پنڈاری کریم خان چوتھا حصہ
کریم خان بہت مشہور پنڈاری سردار گزرا ۔ اسے ایک زمانے میں اپنے رقیبوں سے بہت زیادہ قوت اور آزادی حاصل ہوگئی تھی ۔ اس کا باپ محمد داؤد بھی رگھو یا پیشوا کے پاس لٹیروں کی ایک جماعت کا سالار تھا ۔ کریم خان بیرسیہ میں پیدا ہوا تھا جب یہ آٹھ سال کا ہوا تو اس کا باپ شاہ پور میں مارا گیا ۔ باپ کے مرنے کے بعد ٹولی کی کمان اس کے چچا یار محمد کو مل گئی ۔ وہ بھی رگھبوبا کے یہاں ملازمت میں رہا ۔ مگر جب رگھوبا انگریزوں سے مل گیا تو یار محمد نے مادھو جی کی ملازمت اختیار کرلی اور اس کے ہمرا کریم خان ہندوستان چلا گیا ۔ جب اس کی عمر بیس سال ہوئی تو مادھو جی سندھیا نے اسے مالوے میں اسے جاگیر دینے کا وعدہ کیا تھا اور کریم وہاں سے ڈی بون کی فوج کے ساتھ گیا اور سکھاری گھاٹ کے پاس ہلکر کی فوجوں کی شکست کے وقت وہ ساتھ تھا ۔
بعد میں ہیرا اور برن نے اپنی خدمات بھوپال گورنمنٹ کو پیش کیں اور انکار پر وہ ریاست کے لیے وبال جان ہوگئے اور اس وقت کریم نے بھی لوٹ مار میں شرکت کی تھی ۔ کریم اس وقت پانچ یا چھ سو آدمیوں کا سپہ دار تھا ۔ برن کے قید ہونے پر وہ ناگپور سے بھاگ گیا اور دولت راؤ سندھیا کے یہاں نوکر ہوگیا جو اسی وقت مسند پر بیٹھا تھا اور دوسرے مرہٹہ روسا سے مل کر نظام الملک پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا تھا ۔ کریم کا بیان ہے کہ اس جنگ مین اگرچہ کشت و خون بالکل نہیں ہوا لیکن اس قدر مال غنیمت میرے ہاتھ لگا جو اس سے پہلے کبھی ہاتھ نہیں آیا تھا ۔ کریم مال غنیمت چھن جانے کے اندیشے سے بھاگ کر وسط ہند آگیا ۔ کریم خان اس وقت دو سے تین ہزار سوار کا کماندار تھا ۔ اور وہاں اس نے اپنی خدمات جسونت راؤ کو پیش کیں ۔ جسونت راؤ نے اسے حکم دیا کریم الدین کے پاس جاؤ اور اس کے بھائی امیر خان کی مدد کرو جو شکہ ساگر سے پسپا ہونے پر مجبور ہوا ہے ۔ لیکن وہ اپنی جائداد کو نقصان پہنچنے کے اندیشے سے یہ سردار جسونت راؤ ہلکر کی شم شلازمت سے بھی دست کش ہوگیا اور اس نے سندھیا کے ملازمین میں داخل ہونے کی پھر درخواست کی ۔ مگر اسی کے ساتھ اس نے امیر خان سے خط و کتابت شروع کردی اور اس سے استدعا کی کہ اس کے بال بچوں کو جگہ دیجئے ۔ امیر خان اگرچہ اپنے ساتھیوں کی تعداد میں اضافہ سے گھبراتا تھا لیکن اس نے امیر خان کی درخواست منظور کرلی ۔ لیکن اسے جلد ہی اس پر کف افسوس ملنا پڑا ۔ کیوں کہ جب امیر خان دولت راؤ سندھیا سے جنگ و جدل میں مصروف تھا اس سے فائدہ اٹھا کر کریم خان نے دوسرے پنڈاریوں سے ساز باز کرکے پرگنہ شجال پر قبضہ کرلیا ۔ کریم خان نے ریاست پوار کا قصبہ پیرسیہ پر بھی قبضہ کرلیا ۔ سندھیا جب انگریزوں سے دکن میں ناکام جنگ کے بعد واپس آیا تو اس نے کریم خان کے ان دونوں مقامات پر قبضہ کی منظوری دے دی ۔
