ہارون الرشید (پیدائش17 مارچ 763ء انتقال 24 مارچ 809ء) پانچویں مشہور ترین خلیفہ تھے۔ وہ 786ء سے 809ء تک مسند خلافت پر فائز رہے۔ ان کا دور سائنسی، ثقافتی اور مذہبی رواداری کا دور کہلاتا ہے۔ ان کے دور حکومت میں فن حرفت نے عروج حاصل کیا۔ ان کا دربار اتنا شاندار تھا کہ معروف کتاب ’’الف لیلیٰ‘‘ انہی کے دربار سے متاثر ہوکر لکھی گئی۔ ہارون تیسرے خلیفہ المہدی کے صاحبزادے تھے۔ ہارون اس وقت خلیفہ بنے جب وہ عمر کے 22 ویں سال میں تھے۔ ہارون الرشید کے دور میں عباسی خلافت کا دارالحکومت بغداد اپنے عروج پر پہنچ گیا اور یہ خوشحالی اور علم فن کا دور تھا۔ انہوں نے بغداد میں نیا محل تعمیر کرایا جو اس سے قبل کے تمام محلات سے زیادہ بڑا اور خوبصورت تھا جس میں اس کا معروف دربار بھی تھا جس سے ہزاروں درباری وابستہ تھے۔ ہارون الرشید کئی اوصاف کا مالک تھا ایک طرح عیش و عشرت زندگی کا حامل تھا تو دوسری طرف دیانتدار، پابند شریعت، علم دوست اور علماء نواز تھا۔ ایک سال حج تو ایک سال جہاد کرتا۔ عسکری شعبے میں ہارون ایک جانثار سپاہی تھا۔ جس نے اپنے وقت میں بہادری کے جوہر دکھائے۔ انہوں نے بازنطینی سلطنت کے خلاف 95 ہزار کی فوج کی کمان سنبھالی جو اس وقت ملکہ ایرین کی زیر سربراہی تھی۔ ایرین کے معروف جنرل نیکٹس کو شکست دینے کے بعد ہارون کی فوج نے ترکی میں پڑاؤ ڈالا۔ جب ملکہ نے دیکھا کہ مسلم افواج شہر پر قبضہ کرنے والی ہے تو اس نے معاہدے کے لئے سفیروں کو بھیجا لیکن ہارون نے ہر شرط کو رد کرتے ہوئے فوری ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا۔ اس پر ایک سفیر نے کہا ملکہ نے بطور جنرل آپ کی صلاحیتوں کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے۔ وہ بطور ایک سپاہی آپ کی بڑی قدر کرتی ہے حالانکہ آپ ان کے دشمن ہیں۔ ہارون الرشید ان کلمات کو سن کر کہنے لگا کہ اپنی ملکہ سے کہہ دو کہ وہ ہمیں سالانہ 70 ہزار اشرفیاں عطا کرتی رہے تو کوئی مسلم فوج قسطنطنیہ کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔ ملکہ نے اس شرط کو قبول کرلیا اور پہلے سال کا خراج عطا کیا جس پر مسلم افواج واپس لوٹ گئیں۔
خلیفہ ہارون رشید بڑے حاضر دماغ تھے۔ ایک مرتبہ کسی نے ان سے پوچھا: ’’آپ کبھی کسی بات پر لاجواب بھی ہوئے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا: تین مرتبہ ایسا ہوا کہ میں لاجواب ہوگیا۔ ایک مرتبہ ایک عورت کا بیٹا مرگیا اور وہ رونے لگی۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ مجھے اپنا بیٹا سمجھیں اور غم نہ کریں۔ اس نے کہا میں اپنے بیٹے کے مرنے پر کیوں نہ آنسو بہاؤں۔۔۔ جس کے بدلے خلیفہ میرا بیٹا بن گیا۔ دوسری مرتبہ مصر میں کسی شخص نے حضرت موسیٰ ہونے کا دعویٰ کیا۔ میں نے اسے بلوا کر کہا کہ حضرت موسیٰ کے پاس تو اللہ کے دیئے معجزات تھے اگر تو موسیٰ ہے تو کوئی معجزہ دکھا۔ اس نے جواب دیا کہ موسیٰ نے تو اس وقت معجزہ دکھایا جب فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا تو بھی یہ دعویٰ کرے تو میں معجزہ دکھاؤں گا۔ تیسری مرتبہ لوگ ایک گورنر کی غفلت اور کاہلی کی شکایت لے کر آئے۔ میں نے کہا کہ وہ شخص تو بہت نیک، شریف اور ایماندار ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ پھر آپ اپنی جگہ اسے خلیفہ بنا دیں تاکہ اس کا فائدہ سب کو پہنچے۔
کہتے ہیں کہ عظیم فرنروا ہارون الرشید اپنے دن کا سکون اور راتوں کی نیند اڑنے پر بڑا پریشان تھا وہ اپنی بے سکونی دور کرنے اور چین حاصل کرنے کے لئے بہت مضطرب تھا۔ بے چینی کو دور کرنے کے لئے اس نے اپنے وزیر فضل بن ربیع کو حکم دیا کہ کوئی روحانی عامل تلاش کرو جو اس کی بے چین طبیعت میں سکون پیدا کردے۔
