پنڈاری تیسری قسط
چیتو
پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ راجہ رگھوجی بھونسلا نے برن کو قید کرلیا تھا ۔ برن کے قید ہونے کے بعد اس لشکر کا سالار دولہ خاں جمعدار بن گیا ۔ اس کے انتقال کے بعد اس کا فرزند راجن برائے نام سردار بنا ۔ کیوں کہ اصل اختیارات ایک بہادر سردار کو مل گئے جس نے اپنی جواں مردی اور اولوالعزمی سے پنڈاریوں کی قیادت سمبھال لی ۔ اس شخص کا اصل نام چیتو خان تھا ۔ وہ دہلی کے قریب میوات کا باشندہ تھا ۔ یہ غلام کی حثیت سے گرفتار ہوا تھا ۔ مگر دولہ خان نے اسے اپنا بیٹا بنالیا ۔ عرصہ دراز کے بعد اس نے وہ رتبہ حاصل کیا کہ راجن کے ساتھ اس کا نام لیا جانے لگا ، چیتو نے اپنی دانائی اور فرزانگی سے راجن کو راضی رکھا ۔ کیوں کہ پنڈاری راجن کی مورثی عزت کرتے تھے ۔ راجن نے بھی چیتو سے میل جول بڑھا کر بہت فائدہ اٹھایا ۔ کیوں کہ چیتو اپنی فہم و فراست کی وجہ سے مشہور تھا اور اس کی رائے پنداریوں کے حق میں اکثر کار آمد اور سود مند ہوتی تھی ۔
اس سے پیشتر یہ بیان کردیا گیا ہے کہ دولت راؤ سندھیا جب ۱۸۰۴ء میں وسط ہند آیا تو تو سب پنڈاری اس سے ملے اور سرجی راؤ کی سفارش سے سندھیا نے ان کے سرداروں کو خطابات دے کر سرفراز کیا گیا ۔ چیتو کو نواب مستقیم جنگ کا خطاب دیا جو کہ اس کی مہر پر کندہ کر دیئے گئے ۔ اس زمانے میں وہ اپنے گروہ میں نہایت قابل اور طاقت ور تھا ۔ اس نے نواب محمد کند خان مستقیم جنگ کا لقب اختیار کیا تھا ۔ لیکن وہ چیتو ہی کے نام سے مشہور رہا جو کہ ہندوانہ نام ہے ۔ کیوں کہ پنڈاریوں میں مختصر اور معاروف سے نام پکارنے کا رواج تھا ۔ خیال کیا جاتا ہے وہ اپنے ابتدائی دور میں کریم خان کا بہت ممنون و شکر گزار تھا ۔ جس کی جمیعت میں وہ نوکر تھا اور جب کریم خان دولت راؤ سندھیا کے پاس سے بھاگ گیا تو چیتو نے دیگر پنڈاریوں کے ہم خیال ہوکر کریم خان کی مدد کے لیے اپنی ساری فوج جمع کرلی ۔ ان پنڈاریوں کے اتحاد سے سارا ہندوستان خوف زدہ ہوگیا ۔ مگر جلد چیتو کریم خان کے دشمنوں سے جاملا اور اس کی تباہی و بربادی میں اس کے دشمنوں کی مدد کی اور اس طرح اس نے پنڈاری رہنماؤں میں بلا شرکت غیرے سب سے اعلیٰ رتبہ حاصل کرلیا ۔
چیتو نے اپنا مسکن ناہموار پہاڑیوں اور سنسان جنگلوں کے درمیان بنایا تھا جو دریائے نربدا کے شمالی کنارے اور کوہ بندھیا چل کے مابین واقع ہیں ۔ جس علاقہ پر اس کا قبضہ تھا اس کے مشرق میں ریاست بھوپال اور مغرب میں راجا باگلی کا علاقہ تھا ۔ اس کی چھاونی ہندیا کے سامنے موضع نیماڑ کے قریب تھی ۔ وہ خود وہاں یا ستواس میں رہتا تھا ۔ اس چھوٹے چھوٹے مقبوضات اونچی پہاڑیوں پر تھے اور آخر میں اس نے امت واڑے کے پرگنہ تالین پر اپنی حکومت قائم کرلی تھی ۔ اس کے لشکر کی جماعتیں جس کی تعداد اندازاً بارہ ہزار سوار تھی ۔ جو ہر طرف دھاوے کیا کرتی تھیں ۔ وہ دولت راؤ سندھیا کی فرمان برداری کا دم بھرتا تھا ۔ لیکن اس راجہ کی ریاست اگرچہ محفوظ رہتی تھی لیکن پنڈاریوں کے اکا دکا حملے سے وہ بھی شکار ہوتی رہتی تھی ۔ گوالیار سے کئی مرتبہ فوجیں چیتو اور دیگر پنڈاری سرداروں کے تزارک کے لیے بھیجی گئیں ۔ لیکن خود سندھیا کی بدنیتی یا ملازمین کی کمزوری یا فوجوں کی غداری یا باہمی رشک و عدات کے باعث جو سندھیا کے نیم آزاد نمائندوں میں ہمیشہ موجود رہتی تھی یا ان سب وجوہ کے باعث انہیں کبھی بھی کامیابی حاصل نہ ہوئی ۔ توقع تھی کہ جین بپ ٹسٹ کے زیر کمان فوج ان لٹیروں پر کامیابی حاصل کرلے گی ۔
جین بپ ٹسٹ یورپی نژاد جس کے آباء اکبر کے دور میں ہندوستان آئے تھے ۔ وہ نہایت بہادر اور مستعد شخص تھا اور اس کے ماتحت فوج بھی نہایت چاق و چوبند تھی ۔ لیکن اس کی کوششوں کا (اگرچہ اس نے پنڈاریوں اور ان کے دوست جسونت راؤ بھاؤ کو شکست دے دی) صرف یہ نتیجہ نکلا کہ ایک معاہدہ طہ پایا ۔ جس کی رو سے پنڈاری سرداروں نے لوٹ مار سے احتراز کرنے کا اقرار کیا اور دولت راؤ سندھیا کی خدمت میں سواروں کی ایک جماعت پیش کرنے کا وعدہ کیا ۔ سندھیا نے پنڈاریوں کی بسر اوقات کے لیے چند ارضیات دینے کا اقرار کیا ۔ سندھیا کو اس معاہدے کی توثیق کرنے میں بہت سی وجوہ سے پس و پیش ہوا ۔ ایک خاص وجوہ یہ تھی کہ یورپین کمان دار نے نہایت دریا دلی سے جن علاقوں کو دینے کا وعدہ کیا تھا ان میں سے اکثر علاقہ اس کی ملکیت نہ تھے بلکہ وہ علاقہ پیشوا کے یا پوار اور ہلکر کے تھے ۔ اگرچہ اس نے کئی بار ان کی حکومت اور ریاست ان پر قبضہ کیا تھا ۔ لیکن اکثر موقعوں پر اس نے ظاہر تعلقات کو قائم رکھا تھا ۔
سندھیا کے پس و پیش پر چیتو نے مطالبہ کیا کہ یا تو اس معاہدے کو تسلیم کرلیا جائے جو کہ میرے فوجی سپہ داروں نے طہ کیا ہے یا پھر اپنی ریاست میں لوٹ مار کی اجازت دی جائے ۔ چنانچہ پنڈاری سرداروں کو احکام یا سندات دے دیئے گئے ۔ ان میں خاص سردار چیتو تھا ۔ اسے اپنی فوج گزارنے کے لیے چند پرگنے ملے اور یہ پہلا موقع تھا کہ اسے حکمران تسلیم کیا گیا تھا ۔ اس معاہدے کے نتیجے میں بہت جلد نہایت اہم تبدیلیاں وقوع میں آتیں ۔ اگر چیتو اور دوسرے پبڈاری سردار کامیابی کے نشے سے بدمست ہوکر رقیب ریاستوں کی سازشوں کے لیے نشان نہ بن جاتے ۔ جو اگرچہ اب بھی قزاقوں کے جور و ستم سے ڈرتی تھیں ، لیکن جب انہیں ضرورت پڑتی تھی تو وہ اپنے دشمنوں کو دق کرنے کے لیے پنڈاری سرداروں کو اپنا آلہ کار بنالیتی تھیں اور ان ریاستوں کی ہمیشہ یہی پالیسی تھی ان پر قابو پانے کے لیے ان میں تفرقہ اندازی کی ضروری ہے ۔ چیتو ان علاقوں پر اپنا قبصہ کرنے کے بعد جو اسے معاہدے کے تحت دیئے گئے تھے امت واڑے سے دریائے نربدا کے کنارے اپنی چھاونی میں واپ�آگیا ۔
مگر دوسرے سال دوسرے سال پنڈاریوں کی انگریزی فوجوں سے جھڑپیں ہوئیں ۔ انگریزوں نے راجہ ناگپور سے تعاون کا معاہدہ کرلیا تھا ۔ اس کے تحت چیتو مع دیگر پنڈاری سراروں کے امن کا دشمن اور مجرم قرار دیا گیا ۔ انگریزی فوجیں دریائے نربدا کے جنوبی کنارے کی پہنچ گئیں ۔ چیتونے مدافعت کی کچھ کوشش نہ کی اور قلعے کو چھوڑ کر بھاگ گیا ۔ حالانکہ اس کے پاس پانچ چھ ہزار پنڈاری ، پانچ چھوٹی توپیں اور پیادہ سپاہی بھی تھے ۔ اس کا آگرے تک اس کا تعاقب کیا گیا مگر وہاں سے وہ میواڑ کے مضافات میں چلا گیا ۔ انگریزی فوج اس تعاقب میں وہاں پہنچنے پر وہ یہاں سے فرار ہوگیا اور طویل چکر لگا کر وہ اپنے مستحکم علاقہ میں واپس آگیا ۔ لیکن یہاں اسے چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہوا اور جلد انگریزی فوج یہاں پہنچ گئی ۔ اس کے باڈی گاڈ پر حملہ کیا اور اسے تباہ کردیا گیا ۔ اس حملے کے نتیجے میں اس کے ساتھی منتشر ہوگئے تو انگریزی فوجوں نے اس کا تعاقب جاری رکھا ۔ یہاں تک کہ پنڈاریوں کا سارا تنظیمی ڈھانچہ تباہ ہوگیا اور چیتو کی ساری قوت کا خاتمہ بغیر کسی مقابلے کے ختم ہوگیا ۔ وہ ارواس کے گھنے جنگلوں راجن اور تیس چالیس ساتھیوں کے ساتھ مارا مارا پھرتا رہا ۔ یہاں اس دوست اور ساتھی گونڈ سردار تھا اور اب تک خفیہ طور اب بھی اس کی مدد کر رہا تھا ۔ لیکن یہاں پر بھی چیتو پر اس قدر دباؤ پڑا کے کہ وہ یہاں رک نہ سکا ۔
چیتو کے فرار ہونے کے بعد پنڈاریوں کا کوئی رہبر نا رہا اور وہ چھوٹے چھوٹے راجپوت رئیسوں اور دیہاتی عہدہ داروں کا بآسانی شکار ہوگئے اور ان لوگوں نے عرصہ دراز سے جو مصیبتیں اور تکالیف ان کمینہ اور بے رحم لٹیروں کے ہاتھوں اٹھائی تھیں ان کو یاد کرکے اپنے نفع کے لالچ اور انتقام میں انہوں نے پنڈاریوں کو بڑے شوق اور مستعدی سے لوٹا ۔
چیتو نے سن رکھا تھا کہ حکومت برطانیہ ان پنڈاری سرداروں کے ساتھ رحم و فیاضی کا برتاؤ کرتی ہے ہے جو اطاعت قبول کرلیتے ہیں ۔ لیکن اس کو بھروسہ نہیں تھا کہ برطانوی حکومت اس کے ساتھ نرمی برتے گی ۔ اسی تذبذب کی حالت میں وہ بھوپال گیا اور نواب سے بڑی منتوں سے پناہ مانگی اور نواب بھوپال نے اسے پناہ دے دی ۔ مگر یہاں بھی اس کا دل بے چین اور مضطرب تھا ۔ وہ انگریزوں سے بہت خوفزدہ تھا اور اس کو ڈر تھا کہ نواب بھوپال اسے انگریزوں کے حوالے نہ کردے ۔ اس لیے وہ بھوپال سے فرار ہوکر اپنے پرانے مسکن چلا آیا ۔
