پنڈاری پہلی قسط
اٹھاویں صدی کا آخری چوتھائی ہندوستان کے لوگوں کے لیے بڑی مصیبت کا سامان لے کر آئی تھی ۔ مرہٹوں کی طاقت اپنے عروج پر تھی ، نادرشاہ کا حملہ اور اس کے بعد احمد شاہ ابدالی کے حملے اور جاٹوں اور سکھوں مغلیہ سلطنت کی بنیادیں کھوکھلی کردیں تھیں ۔ پورے برصغیر میں انتشار کی حالت تھی اور اس انتشار سے فائدہ اٹھا کر بہت سے طالع آزما میدان میں نکل آئے تھے ۔ اس انتشار کا سب زیادہ فائدہ انگریزوں کو ہوا اور انہیں اپنی طاقت بڑھانے کا موقع ملا ۔ اس انتشار میں جو قوتیں لوٹ مار کے لیے میدان میں اتریں ان میں ایک پنڈاری بھی تھے ۔ ہم پنڈاریوں جو کہ خوف و دہشت کی علامت تھے کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں ۔ عام لوگوں کو چھوڑیں پڑھے لکھے افراد بھی ان کے بارے میں کم جانتے ہیں ۔ اگر جانتے ہیں تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہ لوٹا ماری کے لیے تباہی اور بربادی پھیلاتے تھے ۔ اس کی بنیادی وجہ ان کے بارے مقامی مورخین نے خود فراموشی کی حد تک کم لکھا ہے ۔ بس ایک آدھ لائین یا چند جملوں سے زیادہ نہیں لکھا ہے ۔ اردو کا ایک ناول پنڈاری ہے جو کہ پنڈاریوں کے پس منظر میں قمر اجنالوی نے لکھا ہے مگر اس میں بھی پنڈاریوں کی صحیح تصویر پیش نہیں کی گئی ہے ۔ اگر پنڈاریوں کے بارے میں کچھ لکھا گیا ہے تو انگریز مورخین نے لکھا ہے ۔ انہوں نے ہی ہمارے سامنے ان کے ظلم و ستم اور لوٹا ماری کی صحیح تصویر پیش کی ہے ۔ ان ظلم و ستم کی صحیح تصویر مشہور ناول امیر علی ٹھگ میں پیش کی گئی ہے ۔
ٍٍ اگرچہ پنڈاری بہت پہلے سے میدان میں اترے چکے تھے مگر ان کو عروج ان کو عروج اٹھارویں صدی کے آخر میں حاصل ہوا ۔ کیوں کہ یہ ابتدا میں انہیں اپنے دشمنوں کے علاقوں میں تباہی مچانے کے لیے ان کی تنظیم کی تھی اور جب تک یہ مرہٹہ رہاستوں کے زیر اثر رہے ان ظلم و ستم محدود رہا ۔ لیکن اٹھاریں صدی عیسویں میں یہ مرہٹوں جبر سے آزاد ہوگئے تو ان کی تباہی کا دائرہ پھیل گیا اور یہ دہشت و خوف کی علامت بن گئے ۔ ان کا عروج اگرچہ بہت مختصر عرصہ کے لیے حاصل ہوا تھا اور زیادہ تر وسط ہندوستان ان کا شکار ہوا اور وہاں انہوں نے تباہی اور بربادی مچادی تھی ۔
