(قسط نمبر تین)
احمد شاہ مسعود کے والد افغان فوج میں کرنل تھے۔ پنجشیر میں کم ہی لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے لیکن ان کے والدین استثنا تھے۔ والد نے رسمی تعلیم حاصل کی تھی۔ والدہ نے خود لکھنا پڑھنا سیکھا تھا۔ سخت گیر والدہ جو بیٹوں کو ہر چیز میں آگے دیکھنا چاہتی تھیں۔ جب بڑے بیٹے یحییٰ نے امتحان میں بہت اچھے نمبر لئے تھے تو والد نے موٹرسائیکل لے کر دینے کا سوچا۔ والدہ نے شوہر کو روک دیا، “کیا اس کو گھڑسواری آتی ہے؟ بندوق چلا سکتا ہے؟ اس کو معاشرے میں رہنا آتا ہے؟ اپنے لڑکوں کو وہ چیزیں سکھائیں جن کی ان کو ضرورت ہے”۔ یحییٰ کو موٹرسائیکل نہیں ملی۔
جب تک احمد شاہ مسعود نے ہائی سکول ختم کیا تو والد ریٹائر ہو کر کابل میں رہائش اختیار کر چکے تھے۔ مسعود نے لائسے استقلال میں پڑھا تھا جو شہر کا بہترین فرنچ سکول تھا۔ فرانس جانے کا سکالرشپ ملا لیکن مسعود نے جانے سے انکار کر دیا۔ داخلہ کابل پولی ٹیکنیک میں لیا۔ ریاضی اچھی تھی۔ ان کو امید تھی کہ انجنئیر یا آرکیٹکٹ بنیں گے۔ لیکن انہوں نے آگے چل کر عمارتیں بنانی نہیں، گرانی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرد جنگ افغانستان میں وائرس کی طرح داخل ہوئی تھی۔ ساٹھ کی دہائی کے آخر میں خفیہ مارکسسٹ ادبی حلقے اور خفیہ اسلامی سوسائٹیاں اگنے لگی تھیں۔ مسعود کے والدین نے ان کی پرورش ایک دیندار مسلمان کی طور پر کی تھی۔ ان کیلئے اپنی سائیڈ کا انتخاب کر لینا آسان تھا۔ انہوں نے مسلم یوتھ آرگنائزیشن جوائن کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کابل پولی ٹیکنیک میں مسعود نے اسلام کو جس طرح سیکھا تھا، وہ ان کے والد کے اسلام سے خاصا مختلف تھا۔ یہ عسکری اسلام تھا۔ کابل میں یہ باہر سے آیا تھا۔ افغانستان سے کئی لوگ پڑھنے دوسرے ممالک میں گئے تھے۔ ان میں عبدالرب رسول سیاف اور برہان الدین ربانی بھی شامل تھے جو اپنی ڈاکٹریٹ کرنے مصر گئے تھے۔ مصر کی سیاست الگ طرز کی تھی، جس کا ردِ عمل ریڈیکل اسلام کی شکل میں نکلا تھا۔
صدیوں سے افغانستان میں مذہب یہاں کے جغرافیے کی طرح کا رہا تھا۔ متنوع، مقامی، بغیر مرکزیت کے۔ اسلام فارس سے بھی آیا، وسطی ایشیا سے بھی اور انڈیا سے بھی۔ اس علاقے میں بدھ بھی آئے تھے، سکندرِ اعظم کی قیادت میں یونانی بھی، صوفی بھی، سنیاسی بھی، جنگجو بھی۔ یہاں کے پہاڑی سلسلوں اور وادیوں کی وجہ سے کوئی ایک نظریہ، خواہ روحانی ہو یا سیاسی، تمام لوگوں تک نہیں پھیل سکا تھا۔ یہ ایک متنوع ملک تھا۔ صوفی ازم زیادہ تھا۔ یہ ملک میں پھیلی خانقاہوں میں نظر آتا تھا۔ مصر سے آنے والا نیا مواد یہاں کے روایتی اسلام جیسا نہیں تھا۔
