”سمندر کے پانیوں میں بیس ملین ٹن سونا موجود ہے۔“
سمندر سونے سے بھرا پڑا ہے۔ مگر یہ سونا سمندر کے کسی ایک کونے کھدرے میں چھپا نہیں بلکہ وہاں موجود پانی کے ایک ایک ذرے کیساتھ مقجود ہے۔ نیشنل اوشن سروے کے مطابق سمندر کے پانیوں میں بیس ملین ٹن سے لیکر دو سو ملین ٹن تک سونا موجود ہو سکتا ہے۔ مگر،
یہ سونا ہے کہاں پہ؟
صدیوں سے کچھ سر پھرے انسان سمندر کے پانیوں سے سونا کشید کرنے کی کوشش میں جتے ہیں۔ لیکن یہ سب کے سب ابھی تک ناکام ٹھہرے ہیں۔ کوئی بھی ابھی تک سمندر کی زنبیل سے سونا نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
لیکن لوگوں نے ان ناکامیوں کا مطلب ناکامی نہیں لیا۔
1872 میں برٹش کیمیاء دان ایڈورڈ سٹوسٹاڈ نے اس بات کا پتا لگایا کہ سمندر کے پانیوں میں واقعی میں سونا موجود ہے۔ تب سے لوگ اس سے منافع کمانے کی دوڑ میں لگے ہیں۔
اس ضمن میں سب سے پہلی کاوش نیو انگلینڈ کے ایک پاسٹر پریسکوٹ فورڈ نے 1890 میں کی۔ اسکا دعویٰ تھا کہ اُس نے ایک ایسی مشین بنائی ہے جو کہ سمندر کے پانی سے سونا کشید کر سکتی ہے۔ فورڈ نے دعوی کیا کہ اسے خواب میں اس مشین کو بنانے کی بشارت ملی تھی جس کے عین مطابق اس نے یہ مشین بنائی ہے۔ اور اس شخص نے اس مشین کی خوبیاں اس خوش اسلوبی سے بیان کیں کہ بہت سے لوگوں نے ان پر یقین کر لیا اور فورڈ نے یہ بھی دعوی کیا کہ وہ اس سونے کی رقم سے ملک کا قرضہ اتار سکتا ہے۔ اپنے دوست چارلس فشر کیساتھ اس نے الیکٹرولائٹ میرین سالٹ کمپنی کی بنیاد رکھی اور اس کمپنی کو دس لاکھ ڈالر کیش کی صورت میں مختلف انویسٹرز سے اکھٹا کر لیا۔
انہوں نے اس رقم سے Lubec, Maine کے علاقہ میں سونا کشید کرنے والی مشین کو لگایا اور اس بات کا شور و غوغا اتنا مچا کہ جلد ہی انہوں نے ایک اور مشین بھی لگا دی۔ مگر 1898 تک انویسٹر اتنا اکتا چکے تھے کہ انہوں نے فورڈ سے اپنی رقم واپس مانگنے کا مطالبہ کر دیا۔
یہ مطالبہ سننے کے بعد وہ دونوں وہاں سے غائب ہو گئے ان میں سے فورڈ یورپ بھاگ نکلا اور وہاں اس نے پناہ لے لی جبکہ اسکا دوست فشر دوبارہ کسی کو نا ملا۔ اور یوں یہ دونوں سونے کے نام پر فراڈ کرکے بھاگ نکلے۔
اسکے دو سالوں بعد ایک لبنانی موجد نے سونا کشید کرنے کے ایک طریقے کو اپنے نام پہ پیٹنٹ کروایا مگر اس کا یہ طریقہ کبھی بھی استعمال نا ہو سکا۔
اسکے بعد 1920 میں ایک نوبل انعام یافتہ جرمن کیمیائی ہتھیار ساز فرٹز ہاربر نے اس کام کا بیڑہ اٹھایا۔ جرمن حکومت کی طرف سے جنگ عظیم اول میں ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنے کے لئے اس کو ایک بڑے پراجیکٹ کی سربراہی دی گئی جس کا مقصد سمندر سے سونا کشید کرنا تھا۔ اس ضمن میں ہاربر نے الیکٹرو کیمسٹری سے لیکر سینٹری فیوگل فورس تک سب سائنسی حوالوں کو بروئے کار لا کر اس کام کو ممکن بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ لیکن بہت لمبے عرصہ بعد ہاربر کو پتا چلا کہ اس نے ان تجربات کے شروع میں جو ریاضیاتی کیلکولیشنز کی تھیں وہ تھوڑی سی غلط تھیں جس کی وجہ سے اسکی ساری محنت غارت ہو گئی اور آخر میں اس نے اعلان کیا کہ سمندر سے سونا کشید کرنا اصل سونے کو خریدنے سے بھی زیادہ مہنگا کام ہے۔
ان ابتدائی کوششوں کے ناکام ہونے کے باوجود کئی دیگر لوگوں نے بھی سونا کشید کرنے کی کوشش کی جو کہ ناکام ہوئی۔ مگر بیسویں صدی کی جدید ٹیکنالوجی کی بدولت نیو سائنٹسٹ نے ایک تحقیق شئیر کی جس کے مطابق سمندر کے سوملین ٹن پانی میں ایک گرام سونا موجود ہو سکتا ہے۔
اس بات کو سن کر ایک ہندوستانی سائنسدان جوئے پرکاش نے 2002 میں ایک ایسا میتھڈ بنانے کا دعوی کیا جس کی مدد سے وہ سونا سمندر کے پانی سے کشید کر سکتا ہے۔ مگر بعد میں یہ منظر نامے سے غائب ہو گئے۔
حالیہ کوششوں میں 2012 میں مارک سویلین نامی ایک بائیومیڈیکل سائنٹسٹ نے اس بات کا دعوی کیا کہ وہ سونا کشید کرنے والی مشین بنا رہے ہیں لیکن ان کی اس مشین کو کسی بھی انویسٹر نے خاطر خواہ گھاس نا ڈالی۔ اور یوں وہ ناکام ہو گئے۔
گو یہ بات بالکل سچ ہے کہ سمندر کے ہر سو ملین ٹن میں ایک گرام یا اس سے زیادہ سونا واقعی میں موجود ہو سکتا ہے مگر یہ سونا کشید کرنا ایک سبز باغ دکھانے کے مترادف ہے اور یہ سبز باغ کبھی بھی نہیں بن سکتا۔ لیکن اس ضمن میں انسان بہت کچھ نیا سیکھ چکے ہیں جن میں سے سب سے اہم چیز سبق ہے جو کہ ان سونا فروشوں سے دھوکہ کھا کر سیکھنے کو ملا۔ لیکن سمندر سے یوں سونا نکالنا کافی کھٹن اور مہنگا کام ہے جس سے آسان کام یہی ہے کہ ہم مارکیٹ سے سونا خرید لیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...