شعبان کی پندرھویں رات یعنی شب برات کو عبادت اور نیک کاموں کیلئے جاگنے کے سلسلہ میں اور اسی طرح اسکے دن کو روزہ رکھنے کے بارے میں شارع علیہ السلام کی طرف سے کسی قسم کی ممانعت وارد نہیں ہوئی ہے ، ہاں بعض روایات میں شعبان کی پندرھویں تاریخ کے بعد روزہ رکھنے کے بارے میں نہی وارد ہوئی ہے، لیکن بعض علماء اکرام نے بعض دوسری صحیح احادیث کی بنا پر ان احادیث کی تاویل کی ہے اور اس پر عمل کرنا چھوڑدیا ہے ، لیکن بہر حال پندرھویں شعبان کے دن روزہ رکھنے کو قطعی طور پر منع نہیں فرمایا بلکہ پندرھویں تاریخ کا دن ان روشن دونوں میں سے ہے جن کو ( ایام بیض کہا جاتا ہے یعنی۔ ١٣, ١٤, ،١٥ ) جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترغیب دینے کی وجہ سے مستحب قرار دیا گیا ہے،بلکہ بہت ساری احادیث شعبان کی پندرھویں تاریخ کی رات عبادت اور اس دن کو روزہ رکھنے کی فضیلت کے سلسلہ میں خاص طور سے وارد ہوئی ہیں، اور اس وجہ سے اس مبارک رات کو عبادت اور نیک کاموں میں مشغول رہنے کیلئے جاگنے اور دن کو روزہ رکھنے کی مزید تاکید ہوتی ہے،
یہاں میں چند حدیثوں کو پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں،
حضرت معاذ بن جبل رض سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ شب برات کی رات تمام مخلوقات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور شرک و کینہ پرور کے علاوہ تمام مخلوقات کو معاف فرما دیتے ہیں، طبرانی اور ابن حبان نے اس کو صحیح قرار دیا،:
حضرت عبداللہ بن عمر رض سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں تاریخ کو اپنی مخلوقات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور دو بندوں کے علاوہ باقی تمام کی مغفرت فرما دیتے ہیں ایک کینہ رکھنے والا ، دوسرا ناحق قتل کرنے والا، بحوالہ مسند احمد ج,٢ص, ١٧٦,
امام بیہقی نے شعب الایمان ج٣ ,ص ١٨٣, میں براویت عثمان ابن العاص نقل کیا ہے کہ۔ جب شعبان کی پندرھویں تاریخ کی رات آتی ہے تو ایک آواز دینے والا پکارتا ہے کہ۔ ہے کوئی معافی مانگنے والا اس کی مغفرت کی جائے ، ہے کوئی سوال کرنے والا کہ اس کو نوازا جائے ، آج جو کچھ بھی بندہ مانگے گا اللہ اس کو عطا کرے گا محرومی صرف زنا کرنے والے اور مشرک کیلئے ہے، اسکو حافظ ابن رجب حنبلی نے؛ لطائف المعارف؛ میں اور امام غماری نے ۔ حسن البیان۔ میں اور حافظ سیوطی نے در منثور میں ذکر فرمایا ہے،
امام سیوطی نے در منثور۔ میں فرمایا کہ امام ابن ابی شیبہ امام ترمذی ابن ماجہ اور بیہقی نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا۔ میں نے ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس نہیں پایا میں ان کو ڈھونڈنے کیلئے نکلی اچانک میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع میں اپنے سر کو آسمان کی طرف اٹھاے ہوئے تھے حضور نے میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا۔ عائشہ ۔ کیا تو ڈرتی ہے کہ اللہ اور اسکے رسول تم پر ظلم کرے ، میں نے کہا یہ بات تو نہیں لیکن میں نے گمان کیا کہ آپ دوسری زوجات کے پاس تشریف لے گئے ہیں، پھر آپ نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ مغفرت فرما دیتے ہیں، (" ابن رجب حنبلی نے ۔ لطائف۔ میں اس کو ذکر کیا اور فرمایا کہ احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں اس سے تخریج کی ہے)
حافظ منذر نے ترغیب ترہیب میں فرمایا کہ امام بیہقی نے حضرت عائشہ صدیقہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ آج شعبان کی پندرھویں تاریخ کی رات ہے اللہ اس رات کو بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی مقدار لوگوں کو جہنم سے آزاد فرمادیتے ہیں اور اس رات میں نہ کسی مشرک کی طرف نہ کسی کینہ پرور کی طرف نہ کسی قطع رحمی کرنے والے کی طرف اور نہ کسی ٹخنے سے نیچے ازار لٹکانے والے کی طرف نہ والدین کی نافرمانی کرنے والے کی طرف نہ کسی شراب کے عادی کی طرف نظر رحمت فرماتے ہیں،
