ڈان کو ایگزوٹ یوں تو ہسپانوی زبان کا ناول ہے لیکن اسے جدید مغربی ادب کی بنیاد سمجھا جاتاہے۔ بائبل کے بعد سب سے زیادہ اسی کے دنیا میں تراجم ہوئے۔ اس کا مصنف سروانتے تھا جو کچھعرصہ الجزائر میں قید رہا۔ یوں وہ عربی ادب سے شناسا ہوا۔ ایک روایت یہ ہے کہ ڈان کو ایگزوٹایک عرب سید احمد کی تصنیف ہے لیکن یہ ایک الگ بحث ہے۔ ہماری زبان اردو کے حوالے سےاس کا تلفظ بھی مشکل اور متنازعہ ہے۔ ہسپانوی اسے ڈان کیو ہاٹی کہتے ہیں۔ انگریزی میں یہ کواگزوٹ ہو گیا۔
اس ناول کا شہرۂ آفاق مرکزی کردار خود ڈان کو ایگزوٹ ہی ہے۔ مہماتی ناول پڑھ پڑھ کر وہ ایکتخیلاتی دنیا میں رہنے لگا تھا۔ اس زمانے کے بہادر تلوار ڈھال اور نیزہ لے کر مہمات سر کرتےتھے۔ وہ بھی گھر سے نکل پڑا۔ زرہ پہن لی۔ پڑوسن لڑکی کو محبوبہ تصور کیا جس کا لڑکی کوبالکل علم نہیں تھا۔ راستے میں پڑنے والی سرائے کو محل اور اس کے مالک کو محل کا نواب قراردیا۔ یوں وہ نائٹ (سورما) بن گیا۔ ایک غریب کسان سانچو پانزا کو اپنا ملازم بنا لیا جو اس کے ہتھیاراٹھاتا تھا۔ اس سے وعدہ کیا کہ اپنی فتوحات میں سے وہ اسے ایک جزیرہ عطا کرے گا۔
ڈان کو ایگزوٹ اور اس کا شمشیر بردار سانچوپانزا تصوراتی مہمات سر کرتے ہیں۔ کبھی پن چکیوںپر حملے کرتے ہیں۔ کبھی ڈاکوئوں کا مقابلہ کرتے ہیں‘ کبھی شہروں کو فتح کرتے ہیں‘ کبھی اجنبیعورتوں کو محبوبہ اور ملکہ تصور کرتے ہیں۔ اکثر مقامات پر انہیں مارا پیٹا جاتا ہے اور مناظرمزاحیہ ہو جاتے ہیں۔ آخر میں یہ ہیرو اپنے گائوں میں واپس آتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ اب وہدشت میں گلہ بانی کرے گا۔
لگتا ہے کہ وطن عزیز ڈان کو ایگزوٹ اور اس جیسے تخیلاتی مہم جوئوں اور تصوراتی سورمائوںکے نرغے میں ہے۔ پن چکیوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ کبھی غربت کو ختم کیا جا رہا ہے‘ کبھی دہشتگردی سے مقابلہ ہو رہا ہے‘ کبھی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ کبھیتعلیم پھیلانے کے منصوبے بن رہے ہیں۔ کبھی توانائی کے بحران کو حل کرنے کی تاریخیں دی جارہی ہیں۔ ذرا مندرجہ ذیل بیانات پڑھیے۔ اور غور کیجیے کہ ان اعلانات اور پن چکیوں پر ڈان کوایگزوٹ کے دنداں شکن حملوں میں کیا فرق ہے؟
ذمہ دار عناصر کو ہر صورت میں قانون کے شکنجے میں لایا جائے گا
بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے درندے رعایت کے مستحق نہیں
سیلاب سے متاثرہ آخری خاندان کی گھروں کو واپسی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے
شیر جاگے تو سرخی رہے گی نہ پائوڈر
عوام کو ناجائز منافع خوروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے
گراں فروشوں کو من مانی نہیں کرنے دیں گے
عوام کو لوڈشیڈنگ سے نجات دلائیں گے
انرجی بحران حل ہونے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے
میرے ہوتے کوئی عوام کا استحصال کرے‘ یہ ممکن نہیں!
