پنڈاری دوسری قسط
برصغیر کی تاریخ میں کلمہ پنڈاری پہلے پہل 1689ء میں سننے میں آیا تھا ۔ جب کہ انہوں نے گمنام ڈاکوؤں سے ترقی کرکے اس قدر اہمیت حاصل کرلی تھی کہ مختلف مرہٹہ حکمرانوں نے انہیں اپنی تارخت کے لیے نہایت کار آمد تصور کرلیا تھا ۔ مرہٹوں کی نبردآزمائی کا غیر منظم طریقہ پنڈاریوں کی لوٹ مار کے خصائل کے لیے نہایت موزوں تھا ۔ مرہٹوں نے اکثر پنڈاریوں کو زمینیں دے کر یا ان علاقوں پر جن پر یہ قابض ہوگئے تھے اور ان کے قبضہ کے حق کو زبانی تسلیم کرلیا جاتا تھا ۔ مرہٹہ فوج کو خود لوٹ مار کی اجازت تھی اور پنڈاریوں کو اس سے زیادہ لوٹ مار کی اجازت دے کر ان کی مدد حاصل کی گئی ۔ رفتہ رفتہ اس نظام کے تحت پنڈاریوں نے مستقل شکل اختیار کرلی تھی ۔ ان کے سرداروں کو اپنے ساتھیوں سے خدمت لینے کا مورثی حق حاصل ہوگیا تھا جو ان کی اولاد میں منتقل ہوتا گیا ۔ پنڈاری کہلانے کی مختلف روایات ہیں ۔ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ ان کا نام ان کی شراب خوری کی عادت کی وجہ سے پڑا ۔ کیوں کہ یہ لوگ اکثر شراب فروخت کرنے والے کی دوکان پر جو پنڈ کہلاتی تھی پڑے رہتے تھے ۔
پنڈاریوں کا پہلا سردار غازی الدین بتایا جاتا ہے ۔ یہ ایک شخص چیکن کا بیٹا تھا جو کہ شواجی کا بیلدار تھا اور چیکن کا باپ نرسو بھی اسی عہدے پر مامور تھا ۔ وہ تورائی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا ۔ یہ باجی راؤ اول کے یہاں ملازم تھا اور اجین کے مقام پر ایک فوجی دستے میں ملازم تھا کہ اس کا انتقال ہوگیا ۔ اس دو بیٹے گری خان اور شہباز خان تھے ۔ بڑا بیٹا اگرچہ سولہ سال کا تھا مگر باپ کا جانشین ہوا اور ایک جماعت کا کمان دار ہوگیا جو کہ لوٹ مار کی مہم پر روانہ کی گئی جو کہ نہایت کامیاب رہی ، ملہار راؤ ان کی کامیابی سے اتنا خوش ہوا کہ اس نے اس جماعت کے سردار کو ایک زرین چھنڈا عطا کیا ۔ جس کی بدولت اس نے اپنے ہمراہیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا اور اس اعزاز کی بدولت انہیں مرہٹہ کمپ میں خاص اہمیت ہوگئی تھی ۔ اس وجہ سے لوگوں میں یہ خیال پھیل گیا کہ ملہار راؤ ہلکر نے سواروں کی جماعت کو پہلے پہل داخل کیا ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کے آدمی فوج سے بالکل علحیدہ خیمہ زن ہوتے تھے اور یہ بڑے شاطر ڈاکو تھے اور گری خان اپنے قبیلے کے نام سے تورائی کہلاتا تھا ۔ بعد میں پنڈاری ہر معزز شخص کو تورائی کہنے لگے اور ساتھی پنڈاری کہلانے لگے ۔
ملہار راؤ نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو گری خان اس کے ساتھ گیا اور اسی کے ساتھ رہا ۔ جن قزاقوں کا وہ سالار تھا اور اس کے کارنامے مرہٹوں کی کار گزاریوں میں شامل ہیں ۔ لیکن ان کے مظالم مرہٹوں کے ظلم و ستم سے زیادہ ہوتے تھے ۔ کیوں کہ لوٹ مار ہی ان کی بسر اوقات کا وسیلہ تھی ۔ گروی خان کے مرنے کے بعد اس کا فرزند لعل محمد پنڈاریوں کا سردار بنا ۔ لعل محمد کا جانشین اس کا بیٹا امام بخش ہوا ۔ امام بخش کے دور میں بہت سے پنڈاری سرداروں نے اپنی آزادنہ کمان قائم کرلی ۔ ان میں قادر بخش ، ٹکو خان اور بہادر خان زیادہ معروف ہیں ۔ انہوں نے بعد میں کمپنی بہادر کے آگے ہتھیار ڈالدیے اور انہیں گزارے کے لیے تھوڑی بہت اراضی دے دی گئی تھی ۔
