یہ پانامہ کے ایک جزیرے میں اس جیل کی تصویر ہے جہان پانامہ کے فوجی آمر جزل نوریگا نے اپنی زندگی کے آخر دن گزارے۔ اس جیل کے قریب میں نے تین روز قیام کیا تھا۔
پانامہ کے سابق آمر مانویل انتونیو نوریگا 83 سال کی عمر میں انتقال کر گئے تھے
اقتدار سے بےدخلی کے بعد سابق فوجی آمر نے منشیات کی اسمگلنگ، ناجائز طریقے سے منافع خوری اور منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت امریکہ میں دو دہائیوں تک قید کاٹی
نوریگا نے 1983ء سے لے کر 1989ء تک پاناما پر حکومت کی تھی۔ وہ کئی طرح کے انسانیت سوز جرائم کے الزامات کے تحت سزا کاٹ رہے تھے تاہم جنوری میں طبی بنیادوں پر ان کی سزا کم کر کے انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔دسمبر 1989 میں ملکی فوج نے اُن کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا جس کے بعد وہ فرار ہو کر امریکہ چلے گئے تھے۔
جنرل نوریگا سے امریکی ناراضی کی کئی وجوہات تھیں جن میں پاناما میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کی مخالفت، وہاں مقیم امریکی شہریوں میں پایا جانے والا عدم تحفظ، پاناما کینل کے امریکی معاہدے کو توسیع نہ دینا، امریکی پابندیوں کے مطلوبہ نتائج کے حصول میں ناکامی اور منی لانڈرنگ جیسی وجوہات شامل تھیں ۔بش سینئر کو اپنی انتخابی کامیابی کے لئے منشیات اور منی لانڈرنگ کے خلاف کامیابی کے نتائج دکھانا تھے جس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے اور دوسری مدت کے لئے صدر منتخب ہوئے۔
گزشتہ دنوں امریکی قانون کے مطابق 76 سالہ جنرل نوریگا کو اچھے چال چلن اور ضعیف العمری کے باعث 20 سال کی سزا کاٹنے کے بعد رہائی کے احکامات ملے جس کے بعد یہ سمجھا جارہا تھا کہ سزا پوری ہونے پر اسے پاناما واپس بھیج دیا جائے گا۔ پاناما کی موجودہ حکومت نے بھی اس سلسلے میں امریکہ سے درخواست کی ہوئی تھی مگر کیونکہ نوریگا کے سینے میں امریکہ کے کئی راز دفن تھے اور امریکہ کو ڈر تھا کہ رہائی کے بعد کہیں وہ ان کے لئے بدنامی کا باعث نہ بن جائے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے پانامہ کی حکومت کی جانب سے نوریگا کو پانامہ کے حوالے سے درخواست کو مسترد کیا ۔ایک رات امریکی مارشل ایئر فرانس کے طیارے کے ذریعے نوریگا کو فرانس لائے جہاں فرانس کی حکومت نے اسے تین ملین ڈالر منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کرلیا
1983 ء سے لے کر 1986ء تک نوریگا امریکی سیکرٹ سروس سی آئی اے سے رقوم وصول کرتے رہے تھے لیکن پھر اُنہوں نے واشنگٹن حکومت کی کھلے عام مخالفت شروع کر دی۔ نوریگا کی حکومت کا خاتمہ اُس وقت ہوا، جب 20 دسمبر 1989ء کو امریکی صدر جورج بُش سینئر نے امریکی دستوں کو پانامہ پر یلغار کرنے کا حکم دے دیا۔ اس حملے کا جواز یہ پیش کیا گیا تھا کہ امریکہ اپنے شہریوں اور امریکہ ہی کی تعمیر کردہ پانامہ کینال کو بچانے کے ساتھ ساتھ منشیات کے کاروبار کے خلاف جنگ کرنا چاہتا ہے اور پانامہ میں جمہوریت کا دفاع کرنا چاہتا ہے۔
امریکی فوجیوں نے پانامہ سٹی میں ویٹی کن کے سفارت خانے کو تب تک گھیرے میں لیے رکھا ، جب تک وہاں پناہ لینے والے نوریگا نے خود کو امریکہ کے حوالے نہیں کر دیا
امریکی فوجیوں نے پانامہ ڈیفنس فورس پر پابو پا لیا جبکہ نوریگا نے کئی روز تک رُوپوش رہنے کے بعد ویٹی کن کے سفارت خانے میں پناہ حاصل کر لی تھی۔ امریکی فورسز نے اس عمارت کو گھیرے میں لے لیا اور کئی روز تک بلند آواز میں باہر سے روک اینڈ رول موسیقی بجاتی رہیں۔ بالآخر 3 جنوری 1990ء کو نوریگا نے خود کو امریکی فوجیوں کے حوالے کر دیا، جنہوں نے اُسے منشیات کی تجارت کے الزام میں مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے فوری طور پر امریکہ پہنچا دیا۔
اپنے وطن کی جیل میں نوریگا کا مسکن بارہ مربع میٹر سائز کی دو کھڑکیوں والی ایک کوٹھڑی تھی، جس کا ایک دھاتی دروازہ ہے اور جس میں ایک بستر اور ایک ٹوائلٹ کے سوا کچھ اور موجود نہیں تھا۔ پانامہ میں ستر سال یا اس سے زیادہ عمر کے قیدیوں کو اپنی سزا اپنے گھر پر گزارنے کی اجازت ہوتی ہے اور یہی اِس سابق مردِ آہن کے لیے جیل سے بچ نکلنے کے سلسلے میں امید کی واحد کرن تھی ۔ اُن کے وکلاء کی کوشش تھی کہ نوریگا کی خرابیء صحت کا حوالہ دیتے ہوئے اُنہیں بقیہ سزا اپنے گھر پر نظر بندی میں رہتے ہوئے بھگتنے کی اجازت دی جائے۔ نوریگا کو لوگ ان کے نک نام " انناس " بھی یاد کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کا چہرہ انناس سے ملتا تھا۔