وزیر نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بے شمار عامل اور فاضل لوگوں سے رجوع کیا مگر ہارون الرشید کی بے چینی دور نہ ہو سکی اس کے قلب کو سکون نہ ہوسکا۔ وزیر نے ایک روز خلیفہ سے کہا کہ اب صرف ایک بزرگ ہستی بچی ہے جنہوں نے دنیا کی تمام نعمتوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے اور وہ کسی کی جاہ و حشمت کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اس صوفی بزگ کا نام فضیل بن عیاض ہے۔ خلیفہ نے جب یہ سنا تو فوراً وزیر کو ساتھ لے کر ان صوفی بزرگ کے سادہ سے حجرے میں جا پہنچے۔ بزرگ نے دروازے پر دستک سنی اور معلوم ہوا کہ خلیفہ ہارون الرشید ملنے کے لئے آیا ہے تو کچھ دیر سوچنے کے بعد حجرے میں جلتا دیا بجھا دیا اور دوازہ کھول کر حجرے کے ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ ہارون الرشید نے اندھیرے میں ٹٹولتے ہوئے سلام عرض کرتے ہوئے صوفی صاحب سے مصافحہ کیا۔ بزرگ کا ہاتھ چھوتے ہی خلیفہ نے اپنے بدن میں ایک ٹھنڈک محسوس کی پھر اپنے آنے کا مقصد عرض کیا۔ خلیفہ کی بات سن کر صوفی بزرگ نے کہا:
فرمان نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ میری امت کے بدترین علماء وہ ہیں جو حکمرانوں کے دروازے پر جاتے ہیں اور بہترین حکمران وہ ہیں جو علماء کے در دولت پر حاضر ہوتے ہیں۔ خلیفہ ہارون الرشید کو بزرگ کی باتوں سے سکون مل رہا تھا۔ بزرگ نے پھر کہا: ہارون الرشید تیرا کتنا نرم و نازک ہاتھ ہے، کاش یہ جہنم کی آگ سے بچ جائے۔ یہ سن کر ہارون الرشید کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ صوفی بزرگ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے پھر کہا: ہارون الرشید اپنے پاؤں کو ڈگمگانے سے محفوظ رکھ۔ اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے۔ مرتے وقت کوئی وزیر کوئی مشیر تیرا رہنما نہ ہوگا فقط تیرے اعمال تیرے کام آئیں گے۔ یہ سب سن کر ہارون الرشید پر رقت طاری ہوگئی۔ وزیر نے دیکھا تو بزرگ سے کہا کہ نرمی فرمائیں اس کے حال پر ترس کھائیں، دیکھیں ان کی حالت کیسی ہو رہی ہے۔ بزرگ نے وزیر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تم اور تمہارے ساتھی دربار میں ایسے حالات بناتے ہو کہ یہ گناہ پر گناہ کرتا جاتا ہے کبھی تم لوگوں نے اسے کسی غیر شرعی فعل سے ٹوکا؟ تم ایسا کر بھی کیسے سکتے ہو تمہیں تو تمہاری وزرات عزیز ہے۔
اس کے بعد صوفی بزرگ نے خلیفہ ہارون الرشید کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تجھ سے اپنی مخلوق کے بارے میں باز برس کرے گا۔ اگر اپنے چہرے کو آگ سے بچانا چاہتے ہو تو بچا لو۔ ہرگز دیر نہ کرو کل کسی نے کہاں دیکھا۔ تیرے دل میں رعایا کے کسی فرد کے لئے بھی بے انصافی، کدورت یا بغض ہے تو فوراً اپنی اصلاح کرلے۔ اس نصیحت کے بعد خلیفہ ہارون الرشید کی زندگی یکسر بدل گئی۔
خلیفہ ہارون الرشید کا واقعہ ہم سب کے لئے حقیقی نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ خواہ کوئی ریاست یا صوبے کا سربراہ یا کسی وزارت کا امین یا تعلیمی و صنعتی، معاشی اور مذہبی و فلاحی ادارے کا منتظم یا کسی بھی ادارے میں کسی منصب پر فائز ہے اور اچھے اور برے فیصلے کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس دوران دیکھنا چاہئے کہ میرٹ پر فیصلہ کیا ہے، کون زیادہ حقدار ہے۔