حکومت توانائی بحران کو ہر صورت میں کنٹرول کرے گی
متاثرین وزیرستان کو تنہا نہیں چھوڑیں گے
دہشت گردی کے ناسور کا خاتمہ کریں گے
گراں فروشی ہرگز برداشت نہیں کروں گا
منافع کے نام پر عوام کا استحصال ناقابل برداشت ہے
اقدامات میں کوتاہی برداشت نہیں ہوگی، کاغذی کارروائی نہیں چلے گی
ٹیکس چوری روکنے کے لیے سخت اقدامات کرنے ہوں گے
زرہ بکتر‘ لمبے نیزے‘ سانچوپانزا کی اٹھائی ہوئی تلوار اور پن چکیوں پر ان بہادرانہ حملوں کےباوجود صورت حال نہ صرف جوں کی توں ہے بلکہ ہر روز ابتر ہو رہی ہے‘ توانائی کے بحران یاگرانی کے مسائل کو چھوڑ دیجیے۔ کسی بھی حکومت کے لیے امن و امان کا مسئلہ اس کی عزت کااور عزت کے بعد بقا کا سوال ہوتا ہے۔ ساتھ
ہی اس ’’مسلمہ حقیقت‘‘ کو سامنے رکھیے کہ پنجاب کی حکومت دوسرے صوبوں کی حکومتوں کےمقابلے میں کہیں زیادہ مستعد ہے! اس حقیقت کا اعتراف کبھی لندن میں سنائی دیتا ہے کبھی چینمیں اور کبھی سویڈن میں۔ مگر امن و امان کی جتنی تباہ کن صورت حال پنجاب میں ہے کراچی کےعلاوہ کوئی اور گوشۂ وطن اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پنجاب حکومت کو کامیاب ترین قرار دینےوالے ’’غیر جانب دار‘‘ سروے کنندگان اگر یہ سروے بھی کرا لیتے کہ پرائیویٹ گارڈوں کی صوبےمیں کتنی تعداد ہے تو صوبے کی برتری یہاں بھی واضح ہو جاتی! صوبے کے باقی شہروں کو توچھوڑ دیجیے‘ پنجاب حکومت کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ لاہور شہر میں کتنے غیر ملکی آباد ہیں‘اسلحہ کتنا ہے اور کون کون سے علاقے نوگو ایریا بنتے جا رہے ہیں۔
خطرناک ترین رجحان یہ سامنے آ رہا ہے کہ عوام کا ریاست سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ جہاں بھیلوگوں کا بس چلتا ہے‘ وہ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں اور ’’جہاں ہے جیسے ہے‘‘ کیبنیاد پر مسئلے کو وہیں حل کر دیتے ہیں۔ پولیس کسی بھی حکومت کا شوروم ہوتی ہے مگر پنجابپولیس کا یہ حال ہے کہ وہ جائے واردات پر بروقت نہ پہنچنے کے ریکارڈ قائم کر چکی ہے۔ یہ چنددن پہلے کا واقعہ ہے کہ فیصل آباد میں ڈاکوئوں کے پانچ رکنی گروہ نے لوٹ مار کا سلسلہ شروعکیا تو شہریوں کی بڑی تعداد اکٹھی ہو گئی۔ ڈاکوئوں نے اندھا دھند
فائرنگ کی‘ شہری گرنا شروع ہو گئے لیکن اس کے باوجود انہوں نے ہمت کی اور تین ڈاکوئوں کوپکڑ لیا۔ فائرنگ کی آواز پورے علاقے میں سنی گئی سوائے ان مقامات کے جہاں پولیس براجمانتھی۔ شہریوں نے وہی کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا یعنی دستِ خود دہانِ خود… اپنا انصاف خود…انہوں نے ڈاکوئوں پر تشدد کرنا شروع کیا۔ جب وہ ادھ موئے ہو گئے تو پولیس ظاہر ہوئی اورڈاکوئوں کو ہسپتال لے گئی جہاں وہ دنیائے فانی کو اپنے باقی ڈاکو ساتھیوں کے حوالے کر کےدوسرے جہان کو رخصت ہو گئے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ شہریوں نے ڈاکوئوں کو زندہ جلانے کیبھی کوشش کی!
سنتے ہیں کہ اگلے وقتوں میں کسی حکمران کو اپنی قلمرو میں ڈاکے یا قتل کی اطلاع ملتی تھی تووہ امن قائم کرنے سے پہلے کھانا پینا اور سونا ترک کر دیتا تھا۔ اب سارے طور اطوار بدل گئے ہیں۔ایک عقل مند نے بتایا ہے کہ اب شیر کی ایک دن کی زندگی سے گیدڑ کی سو سالہ زندگی قابلِ ترجیحسمجھی جاتی ہے۔ اب اصول وہ ہے جس سے کچھ وصول ہو۔ اب پیسہ ہاتھ کی میل نہیں ہاتھ کیزینت اور ہاتھ کی مضبوطی کی ضمانت ہے۔ کھانے پینے کا معاملہ یہ ہے کہ کھانا پینا ترک کر بھیدیا جائے تو امن و امان کی کیا گارنٹی ہے؟ ریلوے کے ایک وزیر نے ریلوے کے تباہ کن حادثے پرکہا تھا کہ میں کیوں استعفیٰ دوں میں کوئی ریلوے کا انجن ڈرائیور ہوں؟ شکارپور کے دلدوز سانحہکے فوراً بعد پرتکلف کھانے کو کمزور کھانا قرار دینے والے حکمران معترضین کا منہ بند کرنے کےلیے یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ کیا یہ حملہ ہم نے کرایا ہے کہ اپنی خوش خوراکی پر سمجھوتہ کرلیں؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“