سندھیا نے کریم خان کو نواب کا خطاب دیا اور اس نے نواب بھوپال کے اس خاندان کی ایک خاتون کے ساتھ شادی کرلی جو کہ راتھ گڑھ میں رہتا تھا ۔ اسے امید تھی کہ اس رشتہ سے اس کی عزت و توقیر بڑھ جائے گی اور اس کی دیرنہ زتمنائیں بر آئیں گیں ۔ سندھیا اور ہلکر دونوں کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھا کر جو اس وقت ہندوستان کی سرحدوں پر بنر آزمائی میں مصروف تھے اس نے کئی زرخیز پرگنے آشٹہ ، سیہور ، یچھادر ، سارنگ پور اور شاہجہاں پر قبضہ کرلیا اور انہیں اپنے مقبوضات میں شامل کرلیا ۔ اب اس کا ستارہ اقبال نصف النہار پر تھا اور پہلی بار یہ پٹھان سردار باضابطہ ریاست کا رئیس ہونے والا تھا ۔ جس کی کریم خان کے دل بڑی آرزو تھی اور اس مقصد کے حصول کے لیے بڑی سرگرمی سے تیاری کر رہا تھا ۔ اس نے ایک ہزار پیدل سپاہ بھرتی کی اور دو توپیں ڈھالیں ۔ دو توپیں اس کے پاس پہلے موجود تھیں اس طرح اس کا توپ خانہ تیار ہوگیا ۔ اس نے بارسو پئگا یعنی باڈی گارڈ کا ایک رسالہ تیار کیا ۔ جس کو ملا کر اس کے زیر کمان بارہ ہزار پنڈاری ہوگئے اور وہ ہیبت ناک بن گیا تھا ۔
کریم خان نواب بھوپال غوث محمد کے مدعو کرنے پر بھوپال گیا ۔ لیکن ریاست کے افلاس اور وزیر محمد کی شجاعت اور اولعزمی نے اس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا جو اس نے اس ریاست میں اپنے علاقوں کی توسیع کے لیے رکھی تھیں ۔ دولت راؤ سندھیا نے اسے طلب کیا ۔ اس نے کریم خان کو حیلے اور بہانے سے تباہ و برباد کرنے کی سازش تیار کی ۔ کیوں کہ اس کی اپنی طاقت ایسی نہیں تھی کہ وہ اسے علانیہ تباہ کردیتا ۔ اس مرہٹہ رئیس نے ایسی چالبازی اور عیاری سے کام لیا کہ جو اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آئی ۔ دولت راؤ بیرسیہ کے مضافات میں ستن باڑی کے قلعہ کے قریب خیمہ زن تھا ۔ دولت راؤ پہلے اس امید پر کریم خان کی چاپلوسی کی کہ فتح ہونے پر وہ قلعہ اس کے حوالے کردے گا ۔ اس نے سازش کے تحت کریم خان کو کہلا بھیجا کہ میں آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں ۔ چند معمر پنڈاری سرداروں نے کریم خان کو متنبی کیا ، کیوں کہ وہ پہلے بھی اپنے سرداروں کا لوٹا جانا اور گرفتار ہونا دیکھ چکے تھے اور ان سرداروں نے کریم خان کو مرہٹوں کی دغابازی یاد دلائی ۔ لیکن اسے اپنی حفاظت کا کامل اطمنیان ہوگیا تھا ۔ یہ پنڈاری سرادر اپنی کامیابی پر مغرور ہوچکا تھا اور اس کی خود اعتمادی بہت بڑھ چکی تھی ۔ سندھیا نے ایسا جال بنا تھا کہ ہر ایسے شخص پر جس پر کریم کو اعتماد تھا رشوت یا لالچ کے ذریعہ اسے فریب دینے کا بندوست کرلیا تھا ۔