ان پنڈاری سرداروں کے لٹیروں کی تعداد تین یا چار ہزار سے زیادہ نہیں تھی اور یہ آخر تک ہلکر شاہی کے مطیع اور فرمان بردار رہے ۔ ملہار راؤ اور تکاجی ہلکر کے زمانے میں پندٓاری جب مرہٹوں کے کسی علاقہ میں پہنچتے تو تو علحیدہ خیمہ زن ہوتے تھے اور انہیں لوٹ مار کی اجازت نہیں دی جاتی تھی ۔ البتہ انہیں معمولی سا الائنس ضرور دیا جاتا تھا ۔ اس کے علاوہ وہ اپنے ٹٹووں اور بیلوں سے غلہ چارہ لکڑی لاد کے لے جاتے تھے یہ ان کی گزر بسر کا ایک ذریعہ تھا ۔ انہیں دشمن کے علاقہ میں داخل ہونے کے بعد لوٹ مار کی اجازت دے دی جاتی تھی مگر ان کا یومینہ الانس بند ہوجاتا تھا اور حملہ کے اختتام سے تک ان لٹیروں پر کسی قسم روک ٹوک نہیں ہوتی تھی اور حملہ کے اختتام پر مرہٹہ کمان دار اگر طاقت ور ہوتا تو عموماً ان کے سرداروں کو گرفتار کرلیتا اور ان کے کیمپ کا محاصرہ کرکے مال غنیمت کا بشتر حصہ ان سے چھین لیتا ۔ مرہٹہ سردارں کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے پنڈاری سرداروں نے اپنے جور ستم میں اضافہ کردیا تھا کہ وہ اپنے آقاؤں کی متوقع لوٹ کھسوٹ کو براشت کرسکیں ۔
جسونت راؤ ہلکر کے پاگل ہونے تک جو پنڈاری سردار اس ریاست میں ملازم تھے ان کی مناسب حثیت برقرار رہی ۔ وہ اگرچہ بڑے بڑے گروہوں کے کمان دار تھے لیکن انہیں راجہ کے سامنے بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی ۔ جسونت راؤ نے مرہٹوں کے پنجاب پر حملے سے قبل دولت راؤ سندھیا سے ملاقات کی تو اسنے پنڈاری سرداروں کی حوصلہ افزائی ، براہ راست بات چیت اور انہیں خطابات اور جاگیرات عطا کرنے پر نکتہ چینی کی کہ وہ اس طرح کے اعزاز کے مستحق نہیں ہیں ۔
ریاست ہلکر کا جسونت راؤ پنڈاریوں کی برتی ہوئی طاقت کے خطرے سے بخوبی آگا تھا ۔ اس نے اس استیصال کا سوچا تھا ۔ مگر اس کے پاگل ہونے کے بعد منا بائی اور دیگر لوگوں نے جو اس ریاست کے حکمران ہوئے پنڈاریوں کی قوت بڑھانے کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی ۔ اس لیے ہلکر شاہی حکومت میں پنڈاریوں کے سرداروں کی اہمیت بڑھ گئی اور ان کی عزت و توقیر بڑھ گئی اور انہیں اور ان کے ساتھیوں کو جاگیریں دی گئیں ۔
غازی الدین پنڈاری جس پہلے ذکر ہوچکا ہے کا چھوٹا بیٹا شہباز خان جوان ہوا تو اس نے رانوجی سندھیا کے یہاں نوکری کرلی ۔ جس نے اس پر نوازش کیں اور شہباز خاں رانوجی کے ساتھ ہندوستان گیا اور وہ ٹونک میں ایک لڑائی میں مارا گیا ۔ اس نے دو بیٹے ہیرا اور برن دو چھوڑے تھے ۔ ان دونوں نے مادھوجی سندھیا کی فوج میں بحثیت پنڈاری سردار شہرت حاصل کی اور مرہٹہ فوج کے ہمراہ وہ ہندوستان گئے تھے ۔
