جاپانی تحقیق کہتی ہے کہ ہفتے میں ایک دفعہ آنسو بہانے سے انسان کا ڈپریشن ختم ہوجاتاہے، ٹوکیو میں اس مقصد کے لیے ایک دلچسپ سروس کا آغازکیا گیا ہے جہاں باقاعدہ پیسے لے کر خواتین کو رُلانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ خواتین کو ایک کمرے میں بٹھا کر ان کے سامنے ایک انتہائی جذباتی اورغمگین فلم چلا دی جاتی ہے جسے دیکھ کر خواتین کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور ڈپریشن سے نجات مل جاتی ہے۔حیرت کی بات ہے کہ یہ سروس صرف خواتین کے لیے ہے، یعنی جاپانی بھی دو چیزوں پر متفق ہیں کہ خواتین میں ڈپریشن زیادہ ہوتاہے اور وہ بہت جلد رو بھی پڑتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ خواتین چھوٹی چھوٹی باتوں پر ڈپریشن کا شکار ہوجاتی ہیں۔میرے ایک دوست کی اہلیہ اکثراس پر بات ڈپریشن کا شکار ہوجاتی ہیں کہ ان کی بہن کے پانچ بچے ہیں اور ان کے صرف تین؟؟؟
یہ بھی سچ ہے کہ مردوں کی نسبت خواتین کو رونا زیادہ آتا ہے اور عجیب و غریب باتوں پر آتا ہے۔ ہماری ایک رشتہ دار ہیں جو رونے کی اتنی شوقین ہیں کہ بعض اوقات اس بات پر بھی رونے لگتی ہیں کہ پچھلے چار پانچ دن سے انہیں رونا کیوں نہیں آیا۔ محلے والے بطور خاص انہیں جنازوں پر مدعو کرتے ہیں کیونکہ محترمہ کے بارے میں مشہور ہے کہ سیاپا بہت اچھا کرتی ہیں ‘ موت کا ذکر ہی ان کا سارا ڈپریشن ختم کردیتاہے۔رونے کے حوالے سے موصوفہ وقت کی بہت پابند ہیں۔رات 8 بجکر 25 منٹ پر انہیں ہر حال میں رونا ہوتاہے اور اتفاق ایسا کہ ہر رات ٹھیک اسی وقت انہیں کوئی ایسی خبر بھی مل جاتی ہے جو ان کی آنکھیں نم کرنے کا باعث بن جاتی ہے ۔ ایک دفعہ ان کے شوہر نے ٹھان لی کہ آج بیگم کو کسی حال میں رونے نہیں دینا لہذاآٹھ بجتے ہی لطیفے سنانے شروع کر دیے۔ انہیں دلی مسرت ہوئی کہ ان کا ہر لطیفہ سن کر بیگم نے پہلے تشریح پوچھی‘ پھر قہقہہ لگایا۔ مزید کچھ وقت گذرا تو لطیفے ختم ہوگئے، شوہر نے فوری طور پر دلچسپ گفتگو شروع کر دی۔ بیگم نے وال کلاک کی طرف دیکھااور کرسی پر بے چینی سے پہلو بدلنے لگی۔جونہی 8 بجکر24 منٹ ہوئے، شوہر نے پوری کامیابی سے نیا پتہ پھینکا اور کہنے لگے'آج میں دفتر سے گھر آرہا تھا تو راستے میںہی بارش شروع ہوگئی، میرے سامنے ایک بندہ پھسل کر کیچڑ میں دھڑام سے گرا اوراس کے سارے کپڑے خراب ہوگئے‘۔ بیگم بے ساختہ ہنسیں 'ہائے اللہ! کسی نے اسے اُٹھایا نہیں؟‘‘۔ شوہر نے چہک کرکہا'آج کل کوئی کسی کی مدد نہیں کرتا‘ سب کا ضمیر مرچکا ہے‘۔ بیگم نے چونک کر زیرلب دہرایا'ضمیر مرچکا ہے؟‘… شوہرصاحب کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا، ضمیر کی موت بیگم کے لیے غیبی امداد ثابت ہوئی‘ موصوفہ نے ایک ہچکی بھری اور شروع ہوگئیں…تاریخ بتاتی ہے کہ اُس وقت وال کلاک پر 8 بج کر 25 منٹ ہوئے تھے۔
خواتین کی زندگی میں رونے کا آغاز ان کی شادی کے دن سے ہوتاہے‘ اس کے بعد ان کا 'جھاکا‘ کھل جاتاہے ۔بیوی بنتے ہی انہیں اپنے آنسوئوں پر دسترس حاصل ہوجاتی ہے‘ پھر یہ اِس بات پر بھی رو پڑتی ہیں کہ شوہرنے ان کے دہی بھلوں میں'پاپڑی ‘کیوں نہیں ڈلوائی‘ہمسائی نے لان کا پرنٹ پہلے کیوں خرید لیا ہے‘ د س سال کی بچی نے اسے آنٹی کیوں کہہ دیا ہے‘ ڈرامہ دیکھتے ہوئے کیبل کیوں چلی گئی ہے اورثانیہ مرزا شادی کے بعد بھی موٹی کیوں نہیں ہوئی۔میرے ایک محلے دار کو کینسر ہوگیا تو ان کی اہلیہ زارو قطار رونے لگیں، تسلی دی گئی کہ حوصلہ کریں‘ جوا ب ملا‘ کیسے حوصلہ کروں؟ یہ تو ٹھیک ہوہی جائیں گے میں تو اس لیے رو رہی ہوں کہ میرے بھائی کو بیٹھے بٹھائے زکام ہوگیا ہے۔