کریم خان جو نہایت بہادر اور متحاط تھا لیکن وہ اپنی شاندار اقبال مندی کی عظیم انشان توقعات کے دھوکے میں آگیا ۔ وہ دولت راؤ سے ملنے اس شان سے گیاگویا اس وہ درجہ مہمان سے کم کا نہ تھا ۔ کریم خان نے اپنے معزز مہان کی نذر کے لیے تحائف تیار کئے تھے ان میں ایک روپیوں سے ایک تخت یا مسند تیار کیا تھا ۔ یہ مسند ایک لاکھ پچیس ہزار روپیے کی تیار ہوئی تھی اور اس پر ایک بیش قیمت کپڑا بچھائا اور اس پر سندھیا کو بٹھانا تھا ۔ ہندوستان میں عام رواج ہے کہ جب کوئی ذی مرتبہ کا شخص کسی ادنیٰ شخص کے یہاں جاتا ہے تو اس طرح کی نذر پیش کی جاتی ہے ۔ سندھیا اس سے ملاقات میں کہا کہ اسے کریم خاں کے اوصاف معلوم کرکے اس کو بیحد مسرت حاصل ہوئی ہے ۔ کریم خان میں سپاہی اور مدبر دونوں کے اوصاف موجود ہیں اور وہ ایسے شخص کی عرصہ دراز تک وہ فضول سرگرداں رہا ۔ کئی دن تک یہی دھوکہ بازی جاری رہی ۔ کریم خان کی ہر درخواست بلا چون و چرا فوراً منظور کی گئی ۔ اس کے علاوہ کریم خان نے چند بیش قیمت اضلاع کی اور فرمائش کی اور وعدہ کیا کہ ان علاقوں کے حوالے ہوجانے پر ساڑھے چار لاکھ روپیہ نظر کرے گا ۔ چنانچہ سندھیا نے حکم دیا گیا کہ سندات تیار کی جائیں اور ایک اعلیٰ درجہ کی خلعت کریم خان کے لیے تیار کی گئی ۔
کریم خان بہت خوش تھا اور نئے علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے روانگی کا جو دن مقرر ہوا تھا اس روز الودعائی ملاقات کے لیے کریم خان کو سندھیا کے پاس ملاقات کے لیے جانا تھا کہ جو معاملات رہ گئے ان کی تکمیل ہوجائے ۔ چنانچہ وہ چند خدام کے ہمراہ سندھیا کی خدمت میں پہنچ گیا ۔ جہاں اس کا استقبال بڑے تباک سے کیا گیا ۔ سندیں اور خلعت طلب کئے گئے ۔ مختصر سوانگ مکمل رچایا گیا اور پھر سندھیا کسی بہانے سے اٹھ کر چلا گیا ۔ سندھیا کے جاتے ہی خیمہ کی قناتوں کے نیچے سے مسلح آدمی گھس آئے اور انہوں نے مغرور پنڈاری سردار کو اس کے ساتھیوں کے سمیت گرفتار کرلیا ۔ کریم خان کی گرفتاری کے بعد ایک توپ داغی گئی ۔ جو کہ اس بات کا اشارہ تھی کہ کریم خان کی گرفتاری ہوچکی ہے ۔ وہ فوجی جو کریم خان کو سلامی دینے کے لیے جمع ہوئے تھے اور جو نئے مقبوضات علاقوں میں کریم کے ساتھ جانے والی تھیں ۔ اشارہ ملتے ہی انہوں نے پنڈاری کیمپ پرڈھاوا بول دیا ۔ کریم خان کے ساتھی شروع سے ہی اس خطرے سے آگاہ تھے اس لیے وہ جانیں بچانے میں کامیاب ہوگئے اور صرف چند آدمی مارے گئے لیکن ان کا سارا مال و اسباب لوٹ لیا گیا ۔
سندھیا کی فوج نے اس لوٹ کھوٹ سے آسودہ ہوکر اپنے فرمان روا کا نام بلند کیا ۔ فوج نے اس موقع پر اس فن کا کمال دیکھا دیا جو مرہٹہ حکمران کا اعلیٰ وصف مانا جاتا ہے ۔ اس سے اس کی شہرت اور ناموری دو چند ہوگئی کہ سندھیا کی فوج پنڈاریوں کے مقابلے میں بہت کم تھی ۔ پھر بھی انہوں نے اس نے کمال و ہوشیاری سے کامیابی حاصل کی اور پنڈاریوں کو جال میں پھانس لیا ۔