اگرچہ پنڈاریوں کے مختلف گروہوں میں مستقیم تھے مگر ان میں اپنے مفادات کے پیش نظر ایک وقتی اتحاد قائم ہوجات تھا ۔ تاہم یہ اتحاد قوم وطنیت کی بنا پر نہیں بلکہ مشترکہ ارادہ و نیت اس کی بنیاد تھا ۔ کیوں کہ ان میں ہر علاقہ ، قوم اور مذہب کے لوگ شامل ہوتے تھے ۔ یہی وجہ ہے ان میں مذہبی تعصب بالکل نہیں تھا اور انہیں اپنی سپاہیانہ قابلیت سے ان کے اپنے خاندان یا وطن پر کبھی ناز یا فخر نہ ہوا ۔ کیوں کہ یہ وطنی یا مذہبی رشتہ رشتہ میں مربوط نہ تھے ۔ ایسا رشتہ جو کہ ہندستان کی بہت سی اقوام میں ناقابل شکست صورت اختیار کرلیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے جب پنڈاریوں کا استیصال کیاگیا تو ایک آواز بھی ان کے حق میں بلند نہیں ہوئی اور جلد ہی ان کا نام تقریبا فراموش ہوگیا ۔ حالانکہ ان کے نام سے سارے ہندوستان میں خوف اور دہشت طاری تھا ۔
پنڈایوں کو ابتدائی مرہٹوں سے نسبت دی جاسکتی ہے ۔ اگرچہ دونوں کی عادات و خصائل اور کیرکٹر یکساں تھے ۔ لیکن ان دونوں میں کچھ اختلاف بھی تھا ۔ شواجی اور اس کے وابستگان میں مذہبی رسم و رواج اور قومیت کے رشتوں سے اتحاد قائم تھا اور اس سے ان کے لیے جوش و ہمدردی پیدا ہوئی ۔ مرہٹہ حکومت کے خلاف لشکر کشی میں محض لوٹ مار کی محبت میں شامل نہیں ہوئے تھے ۔ بلکہ ان کے دل میں مادر وطن اور آبا و اجداد کی محبت بھی شامل تھی اور ان کو اپنے احکام و عمال سے نفرت تھی جس کی وجہ سے ان میں ایک اتحاد پیدا کردیا تھا ۔
پنڈاریوں کی تباہی اور بربادی کو تاتاریوں سے نسبت دی جاتی ہے ۔ جب وہ کسی ذرخیز علاقہ میں پہنچتے تو وہ ٹڈی دل کی طرح علاقہ میں پھیل جاتے اور لوگوں کو لوٹ کر تباہ و برباد ڈالتے اور مال دولت کے حصول کے لیے لوگوں پر تشدد سے گریز نہیں کرتے تھے ۔ وہ کسی مقبوضہ علاقہ میں نہ سکونت اختیار کرنے اور نہ ہی وہاں آرام پانے کی خواہش کرتے تھے اور انہیں اس کے وسائل بھی میسر نہیں تھے ۔ ان کے سرداروں کو اگرچہ کچھ املاک بطور جاگیر کے مل گئیں تھیں یا انہوں نے غصب کرلی تھیں ، لیکن ان جاگیروں کی آمدنی سے ان کی تعداد کے دسویں حصہ کے ہی گزارہ ہوسکتا تھا ۔ اس لیے وہ صرف لوٹ مار پر گزر کرتے تھے ۔ پنڈاری اگرچہ وہ ہندو ریاستوں کے زیر اثر رہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ پنڈاریوں کو مرہٹے وسط ہند میں لائے جو یہیں آباد ہوگئے ۔ حیرت انگریز بات یہ پنڈاریوں کی قیادت مسلمانوں کے پاس رہی ہے ۔ دوسری عجیب بات یہ ان کے سرادروں کے زیادہ تر نام اکثر ہندوانہ تھے ۔ اگرچہ وہ مسلمان ہوتے تھے ۔
