سب سے پہلے حضرت عثمانؓ نے پہچانا
’’یہ سائب بن اقرع ہے‘‘۔ سوار قریب آیا تو مدینہ سے باہر انتظار کرنے والے امیر المومنین نے پوچھا ’’کیا خبر ہے؟‘‘ سائب نے فتح کی خوش خبری دی۔ ’’نعمان کا کیا حال ہے‘‘۔ ’’وہ شہید ہو گئے‘‘۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ کی ہچکی بندھ گئی۔
ایران کے شہنشاہ کسریٰ کے خلاف آخری فیصلہ کن معرکہ نہاوند میں لڑا گیا۔ اس میں مسلمانوں کو مالِ غنیمت بہت ملا کیونکہ ایرانی سب کچھ چھوڑ کر بھاگ لیے تھے۔ یہی وہ جنگ تھی جس کے بعد کسریٰ نے ایران چھوڑ دیا۔ غیر ملکیوں سے مدد مانگتے مانگتے دیارِ غیر ہی میں مرا۔ خزانے کا ایک خاص حصہ اس نے نہاوند میں آتش کدے کے مذہبی رہنما کے پاس رکھوا دیا تھا کہ کسی دن کام آئے گا۔ شکست فیصلہ کن ہوئی تو مذہبی رہنما نے زرو جواہر کے وہ خاص صندوق مسلمانوں کے حوالے کردیے۔ مسلمانوں نے انہیں امیر المومنین کے لیے مخصوص کردیا۔ سائب بن اقرع فتح کی نوید کے ساتھ یہ صندوق بھی مدینہ لائے تھے!
مدینہ پہنچ کر سائب نے خمس مسجد میں رکھ دیا۔ امیر المومنین نے اپنے رفقا کو پہرے پر بٹھایا اور حکم دیا کہ علی الصبح سارا مال مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائے۔ پھر امیرالمومنین اٹھے اور اس بے سرو سامان کچے مکان کی طرف تشریف لے گئے جو ’’ایوانِ خلافت‘‘ تھا! سائب صندوق اٹھائے پیچھے پیچھے چلے۔ حضرت عمرؓ گھر میں داخل ہونے لگے تو بتایا کہ یہ خزانہ مسلمانوں نے فتح کے بعد جناب کی خدمت میں بھیجا ہے۔ ایک پریشانی تھی جو امیر المومنین پر طاری ہو گئی جیسے وہ ایک مصیبت میں گرفتار ہو گئے ہوں۔ فرمایا… ’’کم از کم تمہیں ان کا ساتھ نہیں دینا چاہیے تھا‘‘۔ پھر کہا… مجھے بچائو۔ مجھے بچائو۔ یہ صندوق فوراً یہاں سے لے جائو اور حذیفہؓ کو دو کہ تقسیم کردیں۔ سائب بن اقرع نے حکم کی تعمیل کی۔ حذیفہ نے اس خزانے کو چار لاکھ میں فروخت کیا اور ایک ایک پائی مسلمانوں میں تقسیم کی گئی۔
یہ کیا تھا؟ یہ سیر چشمی تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی نظر میں خزانوں کی وقعت بکری کی چھینک سے زیادہ نہ تھی۔ فاقہ کش امیر المومنین یہ خزانہ رکھ لیتے تو کوئی بھی اعتراض نہ کرتا۔ مال غنیمت نے سب کو آسودہ حال کردیا تھا۔ آخر امیر المومنین کی قیادت ہی میں تو شرق و غرب فتح ہو رہے تھے!
امیر المومنین علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ عید کے دن سوکھی روٹی تناول فرما رہے تھے۔ کیا خزانے اور مرغن کھانے اُن کی دسترس سے باہر تھے؟ نہیں! خدا کی قسم! نہیں! فاتحِ خیبر اشارہ فرماتے تو تعمیلِ حکم مسلمانوں کے لیے اعزاز ہوتی! مگر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہ حضرات سیر چشم تھے۔
اور یہ تو قریب کے زمانے میں دنیا بھر نے دیکھا کہ گورنر جنرل ہو کر قائداعظم مہنگی جورابیں واپس کروا دیتے ہیں۔ ان کا پسندیدہ باورچی منگوایا جاتا ہے تو واپس بھجوا دیتے ہیں۔ گاڑی خریدنے سے انکار کر دیا اور جہاز سے بھی۔ کہا میں کمرشل فلائٹ استعمال کروں گا یا ایئر فورس کا طیارہ! پھر جب ساتھیوں نے قائل کیا تو قیمت کی فکر لگ گئی۔ قطب الدین عزیز نے سارا احوال لکھا ہے۔ انسان ورطۂ حیرت میں گم ہو جاتا ہے کہ ایک ایک پائی کی فکر یوں دامن گیر ہے جیسے ذاتی جیب کی ہوتی ہے۔ کسی نے تفصیل جاننی ہو تو گورنر جنرل اور امریکہ میں پاکستانی سفیر ایم اے ایچ اصفہانی کے درمیان اس موضوع پر ہونے والی خط و کتابت دیکھ لے جسے معروف محقق جناب زوار حسین زیدی نے یکجا کیا ہے! کم تر کوالٹی کا جہاز خریدنے کا حکم دیا اس لیے کہ اس کی قیمت کم تھی۔ بسترِ مرگ پر لیٹے‘ جب اکثر و بیشتر افراد کو جان کی پڑی ہوتی ہے‘ قائداعظم قومی خزانے کو بچانے کے لیے ایک ایک کاغذ خود ملاحظہ کر رہے تھے!