کریم خان کی تباہی کی خبر نہایت تیزی سے شچال اور اس کے اہل و عیال تک پہنچ گئی ۔ جہاں اس کا بہت سا خزانہ اور مال اسباب جمع تھا ۔ اس کی ماں اگرچہ ضعیفہ تھی لیکن اس نے بڑی مستعدی سے کام لیا اور ساتھ لے جانے کے قابل قیمتی مال و اسباب لے کر فوراً باگلی کے جنگلوں کی جانب چلی گئی ۔ جہاں پر اسے پنڈاریوں کی ایک زبردست جماعت مل گئی ۔ لیکن سندھیا کے ڈر سے اس علاقہ کے سب لوگوں نے انہیں پناہ دینے سے انکار کردیا ۔ پھر وہ مغرب کی جانب روانہ ہوئی جہاں اسے کوٹہ کے ظالم سنگھ نے اسے ایک جگہ پناہ دے دی ۔
امیر خان کا بھائی ہیرا کریم خان کے ساتھ دربار نہیں گیا تھا لیکن اسے سندھیا کی اس فوج نے گرفتار کرلیا تھا جس نے پنداری کیمپ پر حملہ کیا تھا ۔ کریم خان چار سال تک گوالیار میں قید رہا ۔ اگرچہ اس کی سخت نگرانی ہوتی تھی مگر قید سخت نہیں تھی اور اس کے اپنے اہل خانہ اور پنڈاریوں سے خفیہ ربطہ برقرار تھے ۔ اس نے پنڈاریوں کو ہدایت کردی کہ ہرجگہ اور بالخصوص سندھیا کی ریاست میں خوب لوٹ مار کریں ۔ وہ چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بنا کر کاروائی کرتے تھے ۔ ان کی سب سے بڑی جماعت اس کے بھتیجے نامدار خان کی ماتحتی میں تھی ۔ دولت راؤ سندھیا مدت تک اس پنڈاری سردار کو رہا کرنے سے انکار کرتا رہا ۔ آخر وہ لالچ میں آگیا اور کریم خان نے اسے چھ لاکھ روپیے کا نذرانہ اور ایک لاکھ روپیہ مصالحت کی گفت و شندید کرنے والوں عہدہ داروں کو ادا کرنے کا وعدہ کیا ۔ ادائیگی کے لیے اس نے ظالم سنگھ کو اپنا ضامن بنایا ۔ رہائی کے بعد اس کے ساتھ گزشتہ واقعات کی تلافی کرنے کی کوشش کی گئیں اور اس کی خدمت میں نہایت بیش قیمت تحائف پیش کئے گئے اور ہر جگہ اس کا احترام کیا گیا ۔ لیکن اسے ایسا کاری زخم لگا تھا جو آسانی سے مندمل نہیں ہوسکتا تھا ۔ اس نے رہا ہو نے کے بعد پھر پنڈاریوں کو جمع کرنا شروع کیا جو مختلف مقامات سے آکر اس کے پاس جمع ہوگئے اور انہوں نے لوٹ مار شروع کردی ۔ کریم خان نے شچال پور میں سکونت اختیار کی ۔ قید ہونے سے پیشتر اس کے بعد جس قدر اس مقبوضات تھے اب وہ ان سے کہیں زیادہ وسیع علاقوں پر وہ قابض ہوگیا تھا ۔
اسی زمانے میں چیتو کی ساری فوج کریم خاں کے پاس آگئی تھی اور اس کی آمد سے دوستی کے وہ تعلقات پیدا ہوگئے جو ان دونوں سرداروں اور امیر خان کے درمیان قائم ہوئے جن کے اقبال کا ستارہ نصف النہار پر تھا ۔ اس سے سارے ہندوستان میں ہل چل مچ گئی اور لوگ اس درجہ خائف ہہوئے جس کی انتہا نہیں ۔ اب ان لٹیروں کے گروہ میں کم از کم ساٹھ ہزار سوار جمع ہوچکے تھے ۔ جو کہ کریم خان کے ایک اشارے کسی مقام پر ان کی نقل و حرکت شروع ہوجاتی تھی ۔ لیکن خوشقمتی سے یہ اتحاد زیادہ دیر قائم نہ رہا ۔ کریم خان نہایت سنگدل تھا اور اس کے دل میں دولت راؤ سندھیا کے خلاف آتش غیظ و غضب بھڑک رہی تھی ۔ اس نے سندھیا کی ریاست میں لوٹا ماری اور سخت جور و ستم شروع کردیئے ۔ سندھیا اپنی کوتاہ اندیش اور حریصانہ پالیسی کے ان نتائج سے نہایت شرمندہ اور خوفزدہ ہوگیا تھا ۔ جس کی بدولت اس کی ریاست میں یہ بلا نازل ہوئی تھی ۔ اس نے اپنے خاص سپہ سالار جگو بابو کو فوراً اس پنڈاری سردار کے مقابلے کے لیے روانہ ہونے کی ہدایت کی ۔
