ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان ( ٹی ڈی اے پی ) میں کی
جانے والی کرپشن کا منصوبہ یوسف رضا گیلانی کے جیل کے ساتھی کے ساتھ مل کر تیار کیا۔ کرپشن کی 65 فیصد رقم سابق وزیراعظم اور وفاقی وزیرکے گروہوں میں تقسیم ہوتی تھی اور باقی 35 فیصد ٹی ڈی اے پی کے افسروں میں۔ 2008ء میں سابق وزیراعظم کے جیل کے ساتھی نے بتایا کہ جیل میں اس کی ملاقات یوسف رضا گیلانی سے ہوئی اور یہ کہ دونوں کے درمیان اچھے مراسم ہیں۔ پھر گیلانی وزیراعظم بن گئے تو ان کے جیل کے ساتھی نے مجھے کہا کہ کوئی کام بتائو۔ میں نے بتایا کہ 2002-03ء کی فریٹ سبسڈی سکیم کے کچھ کلیم تعطل کا شکار ہیں ، اگر وزیراعظم رقوم ریلیزکر دیں تو برآمد کنندگان سے کمیشن کی مد میں اچھی خاصی رقم مل سکتی ہے۔ جیل کے ساتھی نے وعدہ کیا لیکن یہ بھی بتایا کہ پہلی قسط کے طور پر وزیراعظم کو کچھ رقم دینا ہوگی۔ میں نے 50 لاکھ روپے جمع کیے اور وزیراعظم کے جیل کے ساتھی کے ہمراہ وزیراعظم ہائوس گیا جہاں 50 لاکھ کی ادائیگی کی۔ وزیراعظم ہائوس میں یوسف رضا گیلانی سے ملاقات بھی ہوئی۔ دوسری ملاقات کے بعد وزیراعظم ہائوس کی ہدایت پر 43کروڑ ساٹھ لاکھ روپے فریٹ سبسڈی کی مد میں جاری ہوئے۔ اس سلسلے میں وزیراعظم کے جیل کے ساتھی نے اُس وقت کے ٹی ڈی اے پی کے چیف ایگزیکٹو سید محب اللہ شاہ سے بھی ملاقات کی، فنڈز جاری ہونے کے بعد کاغذی ایکسپورٹ کمپنیوں کے جعلی کلیم داخل کیے اور فریٹ سبسڈی کی 90 فیصد رقم کاغذی کمپنیوں کو جاری کی گئی۔ باقی دس فیصد سے حقیقی کلیم بھگتائے گئے۔ فریٹ سبسڈی کے حوالے سے کی جانے والی لوٹ مار دو گروہوں میں تقسیم کی جاتی تھی۔ ان میں ایک گروہ وفاقی وزیر مخدوم امین فہیم کا تھا جبکہ دوسرا گروہ یوسف رضا گیلانی کا تھا۔ رقوم کی تقسیم اوپر بیان کیے گئے فارمولے کے مطابق کی جاتی تھی۔ پھر جب ٹی ڈی اے پی کے چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر طارق اقبال پوری تعینات ہوئے تو کرپشن کے معاملات ان کے بھائی کے گھر پر طے ہوتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب وزیراعظم اور وفاقی وزیر کا حصہ 65 فیصد سے بڑھا کر ستر فیصد کر دیا گیا تھا‘‘۔
یہ اقبالی بیان اس بھیانک سکینڈل میں ملوث ایک اہم فرد کا ہے۔ یہ کوئی ڈھکا چھپا بیان نہیں ، قومی پریس میں شائع ہوا ہے۔ خبر کا دلچسپ ترین حصہ یہ ہے کہ ایف آئی اے حکام نے یوسف رضا گیلانی اور مخدوم امین فہیم کو بھی نوٹس جاری کیے ہیں لیکن دونوں سیاسی لیڈر تادمِ تحریر تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔
یہ دونوں سیاست دان ایک سیاسی جماعت کے سرکردہ رہنما ہیں اور وفاق کی سطح پر وزیراعظم اور وفاقی وزیرکے مناصب پر فائز رہے ہیں ،اس سے پہلے بھی یہ کم اہم عہدوں پر کبھی نہیں رہے۔ پریس میں ان دونوں صاحبان کے حوالے سے ایک عرصہ سے قسم قسم کی خبریں آتی رہی ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کی وزارتِ عظمیٰ کا پورا دور بھیانک سکینڈلوں سے بھرا پڑا ہے جن میں ان کے اپنے نام کے علاوہ ان کے خاندان کے افراد کے نام بھی مسلسل آتے رہے ہیں۔ یہی حال وزیر صاحب کا ہے۔کبھی قوم کو بتایا جاتا ہے کہ ان کا نیشنل ٹیکس نمبر ہی نہیں۔کبھی بتایا جاتا ہے کہ چارکروڑکی رقم ان کے اکائونٹ میں گئی اور پھر واپس کی گئی یا نکال لی گئی۔ ان حضرات کے خلاف ایکشن ہونا تو دورکی بات ہے‘ ان کے خاندان کے دوسرے افراد بھی ملک کی تقد یر سے کھیل رہے ہیں۔ ان وزیر صاحب کی صاحبزادی مقابلے کے امتحان میں شرکت کیے بغیر فارن سروس کا عہدہ لینے میں کامیاب رہی۔ تھر کے حالیہ قحط کے حوالے سے وزیر صاحب کے صاحبزادوں کے نام بھی مشہور ہوئے۔