اور اب…؟ یہ کون سی بداعمالیاں ہیں کہ جن کی پاداش میں اب ہم پر وہ لوگ مسلط ہو گئے ہیں بھوک جن کی آنکھوں سے نکلتی ہے نہ پسلیوں سے۔ جنہیں قومی خزانے کی تو کیا پروا ہوگی‘ اپنی عزت تک کی فکر نہیں! مگر بات یہ ہے کہ عزت کی تعریف کچھ لوگ اپنی خواہش کے مطابق کرتے ہیں۔ کسی نے غیرت دلانے کے لیے کہا تھا کہ تمہاری پیٹھ پر درخت اُگ آیا ہے‘ تو غیرت کرنے کے بجائے اگلے نے اطمینان کا اظہار کیا تھا کہ اچھا ہوا‘ سائے میں بیٹھیں گے۔ محبوبؔ خزاں نے مشورہ دیا تھا ؎
کچھ لوگ جی رہے ہیں شرافت کو بیچ کر
تھوڑی بہت انہیں سے شرافت خریدیے
ایک سابق وزیراعظم کے زمانے میں سیلاب زدگان کے لیے ترکی کے صدر کی اہلیہ نے اپنا قیمتی ہار عطیہ کیا تھا۔ سیلاب زدگان کو تو وہ کیا ملتا‘ پچھلے دنوں اُس کی ڈھنڈیا پڑ گئی۔ معلوم ہوا کہ سابق وزیراعظم نے اسے اپنی ذاتی ’’تحویل‘‘ میں رکھا ہوا ہے۔ اب کہتے ہیں کہ ترکی جا کر واپس کردوں گا‘ جیسے وہ واپس لے ہی لیں گے!
زمانے سے پوچھیں یا آسمان سے؟ یا اس ملک کے اُس بخت سے جو سیاہ ہے‘ کہ ہمیں وہ رہنما کب میسر آئیں گے جو اس قبیل کی خفیف حرکتیں نہیں کریں گے‘ جو اپنی عزت کا اور قوم کی حرمت کا خیال رکھیں گے۔ جن کی اکھیاں اور وکھیاں خالی نہیں ہوں گی‘ بھری ہوئی ہوں گی۔ اس سے پہلے پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز ملک کو تین طلاقیں دے کر رخصت ہوئے تو سارے تحائف‘ جو توشہ خانے میں جانے تھے‘ سمیٹ کر گٹھڑی میں باندھے اور گٹھڑی سر پر رکھ کر بھاگ گئے۔ اب ساری دنیا میں‘ جہازوں پر سوار‘ پھر رہے ہیں اور مالیاتی مشورے دے رہے ہیں‘ صرف اپنا ملک پسند نہیں جہاں حکمرانی کی!
سرکاری حیثیت میں ملنے والے تحائف کے لیے ہر ملک میں قانون ہوتا ہے جس کے تحت ان کا حساب کتاب ہوتا ہے۔ امریکی صدر اوباما اور سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کو ملنے والے تحائف کی تفصیل امریکی وزارت خارجہ دیتی ہے اس لیے کہ یہ تحائف شخصیات کے پاس نہیں رہ سکتے۔ سعودی بادشاہ نے ہلیری کلنٹن کو پانچ لاکھ ڈالر مالیت کے زیورات تحفے میں دیے۔ امریکی وزارت خارجہ ہر سال‘ حکومتی شخصیات کو ملنے والے تحائف کی فہرست افادۂ عام کے لیے شائع کرتی ہے۔ ایک خاص مالیت (تین یا ساڑھے تین سو ڈالر) تک کا تحفہ رکھا جا سکتا ہے۔ اس سے اوپر کے تمام تحائف سرکاری خزانے میں جمع ہوتے ہیں۔ جو تحائف اپنے پاس رکھے جاتے ہیں‘ ان پر ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔ ان ٹیکسوں کی تفصیل بھی امریکی عوام کے علم میں لائی جاتی ہے۔
مبینہ خبر یہ ہے کہ ہار کی قیمت دو لاکھ روپے تھی۔ لیڈر وہ نہیں ہوتا جو دو لاکھ کی مالیت کی امانت بھی اپنے پاس رکھ لے۔ یہ لیڈری نہیں! یہ دریوزہ گری ہے۔ لیڈر وہ ہوتا ہے جو کروڑوں اربوں کو بھی خاطر میں نہ لائے۔ مگر جب لالچ‘ کرپشن اور ہل من مزید کا رویہ رگ رگ میں سما جائے‘ جب ایک ایک ورید میں خون کے بجائے مال کی ہوس دوڑ رہی ہو‘ جب ہڈیوں کے گودے میں بھوک ہی بھوک ہو‘ اور جب سیر ہونا نصیب ہی میں نہ ہو تو بے نیازی اور استغنا کہاں سے آئے گا؟ اس سے بڑھ کر عبرت کا اور کیا مقام ہوگا کہ نیویارک کے بیش بہا اپارٹمنٹوں سے لے کر شرق اوسط کے دمکتے چمکتے آنکھوں کو خیرہ کرتے محلات میں سے کچھ بھی کام نہ آئے اور کفن ایدھی کا پڑے!!