دراصل ہم آج اس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں فلاحی اداروں سے امداد بھی سفارش کے بغیر نہیں ملتی۔ سرکاری تو کیا غیر سرکاری امداد بھی سفارش کے بغیر نہیں ملتی۔ نہ ہی حقدار کو ترقی ملتی ہے جبکہ اعلیٰ عہدوں اور وزارتوں پر براجمان لوگوں کا کیا کہنا، ان کی کارکردگی کے بارے میں کون آگاہ نہیں۔ صوفی بزرگ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کی خلیفہ ہارون الرشید کو کی گئی نصیحت آج ان سب کو آواز دے رہی ہے جو اپنے قلب کی بے چینی کو محسوس کرتے ہیں یا اس دولت سے محروم ہیں۔
مادہ پرستی کے باعث یورپ میں بھی نفسیاتی امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ آج صرف مغرب میں ہی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں بھی ذہنی امراض بڑھ رہی ہیں۔ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن کے رزق میں تو اضافہ ہوا ہے مگر سکون میں کمی آرہی ہے۔ سائیکل والا موٹر سائیکل، موٹرسائیکل والا کار اور کار والا لگژری سواری کے چکر میں اپنا سکون تک غارت کرنے کو تیار ہے۔ کوئی تو اپنے وطن میں بینک اکاؤنٹ بھرنے پر بھی مطمئن نہیں بلکہ سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں اکاؤنٹس پر بھی اسے سکون نہیں۔ شاید اس لئے کہ ہمارے عقیدوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے رزق دینے کا وعدہ تو کیا ہے لیکن نجات کا نہیں۔
مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ ایک حکایت میں فرماتے ہیں کہ ایک گائے روزانہ جنگل میں جاکر خوب سیر ہو کر کھاتی ہے مگر رات بھر اس غم میں دبلی پتلی ہو جاتی ہے کہ صبح کو کچھ کھانے کو ملے گا بھی یا نہیں مگر اگلے دن کی فکر کرتے وقت یہ نہیں سوچتی کہ روزانہ اس کو کون رزق دے رہا ہے۔ انسان کا نفس ایسا ہی ہے جو کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔ پس ہمیں اللہ رب العزت سے قناعت پسندی اختیار کرنے کی توفیق مانگنی چاہئے اور دین کی کامل اتباع طلب کرنی چاہئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَعَدَ اﷲُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ.
النور:55
اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے (جس کا ایفاء اور تعمیل، اُمت پر لازم ہے) جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت (یعنی اَمانتِ اِقتدار کا حق) عطا فرمائے گا ‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے پہلے ایمان پھر عمل صالح کو جانشینی کی بنیاد قرار دیا۔ پس ایمان کے ساتھ عمل پر محنت و ریاضت کرنی چاہئے باقی سب کچھ فنا ہوجانے والا ہے۔ سکون قلب کے لئے قناعت پسندی، کامل ایمان اور اعمال صالح سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ طمع و لالچ سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے۔ اس ذات کے حضور عاجزی و انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور صبرو شکر کی نعمت طلب کرنی چاہئے۔ اس سے نہ صرف وہ عظیم ذات خوش ہوتی ہے بلکہ اپنی عنایات سے مزید نوازتی ہے۔
ہارون رشید کی بیوی زبیدہ خاتون بہت ہی دیندار اور صاحب علم و فضل خاتون تھی۔ ان کے محل میں ایک ہزار باندیاں چوبیس گھنٹے قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول رہتی تھیں۔ خلیفہ ہارون الرشید کی بیوی زبیدہ خاتون ایک مرتبہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ آئیں۔ ان دنوں پانی کی قلت تھی اور حجاج کرام کو خاص طور پر بہت تکلیف تھی انہوں نے جب اہل مکہ اور حجاج کرام کو پانی کی دشواری اور مشکلات میں مبتلا دیکھا تو انہیں بہت رنج ہوا چنانچہ انہوں نے اپنے اخراجات سے ایک عظیم الشان نہر کھودنے کا حکم دے کر ایک فقیدالمثال کارنامہ سرانجام دیا جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔ نہر کی کھدائی کا منصوبہ بنانے کے لئے مختلف علاقوں سے ماہر انجینئر بلوائے گئے۔ انجینئرز کے منصوبے کے مطابق سرحد سے 35 کلومیٹر شمال مشرق میں وادی حنین سے نہر نکالنے کا پروگرام بنایا گیا۔ اس عظیم منصوبے پر سترہ لاکھ دینار خرچ ہوئے۔ جب نہر زبیدہ کی منصوبہ بندی شروع ہوئی تو اس منصوبہ کا منتظم انجینئر آیا اور کہنے لگا آپ نے جس کا حکم دیا ہے اس کے لئے خاصے اخراجات درکار ہیں کیونکہ اس کی تکمیل کے لئے بڑے بڑے پہاڑوں کو کاٹنا پڑے گا، نشیب و فراز کی مشکلات سے نمٹنا پڑے گا اور سینکڑوں مزدوروں کو دن رات محنت کرنا پڑے گی تب کہیں جاکر منصوبہ پایہِ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ یہ سن کر زبیدہ نے انجینئر سے کہا: اس کام کو شروع کرو خواہ کلہاڑے کی ایک ضرب پر ایک دینار خرچ آتا ہو اس طرح جب نہر کا منصوبہ تکمیل کو پہنچ گیا تو منتظمین اور نگران حضرات نے اخراجات کی تفصیلات ملکہ کی خدمت میں پیش کیں۔ اس وقت ملکہ دریائے دجلہ کے کنارے واقع اپنے محل میں تھیں۔ ملکہ نے وہ تمام کاغذات لئے اور انہیں کھولے بغیر دریا برد کردیا اور کہنے لگیں: الہٰی! میںنے دنیا میں کوئی حساب نہیں لینا تو بھی مجھ سے قیامت کے دن حساب نہ لینا۔
البدایہ والنہایہ
مزید یہ کہ ہارون الرشید کی بیوی صاحب بصیرت اور حکمت والی خاتون تھیں۔ ایک مرتبہ خلیفہ ہارون الرشید اور اس کی بیوی دونوں دریا کے کنارے چہل قدمی کر رہے تھے۔ ایک فقیر جن کا نام بہلول دانا تھا وہ دریا کے کنارے ریت کے گھر بنا رہا تھا۔ خلیفہ ہارون الرشید کی بیوی زبیدہ خاتون نے پوچھا: بابا کیا بنا رہے ہو؟ تو بہلول دانا نے جواب دیا کہ میں جنت میں گھر بنا رہا ہوں۔ زبیدہ خاتون نے پوچھا بابا کیا بیچتے ہو؟ صوفی بزرگ نے کہا ہاں بیچتا ہوں پوچھا بابا کتنے میں بیچتے ہو فرمایا: ایک درہم میں بیچتا ہوں۔ اس سودے پر ہارون الرشید نے زبیدہ خاتون کا مذاق اڑایا کہ جنت میں گھر خرید رہی ہے وہ بھی ایک فقیر سے لیکن زبیدہ خاتون نے خلیفہ ہارون الرشید کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ رات کو جب ہارون الرشید سویا تو اس نے خواب دیکھا کہ جنت میں ایک محل ہے جس پر لکھا ہوا ہے زبیدہ خاتون۔
خلیفہ ہارون الرشید نے اپنی بیوی کا محل سمجھ کر اندر جانا چاہا تو درباریوں نے ان کو روک کر کہا جنت میں جس کا گھر ہوتا ہے کوئی بھی اس کی اجازت کے بغیر اس کے محل میں داخل نہیں ہو سکتا۔ لہذا آپ زبیدہ خاتون کی اجازت کے بغیر اس کے اندر نہیں جاسکتے۔ اس پر ہارون الرشید کی آنکھ کھل گئی۔ وہ بڑا پریشان ہوا۔ اگلے روز اس نے زبیدہ خاتون سے کہا آؤ ہم دریا کے کنارے چلتے ہیں۔ جب وہ دریا کے کنارے پہنچے تو بہلول دانا ریت کا گھر بنا رہا تھا اب خلیفہ ہارون الرشید نے پوچھا: بابا کیا بنا رہے ہو؟ فرمایا جنت میں گھر بنا رہا ہوں پوچھا بیچتے ہو فرمایا ہاں بیچتا ہوں عرض کیا بابا کتنے کا بیچتے ہو؟ فرمایا: 10 دینار کا عرض کیا بابا اتنا مہنگا۔ کل تو آپ نے ایک درہم کا بیچا تھا۔ آج 10 کا بیچ رہے ہیں۔ فرمایا: کل کے خریدار نے بن دیکھے سودا کیا تھا لیکن آج کے خریدار دیکھ کر آئے ہیں۔ اس واقعہ سے ایک پیغام یہ بھی ملتا ہے کہ پاکیزہ عورتوں کے لئے پاکیزہ مرد ہوتے ہیں۔ زبیدہ خاتون کیونکہ نیک سیرت اور صالح خاتون تھیں تو انکی زوج کو بھی پاکیزہ اور زہد عطا فرمایا۔ اگر کچھ کمی بیشی تھی تو ان کی صحبت و سنگت سے پوری فرما دی۔