چونکہ چیتو کی کریم سے کچھ پیشتر سے چشمک تھی اس لیے وہ کریم سے مقابلے میں سندھیا سے مل جانے پر بآسانی سے راضی ہوگیا اور صوبہ امت وارہ میں کریم کے کیمپ پر حملہ کیا گیا اور تباہ کردیا گیا ۔ کریم میدان جنگ سے ریاست کوٹا چلا گیا ۔ اس ریاست کا جنگجو رئیس چونکہ سندھیا کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے اس نے اس پرانے رفیق سے کہا براہ کرم دور باش ، دور باش اور کریم کو یہ مشورہ دیا کہ آپ امیر خان سے پناہ مانگیں ۔ لیکن اس نے کریم کے اہل و عیال کے قیام کی جگہ دے دی ۔
چنانچہ کریم خان امیر خان کے پاس گیا ، مگر اس نے تلسا بائی سے سفارش کرنے کے بہانے سے اسے غفور خان کے سپرد کردیا ۔ کریم خان رہاست ہلکر میں بغاوت ہونے کے دوران تین سال تک نظر بند رہا ۔ اس زمانے میں غفور خان کی فوج نے نامدار خان کی ماتحتی میں بھوپال اور مختلف معرکوں میں مشغول و مصروف رہی اور اس خدمت کے صلے میں کریم خان کے بھتیجے نے بڑا نام پیدا کیا ۔ لیکن کریم خان اس کا چچا اس سے مسلسل خط و کتابت کے ذریعہ رابطہ تھا کا کہنا کہ نامدار میرے احکام کی تعمیل کر رہا تھا ۔ مالوے میں انگریزی فوج کے داخل ہونے سے چند ماہ پشتر کریم خان ہلکر کے لشکر سے فرار ہوگیا اور بیرسیہ میں اپنے ساتھیوں سے جاملا ۔ وہ اس کی وجہ یہ یہ بتاتا ہے کہ دولت راؤ سندھیا نے میرے پاس ایک خط بھیجا ، جس میں اس نے لکھا تھا کہ پچھلے واقعات پر خاک ڈالیں اور اپنے دل سے انہیں فراموش کردیں ۔ میں آپ کے نہ صرف سابق مقبوضات واپس کرنے کو تیار ہوں بلکہ آشٹہ اور دیگر علاقہ آپ کو دینے کو تیار ہوں ۔ بشرطیکہّ آیندہ جنگ میں جو انگریزوں سے ہونے والی ہے مرہٹوں کا ساتھ دیں ۔
جب انگریزی فوجیں دریائے نربدا کو عبور کر رہیں تھیں ۔ اس وقت کریم خاں (اپنے بیان کے مطابق) دولت راؤ سندھیا کے حکم کی تعمیل میں واصل محمد خان کے لشکر سے جاملا اور جس مقام پر انہیں جانے کا حکم ملا تھا وہاں سے گوالیار صرف چالیس کوس اور نروار سترہ کوس تھا ۔ اس وقت سندھیا کے پاس سے ایک خاص مقمد برہمن آیا اور اس نے سندھیا کا یہ حکم سنایا کہ آپ لوگ یہاں سے دور چلیں جائیں ۔ کیوں کہ انگریزی فوجوں کی پیش قدمی سے میں ایسی حالت میں ہوگیا ہوں کہ آپ لوگوں کو پناہ نہیں دے سکتا ۔ اس خبر نے پنڈاریوں کو مایوس اور ناراض کردیا ، چنانچہ فوراً یہ تجویز قرار پائی کہ اب مغرب کی طرف چل دینا چاہیے اور ہلکر کی فوج کی میں شیریک ہوجانا چاہیے ۔ جس کے بارے میں انہوں نے سنا تھا کہ وہ ریاست ہلکر کی سرحد سے ماہیہ پور طرف جارہی ہے ۔
