:::" پانامہ کینال پر کبھی نہ بھلانے والے دو روز":::
پچھلے دنوں اپنے میکسکین دوست اور ماہر بشریات اور آثار قدیمہ اور جن کو میں پانامہ کینا ل کی تاریخ کا حافظ کہتا ہوں۔ ان کا نام ڈاکٹر/ پروفسیر کارلوس رویرا ہے ۔ یہ میکسیکو اور پانامہ کی جامعات میں پڑھاتے ہیں اور محقق بھی ہیں۔ میں نے انکے ساتھ کینال کی ایک فلم بھی بنائی ہے۔ جو پروفیسر کالوس رویرا کی ملکیت ہے۔ یہ انگریزی اور ہسپانوی زبان میں ہے۔ ڈاکٹر کارلوس وجہ سے مجھے پانامہ کینا ل کو سمجھنے میں آسانی ہوئی۔ پانامہ کینال ہے کو جدید دنیا کے عجائب میں بھی شمار کیا جاتا ہے ۔ یہ انسانی قربانیوں اور برسوں کی محنت کے بعد یہ کینال کی تعمیر ہو پائی۔یک تاریخی ریلوئے لائن جو1850ءکی دہائی میں بچھائی گئی تھی آج بھی موجود ہے اور1990ء کی دہائی میں اس سے بھی تھوڑا سا کام لیا گیا۔
پین امریکن ہائی وے پانامہ شہر اور صوبے کے دوسرے شہروں کو آپس میں ملانے کے ساتھ ساتھ سنٹرل امریکہ کو بھی پانامہ سے ملاتی ہے۔ یہاں کا سب سے بڑا پل برج آف امریکہ ہے جو بحرالکاہل کے پانامہ کینال میں داخل ہونے کے مقام پر تعمیر کیا گیا ہے جو پانامہ یونیورسٹی آف کولون سے جوڑتی ہے یہ بحراوقیانوس کے کنارے پرManzanillo Island ایک بندرگاہ اور صوبہ کولون ہی کا دارالخلافہ ہے۔ کے مقام پر ٹاکومین انٹرنیشنل ائیرپورٹ شہر کے شمالی مشرقی حصے پر واقع ہے اور یہ شہر کا بڑا ائیرپورٹ بھی ہے۔
انیسویں ویں صدی میں سینکڑوں چھوٹے جہازوں کی کی آمد ورفت رہتی ہے۔ دوہزار برس قبل 1893ء میں مکمل ہونے والی یہ نہر بنانے کا خیال سب سے پہلے پہلی صدی عیسوی میں اپولو نیئس آف تائنا(Apollonius of Tyana) نامی حکمران کے ذہن میں آیا۔ کام جان جوکھوں کا تھا،استمھس نہر مکمل کروانے سے پہلے بیمار پڑ گیا، اسی حالت میں چل بسا۔ جولیس سیزر نے یہ نہر بنانا چاہی،مگر تعمیر شروع کرنے سے پہلے ہی موت نے گھیر لیا ۔ بادشاہ کیلی جولا (Calijola)نے نہر سازی کے لیے مصری ماہرین طلب کئے ۔مصری نہر سویز بنانے کے زبردست تجربے سے مالا مال تھے ، مگر وہ نہر کی اونچائی کا تخمینہ غلط لگانے کے باعث نقشے میں غلطیاں کر بیٹھے۔ان کے نزدیک خلیج کورنتھ کی سطح خلیج سارونک سے بلند ہونے کے باعث زیریں علاقہ ،جزیرہ ایجیان (Aegean) ہمیشہ پانی میں ڈوبا رہے گا۔ابھی مذکورہ رپورٹ بادشاہ کیلی جولاکے زیر غور تھی کہ اسے بھی موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ ان دونوں بادشاہوں کی ہلاکت کے پیچھے نہر کتعمیر تھی یا نہیں ، وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ بعدازاں نیرو کی باری آئی۔جی ہاں، یہ وہی نیرو ہے جس کی بانسری مشہور ہے ۔اس نے زرعی آلے کی مدد سے مٹی کاٹ کر منصوبے کی نہر کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔6ہزار جنگی قیدیوں نے نہر بنانا شروع کی ،ابھی 10فیصد ہی مکمل ہوئی ہو گی کہ وہ بھی موت کی آغوش میں چلا گیا ۔پھر آیا جولیس سیزر ۔سیزر نے نہر میں دل چسپی لی۔اس نے استھمس کے قریب سے نہر کے لئے کھدائی شروع ہی کی تھی کہ اسے بھی قتل کر دیا گیا۔ چنانچہ منصوبہ کاغذوں میں دب گیا۔ بعدازاں ہر کولیس (Hercules)کو نہرمکمل کرنے کی سوجھی مگر ناکام رہا۔ دوسری صدی عیسوی میں سینٹر ہیروڈس ایٹی کس(senator Herodes Atticus) نے ادھورے پڑے کام مکمل کرنا چاہے،مگر ناکام رہا۔کئی سو برس اسی طرح گزر گئے۔ 1687ء میں venetiansنے پیلوپانیز پر قبضے کے بعد کھدائی کا آغاز کرنا چاہا مگر قسمت نے ساتھ بھی نہ دیا، یہ بھاری پتھر چوم کے رکھ دیاگیا۔ 7ویں صدی قبل از مسیح میں پیریان دیر Periander نامی نامی حکمران کے ذہن میں آیا۔ کام مشکل تھا اور مہنگا بھی۔ بادشاہ نے مشکل کام میں ہاتھ ڈالا مگر پھرنکال لیا!۔ وہ دونوں خلیجوں کو ملانے والا آسان راستہ بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ان کے حکم سے دونوں خلیجوں کے پتھر کاٹ کر Diolkosنامی راستہ بنایا گیا تھا۔استھمس کے دونوں کناروںپر ریمپ بنائے گئے ، جہازوں کو کھینچ کر ان ریپمس پر لایا جاتا ، وہاں سے براستہ سٹرک دوسرے حصے میں پہنچائے جاتے تھے۔ اس راستے کی باقیات آج بھی سیاحوں کی دل چسپی کا باعث ہیں۔ 1830 ء میں یونان نے خلافت عثمانیہ سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد استمھس میں نہر نکالنے پر از سر نو کام شروع کیا ۔یونانی رہنما Ioannas Aapdistrias نے نہر کی فزیبلٹی رپورٹ بنانے کا کام فرانسیسی انجینئرکو سونپ دیا
بیسویں صدی سے پہلے اگر کوئی سمندری جہاز امریکہ کے مشرقی جانب سے مغربی جانب کے کسی ملک میں جانا چاہتا تو اسے پورے جنوبی امریکا کا چکر لگا کر ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا ۔تب وہ امریکا کے مغربی ساحل تک پہنچ پاتا تھا جن ملکوں کو امریکا کے مغرب میں تجارتی سفر کرنا پڑتے تھے ان کے دل میں خیال آیا کہ شمالی اور جنوبی امریکا کے درمیان جہاں خشکی کا حصہ کم ہوکر 50 میل رہ گیا ہے اس کو کسی طرح جہاز رانی کے قابل پانی میں تبدیل کر دیا جائے تو بحر اوقیانوس سے براہ راست بحر الکاہل میں اترنے کا اسان راستہ نکل آئے گا ۔ اس وقت پانامہ کولمبیا کے زیر اثر تھا چنانچہ کولمبیا حکومت نے ایک فرانسیسی کمپنی جس نے نہر سوئز کی تعمیر کی تھی کو 99 سال کی لیز پر یہ علاقہ دے دیا لیکن فرانسیسی کمپنی کا یہ منصوبہ چند وجوہات کی بنا پر ناکام ہوا پھر امریکا نے پلان بنایا کہ دونوں سمندروں کو مدغم کرنے کے بجائے یہاں ایک میٹھے پانی کی نہر تعمیتر کی جائے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جس علاقے میں یہ نہر تعمیر کی گئی وہ علاقہ دونوں سمندروں کی سطح سے 26 میٹر بلند تھا اگر جہاز بحر اوقیانوس میں ہے تو اس کو نہر میں لانے کے لئے 26 میٹر اونچا کیسے کیا جائے اور جب وہ بحر الکاہل کے قریب پہنچے تو اسے نیچے کر کے سمندر کی سطح تک کیسے لایا جائے ؟
اس مسئلے کا جو حل نکالا گیا وہی پانامہ کینال کا عجوبہ سمجھا جاتا ہے ۔ حل یہ ناکالا گیا کہ جب جہاز بحر اوقیانوس میں اس جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں سے نہر شروع ہوتی ہے وہاں اسے ایک بڑے حوض میں داخل کرکے دونوں طرف سے بڑے گیٹ بند کر دئے جاتے ہیں پھر حوض میں اتنا پانی بھر دیا جاتاہے کہ وہ نہر کی سطح کے برابر ہو جائے اس کی وجہ سے جہاز نہر کی سطح تک پہنچ جاتا ہے اس وقت نہر کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے اس طرح جہاز نہر مں داخل ہوجاتا ہے پھر دوسرے کنارے پر سمندر کی سظح نیچے ہے لہذا جہاز کو دوبارہ حوض میں اتار کر پانی نکالا جاتا ہے اور اتنا کم کیا جاتا ہے کہ وہ سمندر کی سطح کے برابر ہوجائے پانی کے کم ہونے کے ساھ ساتھ جہاز بھی سمندر کی سطح کے برابر آجاتا ہے جہاز گزارنے کے لئے بھاری ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جو کہ 80000 سے 300000 ڈالر تک ہوتا ہے جہاز کو مصنوعی نہر سے گزارنے کا عمل تین مراحل میں طے ہوتا ہے اس طرح 50 میل کا یہ راستہ مصنوعی نہر کے ذریعے 24 تا 30 گھنٹے میں طے ہوجاتا ہے اگر یہ نہر نہ ہوتی تو جہاز کو دوسرے سمندر تک پہنچنے کے لئے پورے جنوبی امریکا کا چکر لگا کر تقریبا ایک مہینہ لگتا تھا۔ ۔ امریکی صدر روزویلٹ نے پانامہ کینال کی تعمیر میں بہت دلچسپی لی۔ وہ " بحریہ" کو پسند کرتے تھے انکو اسی سبب بحریہ کا صدر" بھی کہا جاتا ہے۔ وہ خود بھی ایک بڑے مہم جو تھے۔ وہ پانامہ کینال کو دفاعی نقطہ نظر سے بہت اہم تصور کرتے تھے۔ صدر ٹروڈو رواولیٹ نے ۱۹۰۲ میں فرانس سے اس کینال کو چالیس/۴۰ ملیں ڈالر میں خریدی تھی۔ نے یہ کینال صدر روزویلٹ پھلی بار ۱۹۳۰ میں پانامہ کینال آئے۔ اس نہر کی تعمیر میں دینا کے انجینرز، اور مزدوروں نے حصہ لیا۔ ۱۹۵۰ کے بعد جب اس کینال کی ازسر نو تعمیر کی گی تواس میں مقامی انجینرز ار محنت کشوں کے علاوہ امریکہ، اسپین، انگولا، اٹلی،آئس لینڈ، پاکستان اورپرتگال میں حصہ لیا۔ یہ ایک دلچسپ بات بھی سامنے آئی کہ امریکہ چاھتا تھا کہ یہ کینال پانامہ میں نہیں بلکہ نکاراگوئے میں تعمیر کی جائے۔ مگر یہ نکارا گوئے والا منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکا۔ ۔ پانامہ کینال کی تعمیر میں ۲۵۰۰ انجینرز، فورمین اور مزدورں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔اس کی وجہ سخت موسم ۔ سانپ، خراب پینے کا پانی اور ملیریا تھا۔ یہاں مچھروں کی بہتات ہے۔ جس پر اب بھی کنٹرول نہیں کیا جاسکا۔ ۱۹۷۷ میں امریکہ نے پانامہ کینال کے انصرام، سیکوریٹی اور مرمت کی زمہ داری لی اور اس معاہدے پر امریکی صدر جمی کارٹر نے دستخط کئے۔ دسمبر کے وسط امریکی صدر جارج بش کی انتظامیہ کے دوران امریکہ نے پانامہ پر حملہ بھی کیا تھا جس کا نام ’آپریشن جسٹ کاز‘رکھا گیا تھا جس کے دس سال بعدایک جنوری 2000ءمیں ’ٹوری جوس کارٹر‘نامی معاہدہ طے پایا تھا جس میں پانامہ کینال کا کنٹرول امریکہ سے پانامہ کے حوالے کرنے کافیصلہ کیا گیاتھا ۔پانامہ کینال انتہائی اہمیت کی حامل ہے جو کہ 48میل پر مشتمل ہے ،یہ بحر اوقیانوس کو کیبرین سی کے ذریعے بحرالکاہل کے ساتھ ملاتی ہے اور یہ سمندری تجارت کیلئے انتہائی اہمیت رکھتی ہے. پانامہ کینال کا انتظام اور انصرام Panama Canal Authority نامی ایک خودمختار ادارہ کرتا ہے۔ پانامہ کینال تعمیری تاریخ کا ایک عجوبہ ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ راقم سطور نے یہاں گہرائی سے مطالعہ کیا۔ مگر اس میں تشنگی محسوس کرتا ہوں۔ امید ہے جلد ہی دوبارہ وہاں جاوں ۔ ابھی بھی کئی سوالات میرے زہن میں ہیں ان کا کھوج لگانا ابھی باقی ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