وہ کئی سال ہمارے ملک میں سفیر رہا‘ سفیر تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن وہ دانشور اور تجزیہ کار بھی ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کا مطالعہ اس کا مشغلہ ہے۔ جب وہ گفتگو کرتا ہے اور دلائل دیتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ غبار چھٹ رہا ہے اور حقیقتیں ایک ایک کرکے سامنے آرہی ہیں۔ ماضی کے تجربوں کی بنیاد پر وہ مستقبل کی ایسی پیشگوئی کرتا ہے کہ آنیوالا زمانہ نظروں کے سامنے پھرنے لگتا ہے۔
میری اس سے ملاقات ایک تقریب میں ہوئی اور میں اسکے علم و دانش کا اسیر ہو کر رہ گیا۔ جس دن مجھے اطلاع ملی کہ طویل قیام کے بعد وہ یہاں سے واپس جا رہا ہے اور اپنے فرائض منصبی اب کسی اور ملک میں سرانجام دیگا تو میں نے اس سے درخواست کی کہ روانگی سے پہلے میرے ہاں آئے اور کچھ وقت گزارے۔
میں نے اس سے پوچھا کہ ہمارے ملک میں تم نے اتنے سال گزارے‘ مشاہدہ کیا! طول و عرض میں گھومے پھرے‘ شہر قصبے اور قریے دیکھ‘ عوام اور خواص سے ملاقاتیں کیں‘ سیاست دان‘ نوکر شاہی‘ فوج سب کو قریب سے دیکھا‘ آخر تم کس نتیجے پر پہنچے ہو اور ہمارا مستقبل تمہیں کہاں اور کیسا نظر آرہا ہے؟
وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا‘ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ میرے سوال کا جواب دینا پسند نہیں کریگا تاہم کچھ دیر کے بعد اس نے میری طرف مسکرا کر دیکھا۔
”میں یہاں آنے سے پہلے بہت سے ملکوں میں رہا‘ مسلمان ملکوں میں بھی‘ مغربی ملکوں میں بھی اور مشرقِ بعید کے ملکوں میں بھی۔ میری سوچی سمجھی رائے تمہارے ملک کے بارے میں یہ ہے کہ یہاں بے پناہ ٹیلنٹ ہے‘ ترقی کے لامحدود امکانات ہیں لیکن تمہارے قومی جسم کو چند بیماریاں لاحق ہیں اور یہ بیماریاں ٹیلنٹ کو کچھ بھی نہیں کرنے دیتیں۔
پہلی بیماری تم لوگوں کی انتہا درجے کی جذباتیت ہے‘ جو تمہیں سوچنے سمجھنے سے تجزیہ کرنے سے اور دعویٰ کا ثبوت دیکھنے سے روکتی ہے۔ اسکی وجہ تعلیم کا نہ ہونا ہے یا ایک تاریخی روایت کا تسلسل ہے۔ مجھے نہیں معلوم لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام جذبات کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی نہیں۔ میں یہ سن کر حیران ہوتا ہوں کہ تحریک پاکستان میں عوام تمہارے محبوب قائد کی تقریر انگریزی میں سنتے تھے اور بغیر سمجھے لبیک کہتے تھے۔ کاش عوام ان سے یہ پوچھتے کہ ملک چلانے لے لیے ان کی منصوبہ بندی کیا تھی؟ تم لوگوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ یہی وہ عوام ہیں جو بغیر سوچے سمجھے ہر بھٹو‘ ہر جمشید دستی‘ ہر پیر سپاہی‘ ہرنجومی اور ہر تعویذ فروش کو کامیاب کراتے ہیں۔ اس جذباتیت کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ تم لوگ کسی ثبوت‘ کسی شہادت کے بغیر اپنی رائے کی درستی پر اصرار کرتے ہو اور مرنے مارنے پر تل جاتے ہو۔ کچھ لوگ آنکھیں بند کرکے طالبان کو الزام دیتے ہیں اور کچھ امریکہ کو…. اور ثبوت دونوں کے پاس نہیں ہیں اور یہ صرف ایک مثال ہے۔
تم لوگوں کو لاحق دوسری خطرناک بیماری یہ ہے کہ تم قانون کو فیصلہ نہیں کرنے دیتے اور خود فیصلہ کرتے ہو‘ یوں ہر شخص کا فیصلہ مختلف ہوتا ہے۔ جب بھی ٹریفک کا حادثہ ہوتا ہے اور ایک منٹ سے کم عرصہ میں لوگ وہاں جمع ہو جاتے ہیں تو مدعی اور مدعا علیہ دونوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ چھوڑیں‘ کوئی بات نہیں‘ کوئی ایک شخص بھی یہ نہیں کہتا کہ آپکے درمیان پولیس فیصلہ کریگی۔ آپ اس حد تک قانون سے بھاگتے ہیں کہ اپنے اسلامی قوانین کے مقابلے میں بھی ذاتی رائے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آپ کا پسندیدہ رہنما کرپشن کرے تو آپکی رائے یہ ہوتی ہے کہ سارے کرپشن کرتے ہیں‘ آپ کا پسندیدہ رہنما کسی کو قتل کردے یا کرا دے تو لاکھوں لوگوں کا فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ آخر بادشاہ قتل کراتے ہی رہتے ہیں‘ یہاں تک کہ ناجائز زمین پر مسجد بنائی جائے تو اسلامی قانون کو پس پشت ڈال کر صرف یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ کا گھر ہے‘ جہاں بھی بن جائے۔ اگر اس رویے کے بجائے تم لوگوں کا رویہ یہ ہو جائے کہ ہر معاملے میں قانون کا فیصلہ دیکھا جائے اور اپنی رائے نہ دی جائے تو تم لوگوں کی حالت ہی بدل جائے۔