اس دوران سندھیا نے انہوں نے جنگ میں شرکت کرنے کے لیے طلب کیا تھا ۔ مگر اس کی غداری سے خفا ہوکر انہوں نے اردہ کیا کہ جس حد تک ممکن ہو اس کی ریاست میں لوٹ مار کرنی چاہیے ۔ مگر اب ان ان خاص مقصد یہ تھا کہ اپنے تحفظ کا بندوست کیا جائے ۔ روزانہ انگریزی فوجوں کے بڑھنے کی خبریں کی خبریں تھیں اور ان کی فتوحات سے کریم اس قدر خائف اور پریشان ہوگیا کہ وہ اپنے اہل و عیال اور بہت سا سامان چھوڑ کر فرار ہوگیا اور راستہ میں بغیر کہیں قیام کئے ہوئے وہ سیدھا ہلکر کی فوج میں جاپہنچا ۔ جو منڈیسر کے قریب خیمہ زن تھی ۔ جو پنڈاری کہ کریم کے ہمراہ تھے ان کی تعداد اس قدر کم ہوگئی تھی کہ ہلکر کے یہاں پہنچنے کے وقت ان تعداد پامچ ہزار سے زیادہ نہ تھی ۔ انہوں نے اپنے خدمات ہلکر کو پیش کی گئیں ، لیکن ہلکر کے وزرا نے نامنظور کیا ۔ انہیں ماہید پور کی جنگ کے بعد اپنے کو تباہی سے بچانے کے علاوہ اور کوئی فکر نہیں تھی ۔ چند روز پس و پیش کرنے کے بعد غفور خان کریم خان سے چلے جانے کو کہا کہ چونکہ انگریزی فوج بڑھی چلی آرہی تھی اور پنڈاریوں کی قربت کی وجہ سے ہلکر صلح نہ کرسکتا ہے ۔ پنڈاری جاچؤ کی طرف چلے گئے ۔ لیکن وہاں پر اپنے باہمی نزاعات اور انگریزی فوج کی آمد پر وہ منتشر ہوجانے پر مجبور ہوگئے ۔ کریم تو تکان سے خستہ ہوکر شہر میں جا چھپا اور اس کا لشکر نامدار خان کی سردگی میں میواڑ سے مالوے کی طرف چل دیا اور جبب وہ گنگرور کے قریب پہنچا تو اس کا انگریزی فوج سے مقابلہ ہوا ۔ جس نے پنڈاریوں کو ایسی شکست فاش دی کہ اس کے سپہ سالار مایوس ہوکر بھوپال چلے گئے اور وہاں انہوں نے نواب بھوپال سے درخواست کی کہ براہ نوازش آپ ہمارے شفیع بن جائیں ۔ نواب بھوپال کی سفارش سے نہ صرف نامدار خان کے گزارے کا بندوست کردیا گیا بلکہ حکومت برطانیہ نے اس کے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ رحم و کرم کا سلوک کیا ۔
کریم خان جادو کے ایک شکستہ حال مکان میں چھپا ہوا تھا ۔ جب انگریزی فوج نے اس شہر پر قبضہ کرلیا تو وہ وہاں سے نکل بھاگا اور اس کے مطابق فقیر کے بھیس میں بھوکا پیاسا کئی روز تک مارا مارا پھرتا رہا ۔ آخر کار اس نے غفور خان کو اپنی حالت کے بارے میں لکھا اور اس سے مشورہ مانگا ۔ غفور خان نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اپنے آپ کو انگریزی حکومت کے حوالے کردے اور جس نے بھی ایسا کیا اس کے ساتھ انگریزی حکومت نے شفقت اور فیاضی کا سلوک کیا ۔ کریم خان نے اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے اپنے آپ کو انگریزی حکومت کے حوالے کردیا ۔
کریم خان نے مع اپنے بچوں کے ساتھ گورکھپور میں رہائش اختار کرلی جہاں اسے زمین دے دی گئی تھی ۔ اس کے اقبال مندی کے خواب فراموش ہوگئے جو اس نے کبھی دیکھے تھے ۔ وہ حیرت انگیز واقعات اور انقلابات جو اس پر گزرے تھے انہیں یاد کرکے کوئی بھی خوش رہ سکتا تھا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