بعد میں وہ بیرسیہ کے قریب مع پانچ ہزار ہمراہیوں کے خیمہ زن ہوئے تو انہوں نے ریاست بھوپال کو اپنی خدمات پیش کیں ۔ تاکہ نواب بھوپال اجازت سے وہ ریاست ناگپور کے علاقوں لوٹ مار کرسکیں جس سے اس وقت بھوپال کی لڑائی چھڑی ہوئی تھی ۔ یہ واقعہ چھٹا خان کے انتقال کے بعد پیش آیا تھا جب کہ راجا ہمت راؤ برائے نام دیوان ریاست تھا ۔ ان لٹیروں کی یہ درخواست بنظر احتیاط (جو سندھیا کہ حمایتی خیال کئے جاتے تھے) منظور نہ کی گئی تو وہ ناگپور چلے گئے ۔ جہاں رگھوجی بھونسلا نے ان کی بڑی خاطر مدارت کی اور اس راجہ نے انہیں پہلا حکم دیا کہ وہ ریاست بھوپال کو تاخت و تاراج کرڈالیں جو اس وقت نہایت خوش حال تھی ۔ یہ کام انہوں نے نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا ۔ انہوں ریاست کو اس قدر نقصان پہنچایا کہ یہ ریاست مدتوں پنپنے نہ پائی ۔ پنڈاریوں نے لوٹا ماری اور اپنی سفاکیوں سے بھوپال کے لوگوں کو سخت نقصان پہنچایا ۔ پنڈاریوں کے حاصل کئے ہوئے مال غنیمت کی خبریں سن کر راجہ رگھوجی بھونسلا کے منہ میں پانی بھر آیا اور جب پنڈاری ناگپور واپس آئے تو راجہ نے پنڈاریوں کے کیمپ کا محاصرہ کرکے پنڈاری سردار برن کو گرفتار اور ان کا مال غنیمت چھین لیا ۔ برن کی باقی زندگی قید میں گزری ۔ اس کا بھائی ہیرا دولت راؤ سندھیا کے پاس پونا بھاگ آیا اور اس نے برہان پور میں وفات پائی ۔
دوست محمد اور واصل محمد اپنے باپ ہیرا کے لشکر کے وارث بنے جو اپنے آپ کو دولت راؤ سندھیا کے معینہ پیروں میں شمار کرتے تھے جس کے وہ عموماً اطاعت گزار تھے ۔ مگر کبھی کبھی سرتابی سے بھی کام لیا کرتے تھے ۔ ان کی روش پنڈاری سرداروں کے عام انقلابات کے اثر سے خالی نہیں تھی ۔ ان کا اکثر پڑاؤ مالوہ کے شرقی علاقے میں ہوتا تھا ۔ جب دوست محمد خان کا انتقال ہوگیا تو سارے لشکر کی کمان واصل محمد کے ہاتھ میں آگئی ۔ اس کی رہنمائی میں لٹیروں کی ٹولیوں نے برطانوی علاقوں میں لوٹا ماری کی ۔ اس لیے برطانوی حکومت ان سے ناراض ہوگئی اور ۱۸۱۸ء اور ۱۸۱۷ء کے دوران ان کے خلاف کاروائیاں کیں جس کے نتیجے میں پنڈاریوں کو شکست ہوئی اور وہ منتشر ہوگئے اور واصل محمد خان کچھ عرصہ تک مفرور رہا اور پھر گوالیار جاپہنچا ۔ جہاں پر اسے امید تھی کہ دولت راؤ سندھیا اب بھی اسے پناہ دے گا ۔ وہ اگرچہ چھپا رہا لیکن برطانوی نمائدے کو اس کا پتہ چلا تو اس نے اس کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جو کہ ٹالا نہیں جاسکتا تھا ۔ اگرچہ سندھیا کو اپنے وعدوں کا پاس کرنے اور اپنی عزت کے خیال سے قدر پس و پیش ہوا لیکن اسے پنڈاری سردار کو انگریزوں کے حوالے کرنا پڑا ۔ واصل محمد خان کو غازی پور بھیج دیا گیا ۔ جہاں برطانوی حکومت نے پالیسی کے تحت اس کی تقصیرات معاف کر کے اس کے گزارے کا بندوست کردیا گیا ۔ لیکن اس کی حمیت نے قید کی ذلت کو گوارہ نہیں کیا ۔ چنانچہ اس نے بھاگنے کی کوشش کی ۔ مگر اس کی اطلاع ہوگئی تو اس نے زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا ۔
تہذیب و ترتیب
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