جب بھی اصلاحات کا ذکر کیا جائے اور مفادات کو خطرہ لاحق ہو تو جمہوریت بچانے کا واویلا مچا دیا جاتا ہے۔ مگر دانش وروں کو کرپشن کبھی نظر نہیں آئی۔ دو دن پیشتر سینیٹ میں آہ وزاری کی گئی کہ وفاق صوبائی دارالحکومت میں اجلاس کر کے صوبائی خودمختاری میں مداخلت کر رہا ہے اور یہ کہ امن و امان صوبائی معاملہ ہے۔ جو کچھ کراچی میں ہو رہا تھا‘ اس پر کبھی پتھر کی آنکھ سے بھی آنسو نہ نکلا۔ شہر جنگل سے بدتر ہو چکا تھا۔ حکمران خاندان نے پوری پوری شاہراہیں مسدود کر رکھی تھیں۔ انسانی جان مکھی سے بھی زیادہ بے وقعت تھی۔ قربانی کے جانور کی کھال تک بھتے سے مستثنیٰ نہ تھی۔ مگر سبحان اللہ! سینیٹ کے ارباب اختیار کو تب سب ٹھیک نظر آ رہا تھا۔ یہ کالم نگار لاہور کے ایک نوجوان بزنس مین کو ذاتی طور پر جانتا ہے جسے بھتے کا نوٹس باقاعدگی سے آتا تھا۔ کراچی میں حالیہ ایکشن کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوا یعنی شادی والے گھر پر ڈاکہ پڑے تو پاندان کی فکر لاحق ہو جائے۔ پورا شہر عبرت سرائے بن جائے‘ سب کچھ کھنڈر میں تبدیل ہو رہا ہو تو قبول ہے مگر جرائم کی بیخ کنی کی جائے تو صوبائی خودمختاری کا پاندان یاد آ جائے۔ یہ تو وہی بات ہے کہ دارالحکومت میں میٹرو نہ چلتی تو جملہ مسائل کسی کو یاد نہ آتے۔ اب میٹرو چلی ہے تو مسائل یاد آنے لگے کہ ان پر توجہ کیوں نہیں دی جا رہی۔ یہ صفحات گواہ ہیں کہ اس کالم نگار نے وضاحت سے لکھا کہ میٹرو‘ پانچ میں سے صرف ایک روٹ پر فائدہ پہنچائے گی اور اصل حل زیر زمین ریلوے ہے‘ مگر انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ قیصر کو قیصر کا حق ملے اور کلیسا کو کلیسا کا۔ پنجاب حکومت کے طرز حکمرانی پر ہمیشہ کھل کر تنقید کی۔ اس قلم کار کے غریب اور مفلوک الحال گائوں میں منظور شدہ ڈسپنسری کا بجٹ دس سال سے رکا ہوا ہے۔ جانے کیا وجہ ہے! شاید اس لیے کہ منظوری قاف لیگ کے ضلع ناظم نے دی تھی۔ یا شاید اس لیے کہ کالم نگار کی تنقید بُری لگتی ہے یا شاید اس لیے کہ صوبائی مشینری کی نااہلی ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود… ہمارے نزدیک میٹرو کا منصوبہ قابل تعریف ہے۔ ایک روٹ ہی پر سہی‘ عوام کو کچھ ملا تو ہے۔ آغاز تو ہوا ہے۔ آنے والے زمانوں کے لیے ایک نظیر ایک قابلِ تقلید مثال تو قائم ہوئی ہے! عوام کو سہولت بہم ہونے کے علاوہ بلند پایہ ذریعۂ آمدورفت کو استعمال کرنے کی تربیت بھی حاصل ہوگی!
بات وفاق کی مبینہ مداخلت کی ہو رہی تھی! اس مداخلت پر ضرور شور مچایئے ؎
دیکھ رہ جائے نہ حسرت کوئی دل میں تیرے
شور کر اور بہت‘ خاک اُڑا اور بہت
لیکن کبھی کرپشن پر بھی ایک آدھ آنسو بہا دیجے۔ کبھی اُس حرص کا بھی ذکر فرما دیجیے جو ہمارے رہنمائوں کی آنکھوں میں زمانوں سے بھری ہے اور کبھی جمہوریت کو اور انتخابات کو سیاسی پارٹیوں میں لانے کی فکر بھی کر لیجیے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“