پنڈاری پانچویں اور آخری قسط تبصرہ
پبڈاریوں کے ان دو سالاروں کی سوانع عمری پنڈاریوں کی تاریخ کے مطالعہ کے حد از ضروری ہے ۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ پنڈاریوں تنظیم طاقت ور ہونے کے باوجود ایک قوم کی تشکیل اور اپنی ریاست قائم کیوں کرسکے ۔ اس کی بنیادی وجہ ان کی تنظیمی ڈھانچہ تھا جو کہ مستقل بنیادوں پر قائم نہیں تھا ۔ ان کی تربیت ایسی نہیں تھی کہ وہ حملہ کریں یا مزاحمت کریں ۔ ان کی تربیت اس نہج پر تھی کہ لوٹا ماری کریں اور کسی فوج کی آمد پر مقابلہ کرنے کے بجائے فرار ہوجائیں ۔ پنڈاریوں کی معاشرے کوئی عزت یا توقیر نہیں تھی ، حتیٰ ان درباروں جہاں وہ ملازم تھے یا جن کے آلہ کار بنے وہاں بھی فوجیوں سے ان کا درجہ بہت کم تھا انہیں دربار میں بیٹھنے تک اجازت نہ تھی ۔ اگرچہ ہر پنڈواری سردار جس نے عروج حاصل کیا اس کی خواہش رہی کہ اسے معاشرے میں باعزت مقام ملے ۔ مگر ان پنڈواریوں کی تربیت باقیدہ فوجیوں سے بالکل جدا تھی ۔ اس لیے وہ کسی بھی فوج سے مقابلہ نہیں کرسکے اور اپنی اور عادات و خصلت کے باعث کوئی ریاست بھی قائم نہیں کرسکے ۔ کیوں کے اس طرح ان کی مستقل ریاست قائم ہونا مشکل تھا کہ جب تک وہ اپنی عادات سے دست کش نہیں ہوجاتے ، یہ اپنی انہی عادتوں کے باعث کسی ایک جگہ مستقل قیام نہیں کرسکتے تھے ۔ کیوں کہ ہر ریاست چاہے کتنی ہی غیر منعظم ہو اس اصولوں کے خلاف تھے جو کہ ہر رہاست سے ہمیشہ برسر جنگ رہنے کے لیے بنائے گئے تھے ۔
ایسی ریاستوں میں پنڈاریوں کا رہنا خصوصیت کے ساتھ مخدوش تھا جن میں ان کے مغلوب کرنے سکت نہ تھی اور چونکہ وہ خود باقیدہ قوم بنے کے لائق نہیں تھے اور نہ انہیں امن و امان سے کچھ سروکار تھا ۔ لیکن اس حالت میں وہ کمزور اور لاچار ریاستوں کے لیے نہایت ہیبت ناک بن گئے تھے ۔ لیکن وہ کسی زبردست حکومت کے دلیرانہ حملے کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے ۔ ظاہر بینوں کو ان قزاقوں کا استیصال کرنا اگر ناممکن نہیں تھا تو نہایت دشوار ضرور تھا ۔ لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ وہ بغیر مکان اور وسیلہ معاش کے بغیر زندہ رہ نہیں سکتے تھے ۔ اس عظیم انشان اور روز افزوں وبال کا صرف یہی علاج تھا کہ انہیں ان کے مقبوضہ علاقوں سے نکال دیا جائے اور جو لوگ انہیں امداد اور پناہ دیں ان کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے اور ان کے استیصال کے لیے جو تدابیز اختیار کی گئیں وہ نہایت دانشمندی سے قرار پائیں تھیں ۔ ان پر پورے جوش اور مستعدی کے ساتھ عمل کیا گیا اور نہایت کامیابی کے ساتھ انہیں درجہ تکمیل کو پہنچایا دیا گیا ۔ ہندوستان میں کوئی ایسا مقام نہیں تھا جو پنڈاریوں کا مسکن کہا جاسکتا ہے ۔ وحشی درندوں کی طرح ان کا شکار کیا گیا بے شمار لوگ مارے گئے ان کے جتھے سب تباہ و برباد ہوگئے ۔ لوگوں نے ان کی حمایت کی انہیں شکت دی گئی ۔ شروع سے ہی میں ان سے متعدی بیماری کی طرح نفرت کی جاتی تھی اور ان دیہاتیوں نے پنڈاریوں پر حملہ کرنے میں پیش دستی کی جو ان کے ہاتھ سے ستائے گئے تھے ۔ ان کے خاص سپہ دار مار ڈالے گئے یا انہوں نے اطاعت قبول کرلی یا وہ قید کر لیے گئے اور ان کے ساتھیوں کو گورنمنٹ نے رحم و کرم فرما کر محنتی بن جانے کی امداد دی اور اب وہ عام آبادی میں گھل مل زگئے ہیں جس کے فضلے سے پیدا ہوئے تھے ۔ تفصیلی تحقیقات کرنے پر صرف اس قدر معلوم ہوسکے گا کہ یہ ہیبتناک لٹیرے اب ذلیل اقوام میں مل کرپوشیدہ ہوگئے ہیں اور تجارت و زراعت میں مشغول ہوگئے ۔ اس طرح سے انہوں اپنے گزشتہ مظالم کی تلافی کرنے کی کوشش کی ۔
ان لٹیروں میں کسی قسم کا مذہبی اور نسلی تعصب بالکل نہیں تھا ۔ چونکہ ان میں ہر قوم والے شامل اس لیے انہیں اپنی سپاہیانہ قابلیت اور اپنے خاندان یا وطن پر کبھی ناز یا فخر نہ ہوا اور اس کے لیے وہ اس قسم کے رشتہ میں مربوط نہ تھے جو ہندوستان کی بہت سی اقوام میں ناقابل شکست صورت اختیار کرلیتا ہے ۔ کسی خراب زمانے میں اور لٹیروں کا پیدا ہونا ممکن ہے ۔ لیکن منتخب جماعت نے پنڈاریوں کا ویسا استیصال کردیا گیا کہ تقریباً ان کا نام فراموش ہوگیا ہے جس کی بدولت سارے ہندوستان میں خوف و دہشت چھائی ہوئی تھی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