ہارون الرشید (پیدائش 763ء انتقال 24 مارچ 809ء) پانچویں مشہور ترین خلیفہ تھے۔ وہ 786ء سے 809ء تک مسند خلافت پر فائز رہے۔ ان کا دور سائنسی، ثقافتی اور مذہبی رواداری کا دور کہلاتا ہے۔ ان کے دور حکومت میں فن حرفت نے عروج حاصل کیا۔ ان کا دربار اتنا شاندار تھا کہ معروف کتاب ’’الف لیلیٰ‘‘ انہی کے دربار سے متاثر ہوکر لکھی گئی۔ ہارون تیسرے خلیفہ المہدی کے صاحبزادے تھے۔ ہارون اس وقت خلیفہ بنے جب وہ عمر کے 22 ویں سال میں تھے۔ ہارون الرشید کے دور میں عباسی خلافت کا دارالحکومت بغداد اپنے عروج پر پہنچ گیا اور یہ خوشحالی اور علم فن کا دور تھا۔ انہوں نے بغداد میں نیا محل تعمیر کرایا جو اس سے قبل کے تمام محلات سے زیادہ بڑا اور خوبصورت تھا جس میں اس کا معروف دربار بھی تھا جس سے ہزاروں درباری وابستہ تھے۔ ہارون الرشید کئی اوصاف کا مالک تھا ایک طرح عیش و عشرت زندگی کا حامل تھا تو دوسری طرف دیانتدار، پابند شریعت، علم دوست اور علماء نواز تھا۔ ایک سال حج تو ایک سال جہاد کرتا۔ عسکری شعبے میں ہارون ایک جانثار سپاہی تھا۔ جس نے اپنے وقت میں بہادری کے جوہر دکھائے۔ انہوں نے بازنطینی سلطنت کے خلاف 95 ہزار کی فوج کی کمان سنبھالی جو اس وقت ملکہ ایرین کی زیر سربراہی تھی۔ ایرین کے معروف جنرل نیکٹس کو شکست دینے کے بعد ہارون کی فوج نے ترکی میں پڑاؤ ڈالا۔ جب ملکہ نے دیکھا کہ مسلم افواج شہر پر قبضہ کرنے والی ہے تو اس نے معاہدے کے لئے سفیروں کو بھیجا لیکن ہارون نے ہر شرط کو رد کرتے ہوئے فوری ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا۔ اس پر ایک سفیر نے کہا ملکہ نے بطور جنرل آپ کی صلاحیتوں کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے۔ وہ بطور ایک سپاہی آپ کی بڑی قدر کرتی ہے حالانکہ آپ ان کے دشمن ہیں۔ ہارون الرشید ان کلمات کو سن کر کہنے لگا کہ اپنی ملکہ سے کہہ دو کہ وہ ہمیں سالانہ 70 ہزار اشرفیاں عطا کرتی رہے تو کوئی مسلم فوج قسطنطنیہ کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔ ملکہ نے اس شرط کو قبول کرلیا اور پہلے سال کا خراج عطا کیا جس پر مسلم افواج واپس لوٹ گئیں۔
خلیفہ ہارون رشید بڑے حاضر دماغ تھے۔ ایک مرتبہ کسی نے ان سے پوچھا: ’’آپ کبھی کسی بات پر لاجواب بھی ہوئے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا: تین مرتبہ ایسا ہوا کہ میں لاجواب ہوگیا۔ ایک مرتبہ ایک عورت کا بیٹا مرگیا اور وہ رونے لگی۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ مجھے اپنا بیٹا سمجھیں اور غم نہ کریں۔ اس نے کہا میں اپنے بیٹے کے مرنے پر کیوں نہ آنسو بہاؤں۔۔۔ جس کے بدلے خلیفہ میرا بیٹا بن گیا۔ دوسری مرتبہ مصر میں کسی شخص نے حضرت موسیٰ ہونے کا دعویٰ کیا۔ میں نے اسے بلوا کر کہا کہ حضرت موسیٰ کے پاس تو اللہ کے دیئے معجزات تھے اگر تو موسیٰ ہے تو کوئی معجزہ دکھا۔ اس نے جواب دیا کہ موسیٰ نے تو اس وقت معجزہ دکھایا جب فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا تو بھی یہ دعویٰ کرے تو میں معجزہ دکھاؤں گا۔ تیسری مرتبہ لوگ ایک گورنر کی غفلت اور کاہلی کی شکایت لے کر آئے۔ میں نے کہا کہ وہ شخص تو بہت نیک، شریف اور ایماندار ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ پھر آپ اپنی جگہ اسے خلیفہ بنا دیں تاکہ اس کا فائدہ سب کو پہنچے۔
کہتے ہیں کہ عظیم فرنروا ہارون الرشید اپنے دن کا سکون اور راتوں کی نیند اڑنے پر بڑا پریشان تھا وہ اپنی بے سکونی دور کرنے اور چین حاصل کرنے کے لئے بہت مضطرب تھا۔ بے چینی کو دور کرنے کے لئے اس نے اپنے وزیر فضل بن ربیع کو حکم دیا کہ کوئی روحانی عامل تلاش کرو جو اس کی بے چین طبیعت میں سکون پیدا کردے۔