حیرت ہوتی ہے کہ جب اعتزازاحسن اور رضا ربانی جیسے دانش ور تقریریں کرتے وقت دوسروں پر تنقید کرتے ہیں تو اپنی جماعت کے ارباب بست وکشاد سے کرپٹ ارکان کے متعلق کبھی معاملات طے نہیں کرتے یا کراتے ۔ جب پارٹی سے وابستگی ہی سب کچھ ہو تو جناب فرحت اللہ بابر جیسا نیک نام شخص بھی سب کچھ دیکھتے ہوئے کچھ نہیں دیکھتا اور ایک ایسے شخص کا دست راست بنا رہتا ہے جس کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے ، سوائے اس کے کہ ؎
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
مقام عبرت ہے کہ حج سکینڈل سے لے کر ٹی ڈی اے پی سکینڈل تک کئی سکینڈلوں کے مرکزی کردار یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے تقریباً ایک سال سے اغوا کاروں کی تحویل میں ہیں ۔ دو دن پیشتر ان کی ایک مبینہ وڈیو منظر عام پر آئی ہے ، اس میں وہ زنجیروں میں جکڑے دکھائی دیتے ہیں اور پیغام دے رہے ہیں کہ اگر پچاس کروڑکا تاوان نہ دیا گیا تو انہیں قتل کر دیا جائے گا۔ وڈیو میں وہ شکوہ کناں ہیں کہ ان کے اہل خانہ انہیں رہا کرانے کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔
کسی کو تاوان کے لیے اغوا کرنا ایسا قبیح فعل ہے جس کی کسی صورت بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگرکوئی شخص جناب یوسف رضا گیلانی سے ایک لاکھ درجہ زیادہ خراب شہرت رکھتا ہو‘ تب بھی اسے یا اس کے خاندان کے کسی فردکو اغوا کرنے کا کوئی جوازپیش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ شہریوں کو اغوا کاروں سے رہائی دلوانا ریاستی اداروں کا اولین فرض ہے‘ وہی ریاست جس کے انتظامی ڈھانچے کی سربراہی پانچ سال تک خود یوسف رضا گیلانی کے پاس رہی ۔ تاہم اس المیے میں سبق بھی پوشیدہ ہے۔اس بادشاہ کا واقعہ یاد آ رہا ہے جس سے کسی عقل مند نے پوچھا تھا کہ اگر صحرا میں شدید پیاس لگی ہواورجس شخص کے قبضے میں پانی ہو وہ آدھی سلطنت کا تقاضاکر رہا ہو تو آپ کیا کریں گے۔ بادشاہ نے جواب دیا ‘ زندگی بچانے کے لیے آدھی سلطنت دے دوں گا۔ عقل مند نے دوبارہ پوچھا کہ پھر آپ کا پیشاب بند ہو جائے اور آپ شدت درد سے لوٹ رہے ہوں اور جس شخص کے پاس اس ویرانے میں پیشاب جاری کرنے کی دوا ہواور وہ باقی آدھی سلطنت کا مطالبہ کر رہا ہو ؟ بادشاہ نے ایک لحظہ توقف کیے بغیر کہا کہ بقیہ آدھی بھی دے دوں گا۔ اس پر عقل مند نے کہا کہ بادشاہ سلامت ! اگر اتنی بڑی سلطنت کی قیمت پانی کے چندگھونٹ اور پیشاب کے چند قطرے ہیں تو پھر اس پر نازوغرورکیا کرنا !
کچھ لوگ دولت کے لیے عزت تک نیلام کر دیتے ہیں لیکن دولت ہے کہ پھر بھی کام نہیں آتی۔ عبرت پکڑو اے آنکھوں والو !!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“