پنچھی؛ پریم؛ پون اور پیسہ
دنیا اس دور کو پرانے فیشن کی طرح پیچھے چھوڑ آئی ؛ جس دور کا دل جوگی بن کر یہ گیت گاتا تھا:
’’پنچھی؛ پریم؛ پون
سیما کو کیا سمجھے رے‘‘
یعنی: پرندے؛ پیار ؛ہوا کے جھونکے
سرحد کو کچھ نہیں سمجھتے!!
اب وہ دور نہیں رہا۔ وہ دور وقت کی گردش میں گم ہوگیا۔ جس دور میں مشہور صحافی ابن انشا ء رات کو دیر سے گھر آتے ہوے اپنے قدموں کی دھن پر اس گیت کے بول بناتا آتا تھا:
’’آتی ہے پون
جاتی ہے پون!‘‘
اب بلڈر مافیا کے مفاد نے فلوک بوس عمارات بنا کر ہوا کو قید کردیا ہے۔ اب اس شہر میں وہ ہوا کہیں نہیں جو ہوا سمندر کی لہروں پر سفر کرتی ہوئی محبتوں کے گمنام ساحلوں سے آتی تھی۔
اور اب پنچھی صرف امپریس مارکیٹ کے پنجروں میں چہچہاتے ہیں۔ دو سے چار ہزار تک کے پنجروں میں کوئی ایسا گیت گاتے ہیں جس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ:
’’اے مالک!
ہم یہیں اچھے ہیں
وقت پہ دانہ بھی ملتا ہے
کسی شکاری کا بھی ڈر نہیں
اڑ کر بھی کہاں جائیں؟
جنگل بھی کہاں پائیں؟
فلیٹوں کے گھونسلوں میں
اب انسان بستے ہیں
ہم بھی ان کے ساتھ رہتے ہیں
اب تو اڑنا بھول گئے ہیں
آتا بھی تو کہاں جاتے؟
اے مالک!
ہم یہیں اچھے ہیں‘‘
جب پرواز کی آزادی پیکیج پر سمجھوتہ کرلے تب اس پرندے کو کون یاد رکھتا ہے جس کے لیے پرانے دور کے شاعر گاتے تھے:
’’عشق عقاب
پنچھی پردیسی!‘‘
اب محبت ایک سرکش جذبے کا نا م نہیں۔ اب محبت سمجھ داری سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت بن چکی ہے۔ وہ عشق جو عمر کے ایک خاص حصے میں ہوتا تھا ؛ اب وہ صرف مقبول ٹی وی ڈراموں میں پیش کیا جاتا ہے۔ اب محبت گوگول کے ناول ’’ٹارس بلبا‘‘ کا پس منظر نہیں پوچھتی۔ اب محبت بغاوت کا سبق یاد نہیں دلاتی۔ اب محبت تاج و تخت کو چھوڑ کر فقیری کا راستہ اختیار نہیں کرتی۔ اب محبت ندی کے کنارے منتظر نہیں ملتی۔ اب محبت شاپنگ مال کے ریستوران میں بیٹھ کر باتیں کرتی ہے۔ اب پیار ایک اندھے جذبے کا نام نہیں۔ اب پیار بیوپار سے زیادہ سمجھ اور سیانے پن کا تقاضہ کرتا ہے۔ اب اس احمق سے کوئی کیسے عشق کرے؟ جسے محبت کی زمانے میں ’’معصوم‘‘ کہا جاتا تھا۔
اب محبت سرحدوں سے بغاوت کے بارے میں نہیں سوچتی۔ اب وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیتی۔ اب وہ کچھ ایسا ویسا نہیں کرتی جس سے اس کی بدنامی ہو۔ اب محبت کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنے کا نام ہے۔ اب محبت سینڈل بھول جانے والی سنڈریلا نہیں۔ اور نہ ڈولا جائے اور کھٹولا نکلے والی سکینہ ہے۔ اب محبت گرین کارڈ کے لیے پیپر میرج کو محض ایک فارملٹی سمجھنے والی پریکٹیکل لڑکی ہے۔
اس لیے وہ اردو اور ہندی شعراء جو بڑی چاہت سے پنچھی؛ پون اور پریم کو سرحدوں سے ماورا حقیقت سمجھتے تھے ؛ اب وہ ایسا نہیں سوچتے۔ ان کو معلوم ہوگیا کہ اب ادب کا دور نہیں۔ اب میڈیا کا دور ہے۔ وہ میڈیا جو بتاتا ہے کہ ’’ایک کبوتر کو بھی سکیورٹی تھریٹ سمجھ کر قیدی بنایا جاسکتا ہے۔ وہ میڈیا جو بار بار اطلاع دے رہا ہے کہ دیسوں کے درمیاں پانی پر آگ بھڑک سکتی ہے۔ وہ پانی جس پر پون کی طرح سب کا حق مانا جاتا ہے۔ جب شدید بارش کے باعث برف پگھلتی ہے ؛ تب پہاڑوں سے اترنے والے پانی کے سیلابی ریلے سرحدوں کو بہا لے جاتے ہیں۔ مگر پانی گذر جاتا ہے۔ پھر سرحدوں کا وجود ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔
اور پیار !