وزیر نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بے شمار عامل اور فاضل لوگوں سے رجوع کیا مگر ہارون الرشید کی بے چینی دور نہ ہو سکی اس کے قلب کو سکون نہ ہوسکا۔ وزیر نے ایک روز خلیفہ سے کہا کہ اب صرف ایک بزرگ ہستی بچی ہے جنہوں نے دنیا کی تمام نعمتوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے اور وہ کسی کی جاہ و حشمت کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اس صوفی بزگ کا نام فضیل بن عیاض ہے۔ خلیفہ نے جب یہ سنا تو فوراً وزیر کو ساتھ لے کر ان صوفی بزرگ کے سادہ سے حجرے میں جا پہنچے۔ بزرگ نے دروازے پر دستک سنی اور معلوم ہوا کہ خلیفہ ہارون الرشید ملنے کے لئے آیا ہے تو کچھ دیر سوچنے کے بعد حجرے میں جلتا دیا بجھا دیا اور دوازہ کھول کر حجرے کے ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ ہارون الرشید نے اندھیرے میں ٹٹولتے ہوئے سلام عرض کرتے ہوئے صوفی صاحب سے مصافحہ کیا۔ بزرگ کا ہاتھ چھوتے ہی خلیفہ نے اپنے بدن میں ایک ٹھنڈک محسوس کی پھر اپنے آنے کا مقصد عرض کیا۔ خلیفہ کی بات سن کر صوفی بزرگ نے کہا:
فرمان نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ میری امت کے بدترین علماء وہ ہیں جو حکمرانوں کے دروازے پر جاتے ہیں اور بہترین حکمران وہ ہیں جو علماء کے در دولت پر حاضر ہوتے ہیں۔ خلیفہ ہارون الرشید کو بزرگ کی باتوں سے سکون مل رہا تھا۔ بزرگ نے پھر کہا: ہارون الرشید تیرا کتنا نرم و نازک ہاتھ ہے، کاش یہ جہنم کی آگ سے بچ جائے۔ یہ سن کر ہارون الرشید کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ صوفی بزرگ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے پھر کہا: ہارون الرشید اپنے پاؤں کو ڈگمگانے سے محفوظ رکھ۔ اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے۔ مرتے وقت کوئی وزیر کوئی مشیر تیرا رہنما نہ ہوگا فقط تیرے اعمال تیرے کام آئیں گے۔ یہ سب سن کر ہارون الرشید پر رقت طاری ہوگئی۔ وزیر نے دیکھا تو بزرگ سے کہا کہ نرمی فرمائیں اس کے حال پر ترس کھائیں، دیکھیں ان کی حالت کیسی ہو رہی ہے۔ بزرگ نے وزیر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تم اور تمہارے ساتھی دربار میں ایسے حالات بناتے ہو کہ یہ گناہ پر گناہ کرتا جاتا ہے کبھی تم لوگوں نے اسے کسی غیر شرعی فعل سے ٹوکا؟ تم ایسا کر بھی کیسے سکتے ہو تمہیں تو تمہاری وزرات عزیز ہے۔
اس کے بعد صوفی بزرگ نے خلیفہ ہارون الرشید کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تجھ سے اپنی مخلوق کے بارے میں باز برس کرے گا۔ اگر اپنے چہرے کو آگ سے بچانا چاہتے ہو تو بچا لو۔ ہرگز دیر نہ کرو کل کسی نے کہاں دیکھا۔ تیرے دل میں رعایا کے کسی فرد کے لئے بھی بے انصافی، کدورت یا بغض ہے تو فوراً اپنی اصلاح کرلے۔ اس نصیحت کے بعد خلیفہ ہارون الرشید کی زندگی یکسر بدل گئی۔
خلیفہ ہارون الرشید کا واقعہ ہم سب کے لئے حقیقی نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ خواہ کوئی ریاست یا صوبے کا سربراہ یا کسی وزارت کا امین یا تعلیمی و صنعتی، معاشی اور مذہبی و فلاحی ادارے کا منتظم یا کسی بھی ادارے میں کسی منصب پر فائز ہے اور اچھے اور برے فیصلے کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس دوران دیکھنا چاہئے کہ میرٹ پر فیصلہ کیا ہے، کون زیادہ حقدار ہے۔