ٍ جلد ہی وہاں پر انگریزی فوج کا ایک دستہ پہنچ گیا ۔ اس دستہ نے چیتو کو ہتھیار دالنے کے لیے کہا اور اس کے بدلے مرات کی پیش کش کی ۔ لیکن چیتو نے حبس دوام بعبور دریائے شور کی سزا کے اندیشے سے اس نے ان شرائط کو قبول نہیں کیا ۔ اسے راجن نے بہت سمجھایا کہ اگر وہ اطاعت قبول کرلے گا تو اس کے گزارے کا معقول بندوست کردیا جائے گا ۔ مگر چیتو مانا نہیں اور دریائے نربدا کو عبور کرکے قلعہ اسیر گڑھ چلا گیا اور آپا صاحب سابق راجہ ناگپور نے وہاں اپنے پاس بلالیا تھا ۔
یہ راجہ قید سے نکل کر بھاگ گیا تھا اور وہ مہا دیو پہاڑ میں انگریزوں کے خلاف ایک لشکر جمع کر رہا تھا ۔ اس راجہ نے اسیر گڑھ کے مضافات میں آنے میں پنڈاری سردار کی رہنمائی کی ۔ لیکن وہ ابھی یہاں پہنچنے ہی پایا تھا کہ انگریزی فوج کے ایک دستہ پہنچ گیا ۔ اس نے اس کے ساتھیوں کی مختصر جماعت کو منتشر کر دیا ۔ چیتو اپنے بیٹے اور پانچ ساتھیوں کے ساتھ اپنے سابق جائے پناہ یعنی ستواس کے جنگلوں کی جانب فرار ہوگیا ۔ انگیریزی فوج نے اس کا تعاقب کیا ہر ایسے مقام پر قبضہ کرلیا جہاں چیتو کو پناہ اور خوراک میسر ہوسکتی تھی ۔ اس کا آخری دوست خوش حال سنگھ ساکن ارواس اسے چھپانے کے شبہ سے بچنے کے لیے ایک انگریزی کیمپ میں حاضر ہوگیا ۔ گویا اس شہرہ آفاق سردار کو اب ڈاکو بھی پناہ دینے سے گریز کرنے لگے ۔ اس کے گھوڑے کے سم عام گھوڑوں کے سموں سے بڑے تھے ۔ چنانچہ اس سم کے ذریعہ چیتو کی نقل مکانی کا سراغ لگ جاتا تھا ۔ چیتو پناہ کی تلاش میں تعاقب کی وجہ سے بھوک اور پیاس کی تکلیف سے مجبور ہوکر اپنے بیٹے اور ساتھیوں سے جدا ہوگیا ۔ اس نے ایک گھنے جنگل کی جھاڑی میں پناہ لی جہاں اس پر ایک شیر نے حملہ کیا اور اس کا کام تمام کردیا ۔ جب ریاست ہلکر کے ایک مقامی اہل کار کو اس واقع کی اطلاع ملی تو وہ فوراً جائے وقوع پر پہنچا ۔ وہاں پر اس کا گھوڑا ، کاٹھی ، تلوار ، زیورات ، سابق راجہ ناگپور کے عطیہ جاگیر کے کاغذات اور اس کے جسم کا ایک حصہ ملا ۔ اس نے خون کے نشانات سے شیر کا سراغ اس کے غار تک لگایا ۔ شیر لوگوں کی آمد سے خوفزدہ ہوکر بھاگ گیا ۔ وہاں صرف چیتو کا سر صحیح و سالم ملا ۔ چیتو کا سر انہوں نے انگریزی کیمپ بھیج دیا تاکہ اس واقع کی تصدیق ہوجائے ۔ اس وقت انگریزی فوج اسیر گڑھ کا محاصرہ کر رہی تھی ۔