تمہاری تیسری بیماری یہ ہے کہ تم لوگ دوسرے سے رابطہ صرف اس وقت کرتے ہو جب تمہارا اپنا کام ہوتا ہے لیکن جب تمہارے ذمے دوسرے کا کام ہو تو تم رابطہ نہیں کرتے۔ دنیا میں جتنی ترقی یافتہ قومیں ہیں‘ وہ اس بے حد خطرناک بیماری سے پاک صاف ہیں جس کے ذمے جو کام ہے‘ وہ اسے پورا کرکے متعلقہ شخص کو یا ادارے کو مطلع کرتا ہے اور اگرکام نہیں کر سکتا تب بھی اطلاع دیتا ہے۔ تمہارے معاشرے میں ایک غدر برپا ہے‘ سائل مسئول کے پیچھے‘ قرض خواہ مقروض کے پیچھے‘ آجر مزدور کے پیچھے بھاگ رہا ہے جس نے کسی جگہ پہنچنا ہے‘ وہ وہاں پہنچتا ہے نہ کچھ بتاتا ہے جس نے کام کر دیا‘ وہ بھی نہیں بتاتا کہ کام ہو چکا ہے جس نے کام نہیں کیا‘ وہ بھی خاموش ہے یا غائب ہے۔ یہ جہالت ہے یا غیرذمہ داری‘ جو کچھ بھی ہے‘ تمہارے وسائل کو ضائع کر رہی ہے۔
چوتھی خطرناک بیماری یہ ہے کہ تمہاری اکثریت مذہب کو ذاتی اصلاح کے بجائے مالی فائدے کیلئے استعمال کر رہی ہے اور تم لوگوں کو اس کا احساس تک نہیں۔ اسلام کا اولین مقصد فرد کی اصلاح ہے لیکن اسلام کے جو اصول فرد کی اصلاح کیلئے تیربہدف ہیں‘ انہیں آج ترقی یافتہ ملکوں کے لوگ استعمال کر رہے ہیں اور مسلمان انہیں رات دن اپنے پیروں تلے روند رہے ہیں۔ صرف ایک مثال دیکھ لو کہ وعدہ خلافی تمہارے معاشرے میں اس قدر عام ہے کہ شاید ہی کوئی شخص اسے برا سمجھتا ہے‘ جھوٹ کی وہ کثرت ہے کہ گھر‘ بازار‘ دفتر‘ سیاست‘ تجارت مسجد‘ ہر جگہ جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔ دوسری انتہاءیہ ہے کہ تاجر اپنی اشیا بیچنے کیلئے لوگوں کے مذہبی جذبات کا بے تحاشا استحصال کر رہے ہیں۔ شہد بیچتے وقت اسے اسلامی شہد کا نام دیا جاتا ہے‘ میں نے کسی ملک میں عیسائی ہندو یا یہودی شہد نہیں دیکھا۔ دکانوں کا نام مدینہ‘ مکہ‘ اسلامی اور حرمین رکھا جاتا ہے تاکہ جذبات سے کھیلا جائے۔ لالچ اور سنگدلی کی انتہاءیہ ہے کہ نہاری اور پائے تک تم لوگ اپنے رسول کے نام سے بیچ رہے ہو اور اس توہین پر کسی کو شرم نہیں آتی ہے نہ افسوس۔ مذہبی رہنماﺅں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ تمہاری آمدنی کے ذرائع کیا ہیں اور مدرسوں میں پڑھانے والے مفلوک الحال علما مدرسوں کے مالکان سے نہیں پوچھتے کہ تمہارا معیار زندگی کروڑ پتیوں جیسا کس طرح ہو گیا ہے؟
تمہاری پانچویں بیماری یہ ہے کہ افریقی ممالک کو چھوڑ کر تم شاید دنیا میں سب سے زیادہ گندے ہو‘ جتنے گندے تمہاری مسجدوں کے طہارت خانے ہیں‘ اتنا گند میں نے کسی اور مسلمان ملک میں نہیں دیکھا۔ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں‘ جب میں نے دیکھا کہ وضو کرنے کی جگہ ایک مسواک رکھا ہوتا ہے اور ہر شخص آکر اسے استعمال کرتاہے۔ تم لوگوں کو دھول اور گرد سے گھبراہٹ ہوتی ہے‘ نہ ٹھہرے ہوئے گندے پانی سے گھن آتی ہے۔ مکان تعمیر کرنیوالا تمہاری پوری سڑک پر ریت اور سیمنٹ ڈال دیتا ہے لیکن کوئی چوں بھی نہیں کرتا۔ تمہارے ٹاپ کے شہروں میں لوگ چلتی گاڑیوں سے پھلوں کے چھلکے اور سگریٹ کی خالی ڈبیاں سڑک پر پھینک دیتے ہیں اور کسی کو شرم آتی ہے اور نہ اعتراض کرتا ہے۔
کاش! تم لوگ پوری دنیا کی اصلاح کرنے کے بجائے کچھ وقت ان پانچ بیماریوں کی فکر بھی کرو جنہوں نے تمہارے جسم کو تعفن میں ڈال رکھا ہے۔