ایمن الظواہری کے بقول، “مصر کی جیلوں میں ہڈیاں توڑی جاتی تھیں، کھال ادھیڑی جاتی تھی، اعصاب کو جھٹکے دئے جاتے تھے اور روح کو مار دیا جاتا تھا”۔ مشہور کتاب معالم فی الطریق اس صورتحال کے پس منظر میں لکھی گئی تھی۔ یہ اسلامی انقلاب کو سرخ انقلاب کی طرز پر لانے والا آئیڈیا تھا، جو مراکش سے انڈونیشیا تک کے ریڈیکل اسلام میں آہستہ آہستہ پھل گیا۔ کمیونزم کے پھیلاوٗ کو روکنے میں یہ فکری جنگ کا ہتھیار بن گیا۔ اس کو کئی جگہ پر ریاستی سرپرستی مل گئی۔ سرخ لٹریچر کا مقابلہ کرنے کے لئے یہ وہ پس منظر تھا، جس میں کابل کے تعلیمی اداروں میں یہ پھیلنا شروع ہوا۔
ربانی نے معالم فی الطریق کا ترجمہ دری زبان میں کیا۔ مسلم یوتھ آرگنائزیشن کے پہلے چیرمین ربانی تھے اور وائس چیرمین سیاف۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلبدین حکمت یار نے اس نئی تنظیم کی پہلی میٹنگ میں شرکت نہیں کی تھی۔ وہ ایک کمیونسٹ طالب علم کے قتل کی معاونت کے الزام میں زیرِحراست تھے لیکن ان کو سیاسی ڈائریکٹر پھر بھی بنا لیا گیا۔ انجینیرنگ کے ادارے میں ان کی شہرت ایک پرعزم ریڈیکل کی تھی جو کسی بھی چیز پر احتجاج کر سکتا تھا۔ جب یونیورسٹی نے پاس ہونے کے نمبر پچاس سے بڑھا کر ساٹھ فیصد کئے تھے تو گلبدین حکمت یار نے اس کے خلاف تحریک چلائی تھی۔ بغیر نقاب کے لڑکیوں کو تنگ کرنے اور ان کو منہ ڈھانپنے پر مجبور کرنے میں بھی شہرت رکھتے تھے۔
مسعود نے گلبدین سے فاصلہ رکھا تھا لیکن ربانی کی تعلیمات ان کو بھاتی تھیں۔ وہ ان کے لیکچر سننے کیلئے خاص طور پر کابل یونیورسٹی جایا کرتے تھے۔ جب محمد داوٗد نے کمیونسٹ سپورٹ کی مدد سے بادشاہ ظاہر شاہ کا تختہ الٹا اور اگلے سال اسلامسٹ گروپس کے خلاف کریک ڈاوٗن کیا تو مسعود، حکمت یار، ربانی اور باقی ممبران کو پاکستان فرار ہونا پڑا تھا۔
پاکستان نے ان کو خوش آمدید کیا تھا۔ داوٗد کی حکومت پاکستان کیلئے پریشان کن تھی۔ افغانستان میں اثر حاصل کرنے کیلئے یہ جلاوطن اسلامسٹ ایک راستہ ہو سکتے تھے۔ پانچ ہزار نوجوان جلاوطنوں نے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت پر خفیہ طور پر بریگیڈئیر نصیراللہ بابر کی زیرِ نگرائی عسکری ٹریننگ حاصل کرنا شروع کر دی۔ نصیر اللہ بابر اور گلبدین حکمت یار کی اچھی دوستی ہو گئی۔ اس دوران افغانستان میں بغاوت کا پلان بنایا گیا۔ اس میں ناکامی ہوئی۔ مسعود کو دوسری بار پاکستان واپس آنا پڑا۔
اس ناکامی نے افغان جلاوطنوں کو دو متحارب دھڑوں میں تقسیم کر دیا۔ حکمت یار کی حزبِ اسلامی جس میں زیادہ تر پشتون تھے۔ ان کے پاکستانی آئی ایس آئی سے اچھے تعلقات تھے جبکہ احمد شاہ مسعود، ربانی کی جماعتِ اسلامی کے ساتھ ہو گئے جہاں پر زیادہ تاجک تھے۔ جب مسعود ایک بار پھر خاموشی سے 1978 میں درہ پنجشیر واپس پہنچے تو وہ اکیلے تھے۔ نہ ہی وہ افغان لیڈروں پر بھروسہ کرتے تھے اور نہ ہی پاکستان پر۔ وہ بس اپنے تیس حامیوں سمیت وادی میں آئے تھے۔ سات رائفلیں تھیں، 130 ڈالر کیش اور ایک خط جس میں مقامی افراد سے اپیل کی گئی تھی کہ سوویت حمایت یافتہ حکومت کے خلاف بغاوت کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی تیسویں سالگرہ تک، مسعود دنیا کی سب سے بڑی روایتی فوج کے چھ براہِ راست حملے روک چکے تھے۔ سوویت یونین اس جنگ میں کھنچتا جا رہا تھا۔ پنج شیر کی وادی میں ڈیڑھ کروڑ کے اس ملک میں صرف اسی ہزار کی آبادی تھی لیکن یہ وادی نہایت اہم تھی۔ ایک مشکل پہاڑی سلسلے میں سالنگ ہائی وے کابل اور ترمذ کے درمیان راستہ بناتی تھی۔ سوویت یونین اور کابل کے درمیان رابطے کیلے سالنگ ہائی وے کا کھلا رہنا ضروری تھا۔ ہتھیار، خوراک، یونیفارم، ایندھن، اسلحہ ہر چیز جو سرخ فوج اور افغان آرمی کو درکار تھی، وہ اسی مشکل راستے سے سفر کر کے آتی تھی۔
جب سوویت قافلہ گزرتا، مسعود کے جنگجو گولیاں برساتے اترتے، اس پر چھاپہ مارتے اور سائے کی طرح غائب ہو جاتے۔ جو ملتا اس کو گھوڑوں پر ڈال کر واپس لے جاتے۔ اینٹی ٹینک میزائل یا ٹینک کے پرزے، ان کو پنجشیر کے مکینک جوڑ کر قابلِ استعمال بنا لیتے۔ ان کے پاس چھینے گئے سوویت یونیفارم بھی تھے۔ سوویت آرمی کا اول نمبر نشانہ مسعود بن گئے۔
پنجشیر پر 1980 سے 1982 کے درمیان چھ حملے ہوئے۔ ہر حملہ پہلے سے بڑی فورس کے ساتھ۔ 1982 کی خزاں کے حملے میں چھٹے حملے میں دس ہزار روسی فوجی، چار ہزار افغان فوجی، ٹینک، اٹیک ہیلی کاپٹر اور افغان جنگی طیارے تھے۔ مسعود، جن کا شوق گوریلا جنگ کا لٹریچر پڑھنا تھا، نے پہلے ہی افغان فوج میں اپنے ہمدرد افراد سے رابطہ رکھا ہوا تھا۔ ان کو آنے والے حملے کا ہفتوں پہلے پتا لگ جاتا تھا۔ حملے سے پہلے ہی ان کی اپنی فورس علاقے سے جا چکی تھی۔ جب بمباری ختم ہو گئی اور روسی اور افغان فوج نے زمینی آپریشن شروع کیا تو انہیں وادی میں بچے، بوڑھے، خواتین اور مویشی تو ملے، مجاہدین نہیں۔ وہ کہیں اور انتظار کر رہے تھے۔ ان کو پتا تھا کہ آمنے سامنے کا مقابلہ ہے ہی نہیں۔ جب سوویت ٹینکوں کا قافلہ ایک سیدھ میں ایک تنگ مقام پر پہنچا، جہاں سے اندر آنے اور باہر نکلنے کا صرف ایک راستہ تھا، تو چند جانباز مجاہدین راکٹ گرینیڈ لے کر اترے۔ پہلے اور آخری ٹینک کو نشانہ بنایا۔ ان ٹینکوں کے ناکارہ ہو جانے کے بعد کالم کیلئے نکلنے کا راستہ نہیں تھا تو پھر بیچ والوں پر ایک ایک کر کے حملہ کیا گیا۔ سوویت فوجیوں کے پاس کئی بار یہ ٹینک چھوڑ کر جانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہوتا تھا۔ مرمت کے بعد ایک ہفتے میں یہ مجاہدین کی آرمی کا حصہ ہوتے۔ سوویت ہتھیار ان کو افغان فوج سے ان کے ہمدردوں کے ذریعے بھی مل جاتے۔
چھٹا حملہ پسپا کر دینے کے بعد ان کی شہرت ملک بھر میں ہو گئی تھی۔ ان کو پنج شیر کا شیر کہا جانے لگا تھا۔ مسعود اپنے کیمپ افغانستان کے اندر سے ہی چلا رہے تھے۔ مقامی لوگوں سے رابطے میں تھے۔ قیمتی پتھروں کی کانوں پر ٹیکس بھی عائد کرتے تھے۔ ان کا طریقہ حکمت یار، ربانی، سیاف یا آئی ایس آئی کے حمایت یافتہ کمانڈروں کے برعکس تھا۔