پیار کی بات ہی کیا؟
پیار کی اوقات ہی کیا؟
وہ پیار تو اب فارمولہ فلموں میں بھی نہیں ہوتا جو پیار کبھی حقیقت میں ہوا کرتا تھا۔ اس پیار کا پتہ اب کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ اب پیار ؛ وہ محبت اور وہ عشق دماغ کا خلل سمجھا جاتا ہے۔
ہم تو اس پیار کی بات کر رہے ہیں جس کو سائنس بھی سچ مانتی ہے اور جو ابھی تک سماج جی ضرورت ہے۔ وہ پیار جو خون میں گردش کرتا ہے۔ وہ پیار جوایک حقیقت ہے۔ وہ رشتوں ناتوں کا پیار۔ وہ مقدس محبت بھی سرحدوں کے سامنے بے بس ہے۔
ایک خاندان جو ایک عمر سے سرحد پار پیاروں سے ملنے کی خواہش دل میں پالتا رہتا ہے۔ جب وہ خوابوں کو حقیقت میں بدلتا ہوا دیکھ کر بچوں کی طرح خوش ہوتا ہوا ابھی اےئرپورٹ سے نکلتا بھی نہیں۔ وہ خاندان جو ریلوے سٹیشن کے سامنے کھڑی ٹیکسی میں بیٹھتا بھی نہیں۔ تب سے حساس ادارے اس کا تعاقب شروع کرتے ہیں۔ اس دور میں غیر ملکی مسافر کے لیے قانون حرکت میںآئے تو اسے کوئی برا نہیں سمجھتا۔
قانون کی حرکت کو برا صرف اس صورت میں سمجھا جاتا ہے جس صورت میں غیرملکی مسافر غریب ہو۔ امیر کسی بھی جگہ پر اجنبی نہیں ہوتا۔ غریب کا جرم اس کے جنم سے شروع ہوتا ہے۔ اگر غیر ملکی غریب ہو تو پھر اس قانونی طور پر سرحد کراس کرنے کا عمل شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔ وہ غریب جنہیں سختی سے سمجھایا جاتا ہے کہ انہیں ہر روز تھانے میں رپورٹ کرنا ہے۔ وہ غریب جو اس شہر میں جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے جس شہر کا ویزا انہیں حاصل نہ ہو۔
اگر غیر ملکی امیر ہے تو پھر قوانین بے معنی بن جاتے ہیں۔ اس دن بھی ایسا ہوا۔ جس دن سجن جندال کا طیارہ راولپنڈی کے اےئرپورٹ پر اترا اس دن قانون کو کوئی اطلاع دینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ اس خاص مہمان کو جو گاڑی اےئرپورٹ سے لینے گئی وہ گاڑی اس پیسے سے خریدی گئی تھی جو پیسہ ٹیکس کی صورت میں اس ملک کا غریب عوام اپنے پیارے کے لیے خریدے جانے والے کفن پر بھی دیتا ہے۔ وہ مہنگی اورمحفوظ گاڑی جو غیر ملکی مہمان کو راولپنڈی سے کوہ مری لے گئی۔ اس گاڑی کو روکنے کی طاقت کس قانون میں ہے؟کون سا قانون اس گاڑی کو روکنے کی جرئت کر سکتا ہے؟ وہ گاڑی اس خاص مہمان کو اس مقام پر لے آئی جس مقام کا ویزہ اس مہمان کے پاس نہیں تھا۔ اور یہ سوچا بھی نہیں گیا۔ جب وزیر اعظم کی سفارش پر غیر ملکی مہمانوں کو ویزہ جاری کیا گیا اس وقت تک یہ فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ ملاقات کا مقام کون سا ہوگا؟ اسلام آباد یا لاہور؟ پھر فیصلہ ہوا کہ خاص مہمان کو مری بلایا جائے۔ وہ خاص مہمان اس موسم میں یہاں آیا جب کشمیر میں عوامی مزاحمت کی وجہ سے بھارتی حکمرانوں کے دماغ کا درجہ حرارت بہت بڑھا ہوا ہے۔ اس وقت پاک بھارت سرحد کراس کرنے والے مسافروں کی تعداد میں تو نمایاں کمی ہے مگر ان وفود کا آنا جانا بھی آسان نہیں جنہیں امن کا سفیر کہا جاتا ہے۔ اس وقت سرحد کراس کرنے پر سختی ہے۔مگر غریبوں کے لیے!