پنڈاریوں کی سرپرستی مرہٹہ ریاتوں نے کی ۔ ان کو ساتھ رکھنے کا مقصد نہایت بے دردی کے ساتھ غیر محفوظ صوبوں کو تباہ و برباد کرنے کام لیا جانا تھا ۔ اس مقصد کے لیے پنڈاری دیگر افواج سے پہلے آگے روانہ کردئے جاتے تھے ۔ ان کا کام جنگ کرنا نہیں تھا بلکہ لوٹ مار کی خدمت ان کے سپرد تھی اور اسی سے ان کا گزارہ ہوتا تھا ۔ اس لیے پنڈاریوں کا نام کبھی ایک بہادر جماعت کی حثیت سے نہیں آیا ہے ۔ البتہ ان کے مظالم میں وہ تمام مثالیں ملتی ہیں جو کہ اکثر خونخوار قزاقوں کی داستان میں پائی جاتی ہیں ۔ یہ مرہٹوں کے مہتر ہونے کی حثیت سے نہایت ذلیل اور حقیر سمجھے جاتے تھے ۔ اس لیے ابتدا ہی سے ان کے عادات اور کیرکڑ نے ایسی شکل اختیار کرلی جو کہ اس کام کے لیے نہایت موزوں تھا جو انہیں انجام دینا ہوتا تھا ۔ بیشک ان کے سرداروں اور بہت سے ہمراہیوں میں اولولعزمی اور دلیری کے اوصاف اکثر پائے جاتے تھے ۔ لیکن فتح و شکست کے موقع پر ان میں سے کسی شخص نے اپنی کوئی شریفانہ خصلت ظاہر نہ کی ۔ یہ بات حیرت انگریز ہے کہ ان لٹیروں میں سے کبھی کسی فرد نے بھی ناموری حاصل کرنے کا جذبہ پیدا نہ ہوا ۔ البتہ جہالت و ذلالت ، سفاکی اور شفاوت قلبی میں ضرور حصہ لیا اور بحثیت ایک جماعت کہ یہ لوگ اپنے انہیں اوصاف کے باعث زیادہ مشہور تھے ۔ ایسی جماعت کی داستانوں میں سوائے ان باتوں کے اور توقع ہی کیا کی جاسکتی ہے ۔
پنڈاریوں کا تعلق بھی مرہٹہ علاقہ سے تھا اور وہ کثیر تعداد میں تھے ۔ مگر اس کے باوجود ان میں سب سے بڑی خرابی یہ تھی کہ ان میں اتحاد نہیں تھا ۔ اگرچہ ان کی تنظیم میں بیحد وسعت تھی مگر کسی مشترکہ غرض کی وجود سے کچھ عرصہ کے لیے ان میں اتحاد و اتفاق پیدا ہوتا تھا ۔ ان کے پڑاؤ آوارہ گرد اشور بے کار لوگوں کو اپنی جانب رجوع کرنے کے لیے مرکز کا کام دیتے تھے ۔ یہاں ان لوگوں کی بڑی تعداد پنڈاریوں کے گروہ میں شامل ہونے کے لیے موجود رہتی تھی ۔ ان کثیر تعداد کی وجہ سے ان کے سرداروں نے اپنے عروج کے لیے یا دوسروں کو تباہ و برباد کرنے کے استعمال کیا ۔
اٹھارویں صدی کی آخری دھائی اور انیسویں صدی کی پہلی دھائی یعنی بیس سالوں میں وسط ہند میں پنڈاریوں کے عروج کا زمانہ تھا ۔ ان کی تعداد کا اندازہ ہر قسم کے بیس سے تیس ہزار سوار کیا گیا ہے ۔ لیکن ان کی صحیح تعداد کا قطعی اندزا لگانا قطعی ممکن نہیں ہے ۔ کیوں کہ ان کی تعداد میں کمی و بیشی ہوتی رہتی ہے ۔ ان کی ہر کامیابی ان کی تعداد میں اضافہ کا سبب اور ناکامی کمی کا موجب ہوتی تھی ۔ ایسے افراد جو جو عادات و خصائل اور حالت کی یکسانیت کی بدولت ہر ایسے سردار سے جاملتے جو کسی فرمانروا کے یہاں ملازم رہ چکا ہے ۔ لیکن اس فرمان روا کی کمزوری یا ظلم دیکھ کر وہ اس کی اطاعت سے سرکشی اختیار کرنا چاہتا ہے اور وہ ڈاکو بن جانے کا خواہاں ہوتا ۔