یہ چند روایات ہیں جو شب برات کی فضیلت و اہمیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں روایات جیسے بھی ہوں بہر حال ہمیں اس رات کو کام میں لانا چاہئے اور اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کرنا چاہیے رو رو کر اپنے خالق کی خوشنودی حاصل کرنا چاہیے تاکہ ایک کامیاب و بامراد زندگی گزار کر ہم دنیا سے رخصت ہوں اور آخرت میں بھی سرخروئی مقدر ہو ، اور پھر اس رات میں کائنات کا فیصلہ ھوتا ہے نظام زندگی کا سارا دفتر تیار ہوتا ہے ہمارا سال بھر کا نظام تیار ہوتا ہے زندگی اور موت کا فیصلہ ہوتا ہے اعمال حسنہ اور اعمال سئیہ کی راہ ہموار کیا جاتا ہے ، اس رات میں تو ہمیں مزید عبادت تلاوت ذکر و اذکار میں گزارنا چاہیے، اور اگر استطاعت ہو تو روزہ بھی رکھ لئے جائیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے روزہ کو بڑی اہمیت دی ہے ،
چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رض بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں کثرت سے روزہ رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم سمجھنے لگتے کہ آپ افطار نہیں کریں گے اور کبھی روزہ رکھتے ہی نہیں تھے یہاں تک کہ ہم سمجھنے لگتے کہ آپ روزہ رکھیں گے ہی نہیں، اور میں نے آپ کو رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں پورا روزہ رکھتے نہیں دیکھا اور اسی طرح شعبان کے علاوہ کسی اور مہینہ میں اتنی کثرت سے روزہ رکھتے نہیں دیکھا، ( بخاری ۔ مسلم)
امام منذر نے ترغیب وترہیب میں حضرت اسامہ بن زید سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ۔ یا رسول اللہ۔ میں نے آپ کو شعبان جیسا اور کسی مہینہ میں اتنے زیادہ روزے رکھتے نہیں دیکھا اپ نے فرمایا ۔ یہ مہینہ رجب اور رمضان کے درمیان ہے اور یہ ایسا مہینہ ہے جس میں بندہ کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال اس حال میں اٹھائے جائیں کہ میں روزہ سے ہوں ، ( امام نسائی اور احمد بن حنبل نے بھی اس کو روایت کیا ہے ،
اب یہاں میں مختصرا اقوال علماء نقل کررہا ہوں تاکہ اس کی اہمیت اور واضح ہو جائے،
حافظ ابن رجب نے المعارف ص١٦٣, میں فرماتے ہیں کہ حضرت نوف السبکائ سے روایت کیا جاتا ہے کہ حضرت علی شعبان کی پندرھویں رات کو نکلے اور اس رات کو کثرت سے نکلتے رہے ایک دفعہ آسمان کی طرف دیکھ کر فرمانے لگے، بیشک یہ وقت ایسا ہے کہ بندہ اللہ سے جو بھی مانگے اللہ قبول کرتے ہیں ، اور اس رات کو جو بھی مغفرت طلب کرے اس کی مغفرت کی جاتی ہے جبکہ وہ ٹیکس وصول کرنے والا نہ ہو ، جادو گر نہ ہو، فحش شعر گو نہ ہو،کاہن نہ ہو ، نجومی نہ ہو، ناجائز امور میں کام کرنے والا نہ ہو، کوبہ والا نہ ہو، عرطیہ والا نہ ہو ، نوف نے کہا کہ کوبہ کے معنی ۔ طبل ۔ اور عرطیہ کے معنی طنبور ۔ ہے ، پھر حضرت داؤد علیہ السلام نے دعا کی کہ اے داؤد کے رب ۔ اس رات کو جو بھی دعا مانگے جو بھی معافی مانگے سب کو معاف فرما، ( اسکو عبداللہ غمازی نے ۔حسںن البیان۔ میں ذکر کیا ہے ،
ابن رجب نے المعارف میں فرمایا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے بصرہ میں اپنے گورنر کو خط لکھا کہ سال کی چار راتوں میں عبادت کا خاص اہتمام کرنا ، رجب کی پہلی رات، شعبان کی پندرھویں رات، عید الفطر و عید الاضحی کی رات ، ابن رجب کا کہنا ہے کہ اس کی صحت میں کلام ہے،
عمر بن عبدالعزیز کے اس قول کی تائید امام شافعی کے اس تصریح سے ہوتی ہے جو انہوں نے۔ کتاب الأمم میں عیدین کی راتوں میں عبادت کے بیان میں ج,١ ص٣١, پر فرمائ ،فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ کہا جاتا ہے کہ پانچ راتوں میں دعا قبول ہوتی ہے ،
جمعہ کی رات، عید الفطر و عید الاضحی کی رات ، رجب کی پہلی رات ، اور شعبان کی پندرھویں رات، امام شافعی نے یہ بھی فرمایا کہ جو کچھ ان راتوں کے بارے میں بیان کیا گیا ہے میں اسے مستحب سمجھتا ہوں،
یہاں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ بعض لوگوں کا گمان یہ ہے کہ شب برات کے مخصوص روزے ہیں یعنی ١٤,١٥ کو وہ شب برات کے روزے کی نیت سے روزہ رکھتے ہیں جبکہ ایسا کچھ نہیں ہے شب برات کیلئے کوئی روزہ مخصوص نہیں ہے بلکہ وہ آیام بیض کے روزے ہیں جو ہر مہینہ ١٣,١٤,١٥ کو رکھے جاتے ہیں اس لئے اس غلط فہمی سے باہر نکلیں،
نوٹ
اس وقت پورا ملک لاک ڈاؤن کی زد میں ہے اس لئے عبادات وغیرہ کیلئے مسجدوں میں ہر گز نہ آئیں قبرستان وغیرہ جانے کا بھی اہتمام نہ کریں بلکہ اپنے۔ گھروں میں رہ کر ہی عبادت کریں اور اس وبا کے خاتمہ اور ملک کی سلامتی کیلئے خصوصی دعا کا اہتمام کریں۔