سوویت یونین نے راستہ محفوظ بنانے کیلئے چھ فٹ اونچی کنکریٹ کی دیوار تعمیر کی۔ سوویت بمباری اور حملوں سے مقامی آبادی کو نقصان پہنچ رہا تھا۔ علاقے کی اسی فیصد عمارتیں منہدم ہو چکی تھیں۔ فصلوں اور مویشیوں کو نقصان پہنچے کے سبب مقامی لوگوں کی زندگی مشکل میں تھی۔ مسعود کے لئے لاتعلق رہنا مشکل تھا۔ 1983 کی بہار میں انہوں نے سوویت یونین سے امن معاہدہ کر لیا۔ اس وادی کے باہر لوگوں کے لئے یہ شاکنگ تھا۔ آئی ایس آئی اور کئی افغان گروپس نے اس کو غداری تصور کیا۔ اگلے برسوں میں بار بار اس کا ذکر کیا جاتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف حکمت یار پاکستان اور سعودی عرب کے سب سے بڑے کلائینٹ بن چکے تھے۔ ان کی شہرت ایک سرد مزاج اور سفاک لیڈر کی تھی۔ بریگیڈئیر یوسف کے مطابق، “اگر کسی پر بھروسہ کرنا ہے کہ اس کو دئے گئے ہتھیار سب سے زیادہ موثر طریقے سے حریف کو ماریں گے تو وہ حکمت یار ہے۔” ان کا شکار ہونے والوں میں کمیونسٹ بھی تھے اور ان سے اختلاف رکھنے والے اسلامسٹ بھی۔ اور اس میں ان کے بڑے حریف احمد شاہ مسعود تھے۔ انہوں نے مسعود کے مجاہدین پر اس قدر زیادہ بار حملے کئے کہ واشنگٹن میں کچھ انٹیلی جنس ایجنٹ یہ شک کرنا شروع ہو گئے تھے کہ حکمت یار کہیں کے جی بی سے تو نہیں ملے ہوئے جو کمیونسٹوں کے خلاف بغاوت کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا نہیں تھا۔ ان کا طریقہ ہی یہ تھا۔
ولیم پکنی، جو سٹیشن چیف تھے، وہ کئی بار حکمت یار سے ملنے ٹریننگ کیمپس جایا کرتے تھے۔ وہ حکمت یار کی لڑنے کی صلاحیتوں کے معترف تھے۔ لیکن کہتے تھے کہ جس مجاہد کمانڈر سے مجھے سب سے زیادہ خوف آتا ہے، وہ حکمت یار ہے۔ اور میں جب اس ٹیم کی آنکھوں میں دیکھتا ہوں، جو اکٹھی ہوئی ہے تو پتا لگ جاتا ہے کہ ان سب کو صرف ایک چیز نے آپس میں جوڑا ہوا ہے۔ ان کی گوند صرف سوویت یونین ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسعود کو امن معاہدے کے دوران سنبھلنے کا موقع ملا تھا۔ پنچ شیر کے کسانوں کو فصل کا اچھا سیزن ملا۔ دوسرے کمانڈروں سے تعلقات بنانے کا موقع ملا۔ ہتھیار اکٹھے کئے۔ اس دوران حکمت یار کی فوج پر حملہ کر کے عندراب کی وادی چھین لی۔ یہ افغان جنگ کے اندر ہونے والی ایک اور جنگ کا ابتدائی باب تھا۔
صلح کا معاہدہ 1984 میں دم توڑ رہا تھا۔ مسعود کے پاس وولگا سیڈان تھی جو سوویت یونین نے افغان وزیرِ دفاع کو تحفے میں بھجوائی تھی لیکن مسعود نے بیچ میں اُچک لی تھی۔ سوویت نے ناراضگی کا اظہار پنج شیر میں ایک خفیہ ایجنٹ بھیج کر کیا تھا جس نے مسعود پر تیس فٹ دور سے فائر کیا تھا لیکن نشانہ چوک گیا تھا۔ اس سے مسعود کو پتا لگا تھا کہ سوویت جاسوس خود ان کے فوجیوں میں بھی ہیں۔ ان میں سے ایک مسعود کا کزن بھی تھا جو خود ایک کمانڈر تھا۔ البتہ مسعود کا جاسوسی نیٹ ورک ایک قدم آگے تھا۔ ان کو پتا لگا کہ سوویت یونین ایک بڑا حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ نہ صرف یہ بڑا ہو گا بلکہ بالکل بے رحمانہ بھی۔ اس میں ایک ہفتے تک وادی میں بھاری بمباری کی جائے گی۔ اور زمین پر بارددی سرنگیں نصب کر کے اس علاقے کو رہنے کے قابل نہیں چھوڑا جائے گا۔