رونا ایک ایسا فعل ہے جو خالصتاً خواتین پر ہی سجتا ہے۔ اسی لیے جب کسی مرد کی آنکھوں میں آنسو آتے ہیں تو پہلا طعنہ یہی سننے کو ملتا ہے کہ'عورتوں کی طرح کیوں رو رہے ہو‘۔ پس ثابت ہوا کہ آنسو عورتوں کی امانت ہیں۔ آپ نے اکثر ایسی عورتیں دیکھی ہو ں گی جو اِس بات پر بھی اشک بار ہوجاتی ہیں کہ ان کے 'پردادا ‘ وفات پاچکے ہیں۔آنسوئوں سے عورتوں کی محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ بہت زیادہ ہنس رہی ہوں تب بھی ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں۔میں اس بات سے متفق ہوں کہ خواتین ہر وقت ڈپریشن کا شکار رہتی ہیں، اس کا عملی مظاہرہ'خواتینی ڈراموں‘ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
اس وقت ٹی وی پر جتنے بھی ڈرامے چل رہے ہیں ان کی یہی کہانی ہے کہ 'شادی ہوچکی ہے‘ شادی نہیں ہورہی‘ شادی ہونے والی ہے‘ شادی ختم ہوگئی ہے‘…ہر چار صورتوں میں خواتین کو روتے ہوئے ہی دکھایا جاتاہے۔یہی ڈرامے جب گھر گھر دیکھتے جاتے ہیں تو ہر خاتون خانہ کو لگتاہے جیسے یہ اسی کی کہانی ہے۔اِن ڈراموں کے مطابق شوہر اگر بیوی کا خیال نہ رکھے تو اس کا مطلب ہے اس کا کہیں اور چکر چل رہا ہے…اور اگر خیال رکھے تو پھر تو یقینا اس کا چکر چل رہا ہے ۔ مرد عموماً یہ ڈرامے نہیں دیکھتے لہٰذا انہیں پتا ہی نہیں چلتا کہ ان کا کون سا جملہ عین ڈرامے کے ڈائیلاگ کے مطابق جارہا ہے۔یہ بیوی سے اتنا بھی کہہ دیں کہ 'آج چائے اچھی نہیں بنی‘ تو بیوی کے ذہن میں فوراً رات والا ڈرامہ گھوم جاتاہے جس میں مرد اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ 'آج چائے اچھی نہیں بنی‘…اور شام کو کسی دوسری عورت سے کہہ رہا ہوتاہے کہ 'جو عورت اچھی چائے بھی نہ بنا سکے اس کے ساتھ کوئی کیسے گزارا کرے‘۔یقینا جو بات ڈرامے میں کہی جاتی ہے اثر رکھتی ہے لہٰذا بیوی سارا دن آنسو بہاتی ہے اور ڈرامے کی اگلی قسط کا بے چینی سے انتظار کرتی ہے تاکہ اس کے بے وفا شوہر کے مزید راز کھل سکیں۔رونے والی عورتوں کا ایمان ہے کہ وہ دنیا کی دُکھی ترین مخلوق ہیں ،زمانے بھر کے عذاب انہی پر ناز ل ہوئے ہیں لہذا وہ آنسو نہ بہائیں تو اور کیا کریں۔ یہ اپنا دکھ محلے کی ساری عورتوں کے ساتھ شیئر کرتی ہیں اور دوپٹے کے پلو سے آنکھیں صاف کرتی ہوئی بتاتی ہیں کہ ان کا شوہر اتنا ظالم ہے کہ مہینے میں چوتھا سوٹ خرید لوں تو صاف صاف کہہ دیتا ہے کہ اب گھی کم استعمال کرنا ‘ پیسے ختم ہوگئے ہیں۔ایسی عورتیں شوہروں کے تمام 'مظالم‘ برداشت کرتی ہیں اورچپکے چپکے رات دن آنسو بہاتی ہیں، یوں ان کا ڈپریشن کم اور شوہروں کا مزید بڑھ جاتاہے تاہم ایک بات ہے، عورت ہر بات برداشت کرسکتی ہے لیکن سوکن کا تصور ہی اسے یکدم آنسو سے 'دھانسو‘ بنا دیتا ہے، پھر وہ حقیقتاً ہرظلم برداشت کرنے پر آمادہ ہوجاتی ہے۔یہ بالکل ایسے ہے جیسے ایک شوہر اپنی بیوی کو ڈنڈے سے مار رہا تھا‘ ایک بزرگ پاس سے گذرے اور پوچھنے لگے کہ بیٹا کیوں اپنی بیوی کو مار رہے ہو؟ شوہر نے غصے سے کہا'یہ بہت گستاخ ہوگئی ہے‘۔ بزرگ مسکرائے اور بولے'بیٹا! عورت کو ڈنڈے سے نہیں مارتے، عورت کو عورت سے مارتے ہیں‘۔ شوہر کی آنکھوں میں حیرت اتر آئی‘ ڈنڈا ایک طرف پھینک کر بولا 'عورت کو عورت سے کیسے مارتے ہیں؟‘۔ بیوی فوراً سمجھ گئی کہ بزرگ کا اشارہ دوسری شادی کی طرف ہے‘کڑک کربولی'بابا جی ، ایویں لچ نہ تلو…نکلو ایتھوں‘ اور ڈنڈا اٹھا کر دوبارہ شوہر کے ہاتھ میں دیتے ہوئے بولی'جانو! تسی اپنا کم جاری رکھو‘…!!!
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔
“