خیال رہے کہ پنڈایوں کی تعداد میں اضافہ ان وجوہات کی بناء پر بھی تھا جو خود انہوں نے پیدا کردی تھیں ۔ کیوں کہ ان کی لوٹ مار کے حملوں کی توسیع سے لوگوں کی جائدادیں غیر محفوظ ہوگئی تھیں اور ان کی لوٹ کھسوٹ سے جو لوگ تباہ ہوئے ۔ انہوں نے مجبور و معذور ہوکر ظلم و ستم ڈھانے پر کمر باندھ لی اور پنڈاریوں میں شامل ہوگئے ۔ چونکہ اب لوگوں کے لیے معاش کا صرف یہی ایک ذریعہ باقی رہ گیا تھا ۔ وہ بھی اس لہر میں جاملے جس کا مقابلہ وہ نہیں کرسکتے تھے اور دوسروں کو لوٹ کر اپنے نقصانات کی تلافی کرنی چاہی ۔ ان حالات کے باعث پنڈاریوں کی تعداد کے متعلق سب تخمینے غلط ہوجاتے ہیں اور یہ لوگ ہندوستان کی جنگی آبادی کے آوارہ گرد حصے سے اس طرح مل گئے تھے کہ وہ ایک نظام نہ کہ کوئی خاص قوت بن گئے جس ے شکست کرنا مطلوب تھا ۔
پنڈاریوں کے لوٹ مار کے حملوں کی مدافعت کا انتظام یا ان کے سرداروں پر حملے کرنا دونوں تدبیزیں اس خرابی کے انسداد کے لیے یکساں بے سود اور بے اثر ثابت ہوئیں ۔ کیوں یہ ایک ایسے شیش ناگ کی طرح تھے جس کا ایک سر کچل دیا جاتا ہے تو اس دوسرا سر پیدا ہوجاتا تھا اور جن ریاستوں نے ان کو دبانے کی کوشش کی ان کے وسائل ایک ایسے دشمن کے مقابلے کے لیے فضول ضائع کئے گئے جن کو اپنی کامیابی سے ہر بات کی توقع تھی اور شکست کھانے پر ان کی حالت چنداں مخدوش نہ ہوتی تھی ۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہم ان لٹیروں کے طرز جنگ کو بیان کرتے ہیں ۔
پنڈاری جب کسی لوٹ مار کی مہم پر روانہ ہوتے تھے تو وہ کسی ایک یا چند چیدہ سرداروں کے ماتحت ہو جاتے تھے ۔ جنہیں لبیریا کہتے تھے ۔ لبیریا جو منتخب ہوتا تھا اس کا رتبہ وڑا یا پنڈاری کمپ میں صف اول یا راجپوتوں کی اول صف کے سردار سے مشابہت رکھتا تھا ۔ جب کسی مہم کا تہیہ کرلیا جاتا تو لبیریا کا مع اپنے جھنڈے کے چلنا کوچ کی علامت ہوتا تھا ۔ لبیریا ہمیشہ اپنی ذہانت اور مستعدی کے لیے مشہور تھے ۔ اسے اپنی اس معلومات اور فہم فراست کے باعث منتخب کیا جاتا تھا جس پر حملہ کرنا مقصود ہوتا تھا ۔ ہر پنڈاری سوار اپنے کھانے کے لیے چند روٹیاں اور گھوڑے کے لیے تھوڑا سا دانہ اپنے ساتھ لے جاتا تھا اور اس کے پاس خیمے یا کوئی سامان سفر نہیں ہوتا تھا ۔ ہر جماعت میں عموماً دو یا تین ہزار سوار ہوتے تھے ۔ وہ چالیس یا پچاس میل روزانہ کے حساب سے تیز رفتاری سے روانہ ہوتی اور کوئی سوار دائیں یا بائیں مڑ کر نہ دیکھتا تھا ۔ حتیٰ کہ وہ منزل مقصود پر جاپہنچتے تھے اور پھر ٹولیوں میں مستقیم ہوکر مویشیوں اور مال و اسباب کا صفایا کرتے اور جس چیز کو اپنے ساتھ لے نہ جاسکتے اسے تباہ و برباد کر ڈالتے تھے ۔ وہ چپکے سے اچانک حملہ کر دیتے تھے تاکہ محافظ سپاہ کی گرفت سے بچے رہیں اور کسی فوج کی آمد سے بشتر ہی وہ واپس لوٹ جاتے تھے ۔ انہیں اپنی نقل و حرکت کی پھرتی وجہ سے یہ قوت یہ حاصل ہوگئی تھی کہ وہ کسی کی گرفت میں نہیں آتے تھے ۔ اگر ان کا تعاقب کیا جاتا تو وہ نہایت طویل کوچ کرتے (بعض وقت ساٹھ میل سے بھی زیادہ) اور ایسے راستوں سے جاتے جن پر کسی باقیدہ فوج کا سفر کرنا قطعی ناممکن ہے ۔ اگر تعاقب کرنے والے ان تک پہنچ بھی جاتے تو وہ منتشر ہوجاتے اور کسی ایک مقررہ مقام پر پھر جمع ہوجاتے تھے ۔ یہ بھی ہوتا تھا اگر ان کا پیچھا کیا جاتا تو وہ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم ہوجاتے تھے ۔ ان کی دولت ، مال غنیمت اور اہل و عیال ایک نہایت وسیع دشوار گزار علاقہ میں پھیلے ہوئے تھے جہاں رسائی آسان نہیں تھی ۔ جس میں کہ انہیں پناہ ملتی تھی اور یہ مقامات پہاڑوں یا قلعہ جات میں تھے ۔ جن کہ مالک یا تو وہ خود تھے یا ان روسا کی ملکیت تھے جن کے ساتھ ان کے خفیہ یا علانیہ تعلقات تھے ۔ لیکن ان میں سے کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں آسانی سے ان پر حملہ ہوسکتا تھا اور کسی حملہ کی صورت میں ایک جماعت کی شکست یا ان کی ایک چھاؤنی کی بربادی یا ان کی چند گڑھیوں پر عارضی قبضہ کرلینا ایک ڈاکو کو نیست و نابود کرنے سے زیادہ کچھ اثر کرتا تھا ۔ جس کی جگہ اس سے زیادہ نڈر اور من چلا ڈاکو پر کر دیتا تھا ۔
پنڈاری کمزور اور ذوال پزیر ریاستوں کی خرابیوں کی بدولت جانور کے سڑے ہوئے گوشت میں کیڑے کی مانند پیدا ہوگئے تھے ۔ خوش قسمتی سے ان میں کوئی اتحاد نہ تھا جو ان لوگوں کو مربوط اور متحد کر دیتا ۔ ان کا آپس میں نہ مذہبی تعلق تھا اور قومی خیالات تھے ۔ ان میں ہر ایک علاقہ اور مذہب کے لوگ شامل تھے ۔ یہ لوگ جو مایوسی اور مصیبت کے باعث مجتمع نہیں ہوتے تھے بلکہ ہندوستان کی اصلی حالت کو دیکھ کر انہوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اس وقت ڈاکو جیسی زندگی بسر کرنے میں خطرہ کم اور نفع زیادہ ہے ۔ اس قسم کی جماعت البتہ اس وقت ہیبت ناک تصور ہوسکتی تھی جس کہ وہ کسی مضطرب جماعت کا جزو سمجھی جاتی ہو ، جس کے ہر ایک شعبے سے تعلق ہوتا ہو ۔ ان کی مثال مہلک متعدء بیماری جیسی تھی ۔ جس نے یہاں تک اہمیت حاصل کرلی تھی کہ اس بات کا امکان پیدا ہوگیا تھا کہ وسط ہند میں جو تھوڑی بہت حکومت باقی رہ گئی ہیں یہ لوگ جلد اس پر فتح یاب ہوجائیں گے اور ان کی جماعت وسط ہند میں عظیم انشان جنگی مظہر بن جائے گی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