چیتو کا سر ملنے پر اس کی موت کو تسلیم کرلیا گیا اور سر اس کے بیٹے محمد پناہ کو دفن کے لیے دے دیا گیا ۔ جو اپنے باپ کی موت کے اگلے روز پکڑا گیا تھا ۔ محمد پناہ بچپن سے ہی بہرا تھا اور ذہنی طور پر بھی کمزور تھا ۔ اگرچہ وہ بھی مجرم تھا لیکن اس پر رحم کیا گیا اور اس کے باپ کی موت جس طرح ہوئی وہ بھی قابل افسوس تھی ۔ اس لیے اسے رہا کر کے حکومت ہلکر کے پاس بھیج دیا گیا جہاں سے چند کھیت گزارے کے لیے اسے دے دیے گئے ۔۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ چیتوں نے مزاحمت کیوں نہیں کی ۔ جب کہ اس بہادری کا اعتراف تو انگریزوں نے بھی کیا ہے اور جب اس میں مقابلہ کی تاب نہیں تھی تو ہتھیار کیوں نہیں ڈالے ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے چیتو ایک بہادر شخص تھا ، مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ چیتو ایک پنڈاری تھا اور پنڈا ریوں کی تربیت باقیدہ فوج پر نہیں ہوئی تھی ۔ ان کی تربیت ایسی نہیں تھی کہ وہ حملہ کریں یا مزاحمت کریں ۔ ان کی تربیت اسی نہج پر تھی کہ لوٹا ماری کریں اور کسی فوج کی آمد پر مقابلہ کرنے کے بجائے فرار ہوجائیں ۔ پنڈاریوں کی معاشرے کوئی عزت یا توقیر نہیں تھی ، حتیٰ ان درباروں جہاں وہ ملازم تھے یا جن کے آلہ کار بنے وہاں بھی فوجیوں سے ان کا درجہ بہت کم تھا ۔ انہیں دربار میں بیٹھنے تک اجازت نہ تھی ۔ اگرچہ ہر پنڈواری سردار جس نے عروج حاصل کیا اس کی خواہش رہی کہ اسے معاشرے میں باعزت مقام ملے ۔ مگر ان پنڈواریوں کی تربیت باقیدہ فوجیوں سے بالکل جدا تھی ۔ اس لیے وہ کسی بھی فوج سے مقابلہ نہیں کرسکے ۔ یہی حال چیتو کا تھا وہ پنڈاریوں کے کثیر تعداد ساتھ ہونے کے باوجو وہ مقابلہ یا مزاحمت نہیں کرسکا ۔ البتہ اس کا تعاقب کرنے والے اس کا پیچھا کرتے رہے مگر اس کو پکڑنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور وہ ہر دفعہ فرار ہونے میں کامیاب ہوا یہاں تک وہ شیر کا شکار ہوگیا ۔
چیتو نے ہتھیار کیوں نہیں ڈالے حالانکہ اس کو بارہا ہتھیار ڈالنے کی صورت میں اس کے ساتھ نرم سلوک کا وعدہ کیا گیا اور اس کو اس کے دوست راجن نے بھی اس کو بہت سمجھایا مگر اس نے انکار کردیا ۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کے دوسرے باشندوں کی طرح چیتو جس دوام بصبور دریائے شور جس کو کالا پانی کہتے ہیں اور اس سزا سے بہت ڈرتا تھا ۔ ایک شخص جو چیتو کے ساتھ رہا بیان کیا کہ وہ کالے پانی کا ہذیان بکتا تھا اور جب اس کے ایک ساتھی نے اس کو یقین دلایا تو بھر خواب میں بھی وہ یہی خوفناک الفاظ بڑبڑاتا رہا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