دراصل ہم آج اس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں فلاحی اداروں سے امداد بھی سفارش کے بغیر نہیں ملتی۔ سرکاری تو کیا غیر سرکاری امداد بھی سفارش کے بغیر نہیں ملتی۔ نہ ہی حقدار کو ترقی ملتی ہے جبکہ اعلیٰ عہدوں اور وزارتوں پر براجمان لوگوں کا کیا کہنا، ان کی کارکردگی کے بارے میں کون آگاہ نہیں۔ صوفی بزرگ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کی خلیفہ ہارون الرشید کو کی گئی نصیحت آج ان سب کو آواز دے رہی ہے جو اپنے قلب کی بے چینی کو محسوس کرتے ہیں یا اس دولت سے محروم ہیں۔
مادہ پرستی کے باعث یورپ میں بھی نفسیاتی امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ آج صرف مغرب میں ہی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں بھی ذہنی امراض بڑھ رہی ہیں۔ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن کے رزق میں تو اضافہ ہوا ہے مگر سکون میں کمی آرہی ہے۔ سائیکل والا موٹر سائیکل، موٹرسائیکل والا کار اور کار والا لگژری سواری کے چکر میں اپنا سکون تک غارت کرنے کو تیار ہے۔ کوئی تو اپنے وطن میں بینک اکاؤنٹ بھرنے پر بھی مطمئن نہیں بلکہ سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں اکاؤنٹس پر بھی اسے سکون نہیں۔ شاید اس لئے کہ ہمارے عقیدوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے رزق دینے کا وعدہ تو کیا ہے لیکن نجات کا نہیں۔
مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ ایک حکایت میں فرماتے ہیں کہ ایک گائے روزانہ جنگل میں جاکر خوب سیر ہو کر کھاتی ہے مگر رات بھر اس غم میں دبلی پتلی ہو جاتی ہے کہ صبح کو کچھ کھانے کو ملے گا بھی یا نہیں مگر اگلے دن کی فکر کرتے وقت یہ نہیں سوچتی کہ روزانہ اس کو کون رزق دے رہا ہے۔ انسان کا نفس ایسا ہی ہے جو کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔ پس ہمیں اللہ رب العزت سے قناعت پسندی اختیار کرنے کی توفیق مانگنی چاہئے اور دین کی کامل اتباع طلب کرنی چاہئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَعَدَ اﷲُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ.
النور:55
اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے (جس کا ایفاء اور تعمیل، اُمت پر لازم ہے) جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت (یعنی اَمانتِ اِقتدار کا حق) عطا فرمائے گا ‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے پہلے ایمان پھر عمل صالح کو جانشینی کی بنیاد قرار دیا۔ پس ایمان کے ساتھ عمل پر محنت و ریاضت کرنی چاہئے باقی سب کچھ فنا ہوجانے والا ہے۔ سکون قلب کے لئے قناعت پسندی، کامل ایمان اور اعمال صالح سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ طمع و لالچ سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے۔ اس ذات کے حضور عاجزی و انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور صبرو شکر کی نعمت طلب کرنی چاہئے۔ اس سے نہ صرف وہ عظیم ذات خوش ہوتی ہے بلکہ اپنی عنایات سے مزید نوازتی ہے۔
ہارون رشید کی بیوی زبیدہ خاتون بہت ہی دیندار اور صاحب علم و فضل خاتون تھی۔ ان کے محل میں ایک ہزار باندیاں چوبیس گھنٹے قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول رہتی تھیں۔ خلیفہ ہارون الرشید کی بیوی زبیدہ خاتون ایک مرتبہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ آئیں۔ ان دنوں پانی کی قلت تھی اور حجاج کرام کو خاص طور پر بہت تکلیف تھی انہوں نے جب اہل مکہ اور حجاج کرام کو پانی کی دشواری اور مشکلات میں مبتلا دیکھا تو انہیں بہت رنج ہوا چنانچہ انہوں نے اپنے اخراجات سے ایک عظیم الشان نہر کھودنے کا حکم دے کر ایک فقیدالمثال کارنامہ سرانجام دیا جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔ نہر کی کھدائی کا منصوبہ بنانے کے لئے مختلف علاقوں سے ماہر انجینئر بلوائے گئے۔ انجینئرز کے منصوبے کے مطابق سرحد سے 35 کلومیٹر شمال مشرق میں وادی حنین سے نہر نکالنے کا پروگرام بنایا گیا۔ اس عظیم منصوبے پر سترہ لاکھ دینار خرچ ہوئے۔ جب نہر زبیدہ کی منصوبہ بندی شروع ہوئی تو اس منصوبہ کا منتظم انجینئر آیا اور کہنے لگا آپ نے جس کا حکم دیا ہے اس کے لئے خاصے اخراجات درکار ہیں کیونکہ اس کی تکمیل کے لئے بڑے بڑے پہاڑوں کو کاٹنا پڑے گا، نشیب و فراز کی مشکلات سے نمٹنا پڑے گا اور سینکڑوں مزدوروں کو دن رات محنت کرنا پڑے گی تب کہیں جاکر منصوبہ پایہِ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ یہ سن کر زبیدہ نے انجینئر سے کہا: اس کام کو شروع کرو خواہ کلہاڑے کی ایک ضرب پر ایک دینار خرچ آتا ہو اس طرح جب نہر کا منصوبہ تکمیل کو پہنچ گیا تو منتظمین اور نگران حضرات نے اخراجات کی تفصیلات ملکہ کی خدمت میں پیش کیں۔ اس وقت ملکہ دریائے دجلہ کے کنارے واقع اپنے محل میں تھیں۔ ملکہ نے وہ تمام کاغذات لئے اور انہیں کھولے بغیر دریا برد کردیا اور کہنے لگیں: الہٰی! میںنے دنیا میں کوئی حساب نہیں لینا تو بھی مجھ سے قیامت کے دن حساب نہ لینا۔
البدایہ والنہایہ
مزید یہ کہ ہارون الرشید کی بیوی صاحب بصیرت اور حکمت والی خاتون تھیں۔ ایک مرتبہ خلیفہ ہارون الرشید اور اس کی بیوی دونوں دریا کے کنارے چہل قدمی کر رہے تھے۔ ایک فقیر جن کا نام بہلول دانا تھا وہ دریا کے کنارے ریت کے گھر بنا رہا تھا۔ خلیفہ ہارون الرشید کی بیوی زبیدہ خاتون نے پوچھا: بابا کیا بنا رہے ہو؟ تو بہلول دانا نے جواب دیا کہ میں جنت میں گھر بنا رہا ہوں۔ زبیدہ خاتون نے پوچھا بابا کیا بیچتے ہو؟ صوفی بزرگ نے کہا ہاں بیچتا ہوں پوچھا بابا کتنے میں بیچتے ہو فرمایا: ایک درہم میں بیچتا ہوں۔ اس سودے پر ہارون الرشید نے زبیدہ خاتون کا مذاق اڑایا کہ جنت میں گھر خرید رہی ہے وہ بھی ایک فقیر سے لیکن زبیدہ خاتون نے خلیفہ ہارون الرشید کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ رات کو جب ہارون الرشید سویا تو اس نے خواب دیکھا کہ جنت میں ایک محل ہے جس پر لکھا ہوا ہے زبیدہ خاتون۔
خلیفہ ہارون الرشید نے اپنی بیوی کا محل سمجھ کر اندر جانا چاہا تو درباریوں نے ان کو روک کر کہا جنت میں جس کا گھر ہوتا ہے کوئی بھی اس کی اجازت کے بغیر اس کے محل میں داخل نہیں ہو سکتا۔ لہذا آپ زبیدہ خاتون کی اجازت کے بغیر اس کے اندر نہیں جاسکتے۔ اس پر ہارون الرشید کی آنکھ کھل گئی۔ وہ بڑا پریشان ہوا۔ اگلے روز اس نے زبیدہ خاتون سے کہا آؤ ہم دریا کے کنارے چلتے ہیں۔ جب وہ دریا کے کنارے پہنچے تو بہلول دانا ریت کا گھر بنا رہا تھا اب خلیفہ ہارون الرشید نے پوچھا: بابا کیا بنا رہے ہو؟ فرمایا جنت میں گھر بنا رہا ہوں پوچھا بیچتے ہو فرمایا ہاں بیچتا ہوں عرض کیا بابا کتنے کا بیچتے ہو؟ فرمایا: 10 دینار کا عرض کیا بابا اتنا مہنگا۔ کل تو آپ نے ایک درہم کا بیچا تھا۔ آج 10 کا بیچ رہے ہیں۔ فرمایا: کل کے خریدار نے بن دیکھے سودا کیا تھا لیکن آج کے خریدار دیکھ کر آئے ہیں۔ اس واقعہ سے ایک پیغام یہ بھی ملتا ہے کہ پاکیزہ عورتوں کے لئے پاکیزہ مرد ہوتے ہیں۔ زبیدہ خاتون کیونکہ نیک سیرت اور صالح خاتون تھیں تو انکی زوج کو بھی پاکیزہ اور زہد عطا فرمایا۔ اگر کچھ کمی بیشی تھی تو ان کی صحبت و سنگت سے پوری فرما دی۔