سجن جندال بہت امیر شخص ہے۔ وہ ممبئی کے جس گھر میں رہتا ہے اس کا نام ’’مہیشوری ہاؤس‘‘ ہے۔ وہ مہیشوری ہاؤس چار منزلوں پر مشتمل ہے اور اس کی قیمت چار ارب ہے۔ سجن جندال صرف لوہے کا بہت بڑا تاجر ہے۔ امریکہ کے بزنس میگزین ’’فوربس‘‘ کے مطابق ’’جندال فیملی‘‘ کے پاس پانچ کھرب کے اثاثے ہیں۔ وہ سجن جندال جو اس فیملی کا کامیاب فرد ہے جس فیملی کا سربراہ صرف بزنس مین نہیں پارلیامینٹیرین بھی ہے۔ سجن جندال کا بھائی بھی اقتداری مشین کا اہم پرزہ ہے۔ سجن جندال کی وجہ شہرت صرف یہ نہیں کہ اس کے پاس بہت پیسہ ہے۔ سجن جندال کا اس وقت اہم تعارف یہ ہے کہ وہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کا قریبی دوست ہے۔ اس سجن جندال کی پاکستان میں آمد اس وقت ہوئی جس وقت سرحدوں پر کشیدگی ہے۔ جس وقت بھارتی جاسوس کل بھوشن کے حوالے سے بھارت جارحانہ بیانات دے رہا ہے۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جس دن پاکستانی میڈیا پر طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے یہ اعترافات نشر ہو رہے تھے کہ پی ٹی ٹی کے پیچھے بھارت ہے۔ جس وقت احسان اللہ احسان بتا رہا تھا کہ بھارت صرف پیسہ نہیں بلکہ دہشتگردی کے ٹاسک بھی دیتا ہے۔ اس وقت اس حکومت کے خاص نمائندے سے وہ ملاقات ہو رہی تھی جو پہلے تو چھپائی گئی مگر جب اتفاق سے ایک چینل نے وہ راز فاش کردیا تب اس کی وضاحت میں یہ ’’ٹوئیٹ‘‘ جاری ہوا کہ ’’دوست دوست سے ملا‘‘
پاکستان اور بھارت میں لاکھوں دوست ایک دوسرے سے نہیں مل سکتے۔ کیوں کہ وہ غریب ہیں۔ یہ دولت مند دوست تھے۔ لوہے کا کاروبار کرنے والے اس غیر ملکی مہمان کے لیے پاکستان کے قوانین موم کی طرح مڑ گئے۔وہ غیر ملکی مہمان جو خاص مشن پر آیا تھا۔ وہ غیر ملکی مہمان جس کے بارے میں میڈیا بتا رہا ہے کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی کا خاص پیغام لایا تھا۔ وہ خاص پیغام کیا تھا؟ اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں۔ اہمیت اس الزام کی ہے جو عمران کی طرف سے عائد ہوا ہے۔ یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ وہ الازم بھی پیسے کے حوالے سے ہے۔
کیا اس حقیقت میں کسی شک کی گنجائش باقی ہے کہ سیاست سرمائے کی گردش کر رہی ہے۔ شاید یہ بات صحیح نہیں ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ سرمائے کی گرش ہی سیاست ہے۔ وہ سرمایہ جس کے سامنے سرحدوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ سرمایہ جس کے سامنے قانون بے بس ہوجاتا ہے۔ وہ سرمایہ جس کی چمک آنکھوں کو کھیرہ کردیتی ہے۔
یہ دور شعر و شاعری کا نہیں ہے۔ اگر اس دور پر شاعروں کی حکمرانی ہوتی تو ہم سرحدوں سے ماورا ہستیوں میں پنچھی؛ پون اور پریم کو شامل کرنے کے بجائے صرف ایک ہی لفظ لکھتے اور پڑھتے۔ وہ لفظ ہے پیسہ!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