پانامہ کا جو بھی فیصلہ آئے، نواز شریف نااھل ہو یا بچ جائے۔ بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کم نہیں ہو گی۔ یہ تو سرمایہ داری نظام کے اندر رچی بسی ہے۔
عمران خان کا گروہ بھی انہیں افراد پر مشتمل ہے جنہوں نے اسی نظام میں ہر قسم کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کر کے اپنے آپ کو امیر ترین افراد کی صف میں شامل کر لیا۔ جس نے بھی سرمایہ داری نظام کے اندر ھوشیاری سے ہر قسم کی کرپشن سے کام لیتے ہوئے کام کیا اس نے اپنی دولت میں بے تحاشہ اضافہ کر لیا۔
آج پاکستان کے حقیقی مسائل پر گفتگو اور بحث کی بجائے سرمایہ داروں کے دو گروھوں کے درمیان چپقلش اور لڑائی کو ہی مختلف شکلوں میں پیش کیا جا رھا ہے۔ یہ بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کی جنگ نہیں بلکہ اقتدار اور طاقت حاصل کرنے کے
زریعے اپنے گروھوں کو مظبوط کرنے کی کوشش ہے۔
روزانہ ائل ٹینکرز لیک ہو رھے ہیں، لوگ مرتے جا رھے ہیں، مزھبی جنونی اور دھشت گرد حکمران طبقات کی موجودہ لڑائی کے دوران روزانہ چن چن کرپولیس اور فوجی افسران اور جوانوں کو نشانہ بنا رھے ہیں۔
بارشیں مسلسل عوام کی جانوں سے کھیل رھی ہیں۔ پانی کے نکاس کو کوئی مناسب بندوبست نہیں۔ کراچی کے 80 فیصد عوام انسانی فضلہ ملا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ بجلی جانے اور انے کا کوئی وقت نہیں۔ غربت اپنی انتہائ شکلوں میں بار بار سامنے آتی ہے۔
مزھبی اقلیتوں کو زبردستی مزھب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اغوا کر کے اور لالچ دے کر انسانی گردوں کی خریدو فروخت جاری ہے۔ بلاسفیمی کے نام پر انتقامی مزھبی سیاست جاری ہے۔
محنت کش طبقات کو بانڈڈ لیبر کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
صنعتی حادثات میں مسلسل آظافہ ہوتا جا رھا ہے، انسانی جانوں کی قیمت پانچ دس لاکھ ادا کر دی جاتی ہے اور جن وجوھات بنا پر حادثات ہوتے ہیں، انکو نہیں روکا جاتا۔
کسانوں کی بری حالت ہے خاص طور پر بے زمین اور چھوٹے زمین داروں کی، اوکاڑہ کے مزارعین پر زمین کی ملکیت کا مطالبہ کرنے کے "جرم" میں ان پر قتل، اقدام قتل، اغوا، بھتہ خوری سمیت دیگر سنگین جھوٹے الزامات پر مقدمات قائم کر کے جیلوں میں بند کیا گیا۔ گلگت بلتستان میں بابا جان اور انکے ساتھیوں کو عطا آباد جھیل کے متاثرین کی مدد کرنے کے "جرم" میں عمر قید کی سزا سنائی گئیں۔
یہ چند ایشوزہیں آج پاکستان میں جن کو ایڈریس کرنا لازمی ہے۔ مگر سارا میڈیا ایک ھی ایشو پر لگاہوا ہے۔
محنت کش طبقات کے لئے ضروری ہے کہ وہ سرمایہ داروں جاگیرداروں کی سیاست کو نظر انداز کر کے اپنی ٹریڈ یونینوں، سماجی تحریکوں، کسان تنظیموں اورطبقاتی بنیادوں ہر کام کرنے والےلیفٹ گروپوں اور پارٹیوں کو مظبوط اور متحرک کریں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“