مسعود نے اس سے پہلے اپریل میں سب کو وادی خالی کرنے کا کہہ دیا۔ سوویت بمباری سے تین روز قبل چالیس ہزار پنجشیری وادی سے نکلے اور روپوش ہو گئے۔ جب ایک ہفتے بعد سوویت سپیشل فورس یہاں پہنچی تو وادی بالکل تباہ ہو چکی تھی اور بالکل خالی تھی۔ مسعود اپنی واپسی کو احتیاط سے قریب غاروں سے پلان کر رہے تھے۔ ان کے آدمیوں نے ہیلی کاپٹر گرائے، گھات لگا کر حملے کئے، شبخون مارے لیکن سوویت ایلیٹ فورس سپیسناز کے آنے سے، ہنڈ اٹیک ہیلی کاپٹر اور نئے مواصلاتی آلات کے آ جانے سے جنگ کا پانسہ سوویت فوج کے حق میں پلٹ چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کابل ریڈیو سے احمد شاہ مسعود کا اس لڑائی میں موت کا اعلان ہوا۔ جب بعد میں ایک انٹرویو میں افغان صدر ببرک کارمل سے پوچھا گیا کہ کیا مسعود واقعی مر چکا ہے۔ تو ببرک کارمل نے کہا “کون مسعود؟ امریکی پراپیگنڈہ جھوٹی شخصیتوں کو پیدا کرتا ہے اور ان کا ہوا بنا دیتا ہے۔ ریگن ایک ایکٹر ہے۔ اس کو پتا ہے کہ عالمی سٹیج پر ڈرامے کیسے کرنے ہیں۔ اس کے بنائے مٹی کے بت خود ہی گر جائیں گے۔ مسعود بھی ان کے ہاتھ کی کٹھ پتلی تھا۔ مجھے نہیں پتا کہ وہ زندہ ہے یا نہیں اور مجھے کوئی پرواہ بھی نہیں۔ ہاں، پنج شیر کا مسئلہ حل ہو چکا ہے”۔
ایسا نہیں ہوا تھا لیکن احمد شاہ مسعود کو مشکلات درپیش تھیں۔ جنگ پہلے سے خاصی مشکل ہو چکی تھی۔ مسعود کے حربوں کی سمجھ آ چکی تھی اور مقابلہ کیا جا رہا تھا۔
مسعود کو بیرونی مدد بہت کم ملی تھی۔ برطانوی اور فرانسیسی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے کچھ مدد ملی تھی، جبکہ پاکستانی انٹیلیجنس کو بتائے بغیر کچھ مدد 1984 سے سی آئی اے نے بھی شروع کی تھی۔ لیکن ان کا گزارا زیادہ تر چھینے ہوئے مال پر رہا تھا۔ جس طرح جنگ مشکل ہوتی گئی، ان کو احساس ہوتا گیا کہ ان کو اس مدد کی ضرورت ہے۔ اپنے بھائیوں کو پشاور، واشنگٹن اور لندن بھجوایا کہ پاکستانی جنرلوں اور سی آئی اے کے افسروں سے رابطے کئے جائیں۔
جن چیزوں کی درخواست کی گئی تھی، اس میں راشن، زخمیوں کے علاج میں مدد کے لئے ایکسرے مشینیں، رات کو دیکھنے کیلئے انفراریڈ گوگل اور نشانہ باندھنے والی ڈیوائسز، رابطے کے لئے ریڈیو اور سب سے بڑھ کر کندھے پر رکھ کر چلانے والے اینٹی ائیرکرافٹ راکٹ تا کہ ہیلی کاپیٹروں اور طیاروں کے خلاف دفاع کیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مدد کے ساتھ وہ چھ ماہ میں سوویت یونین کو واپس مذاکرات پر مجبور کر سکتے ہیں ورنہ یہ اگلے چالیس سال تک چلتا رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسعود کو ابھی پتا نہیں تھا لیکن واشنگٹن میں 1985 میں ان کی صلاحیت کے معترف کچھ لوگ بھی اسی نتیجے پر پہنچ رہے تھے۔
پنجشیر کی نو لڑائیوں پر