیب میں پانچ الوہی ہستیاں ہوجاتی ہیں ۔ جو اس طرح ہیں ۔
ساسانی عہد کی ترکیب زرتشتیوں کی ترکیب
(۱) ذروان۔۔۔۔۔ باپ
(۲) مزدا۔۔۔۔۔۔ بیٹا
(۳) اہرمن۔۔۔۔۔بیٹا
(۴) متھرا۔۔۔۔۔۔۔
(۵) اناہیتا۔۔۔۔۔۔۔ ،
شیعت میں انہیں اس طرح تبدیل کردیا
(۱) محمد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۲) علی۔۔۔۔۔۔۔۔باپ
(۳) فاطمہ۔۔۔۔۔۔۔ماں
(۴) حسن۔۔۔۔۔۔۔بیٹا
(۵) حسین۔۔۔۔۔۔بیٹا
دونوں ترکیبوں میں ایک عورت ہے ، ایک باپ ہے اور دو بیٹے ہیں ۔ اوپر کی ترکیب کی طرح دو کے مقام کا تعین نہیں ہے ۔ تاہم وہ خدا یعنی برتر ہستیاں ہیں ۔ مگر قدیم ایرانی مذہب کے اہرمن کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا گیا ہے ۔ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ زرتشتیت میں تصاد کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔ ہورا کا مقابل اہرمن تھا اور زرتشت کا مقابل براتروکیش تھا ۔ جو زرتشت کی جان اس کی پیدائیش کے بعد مسلسل کوشش کرتا رہا ہے اور آخر کار اسی نے زرتشت کو قتل کیا اور زرتشت نے ہی براتروکیش کو قتل کیا ۔ جب زرتشت نے اہورا سے دائمی زندگی کی خواہش کی تو اہورا نے اپنے اعجر کا اعتراف کیا کہ اس صورت میں براتروکیش کو بھی ہمیشہ زندہ رہنا ہوگا ۔ یہی وجہ ہے حسینؓ بن علیؓ کو اجاگر کرنے کے لیے یزید بن معاویہؓ ظالم ، زانی اور غاسب بتایا گیا اور اس کے گرد فرضی داستانیں تخلیق کی گئیں کہ جتنی کہ حسین بھی علیؓ کو مظلوم اور خلافت کا حقدار بتانے کے لیے کی گئیں اور اسے برائیوں کا مجسمہ قرار دیا گیا ۔
حضرت علیؓ کو اہورا مزد جسی طاقت کا حامل ثابت کرنے کے لیے ان کے حق اور بہادری کی داستانیں تخلیق کی گئیں ۔ یہ داستانیں جو بالکل ایرانی مزاج کے مطابق ہیں اور عربوں کے مزاج سے مختلف ہیں ۔ جس میں ان ربانی تقدس کی حامل شخصیات کے تقدس الوہی اور ان کے تابع فطرت ہوتی ہی ۔ مگر یہ اپنی حق و بہادری کے باوجود ایسے ہی مجبور ہیں جیسا کہ اہورا اہرمن کے مد مقابل اور یہ ظلم کا دور امام مہدی آکر ختم کریں گے ۔ جو خود حسین بن علی کی اولاد ہونے کے ساتھ ان کا ہی روپ ہیں اور شبرات کے دن شیعہ سمندروں ، ندیوں ، دریاؤں اور کنوؤں پر جاکر امام مہدی کا پکارتے ہیں کہ وہ آکر اپنے پیروؤں کو ظلم و ستم سے نجات دلائیں ۔ یہ قدیم ایرانی تہوار جشن مہرگان کی یادگار ہے جس میں طلوع آفتاب کے وقت بلند آواز پکارا جاتا تھا ۔ اے فرشتوں (یزدان پہلوی یزت یا مشسپندان یعنی میشہ نپنت) دنیا میں اتر آؤ اور دیوؤں اور بدکاروں کو مارو اور انہیں دنیا سے نکال دو ۔ یعنی پنج تن قدیم ایرانی تصور ہے اور اسے مسلمان ہونے کے بعد نیا لبادہ پہنا دیا گیا ہے ۔