ایک دن ڈرا ئیونگ کرتے تکان یا بوریت کی وجہ سے پلک جھپک گئی۔ غنودگی کےاس معمولی لمحے میں بہت سے بیتے دن جھپاک کر کے نظروں کےسامنے سے گذر گئے۔ انہوں لمحوں سے چنے چند دن دوستوں کی نذر۔ دعاگو : شفیق زادہ
ایک دن پہلے ہم مالی حجامت اور بیگم شاپنگ کے لئے مرینہ مال گئے ، اسی دوران بیگم صاحبہ نے بڑے شوق سے ہوم سینٹر سے دو عدد خوبصورت اِیزی چیئرزپسند کیں۔ اِن کی بناوٹ اور نفاست سے ہم بھی بہت متاثر ہوئے اور اُن کے ذوق کی داد دیتے ہوئے کہا ’ جب کبھی بچے جلد سو جائیں گے تو ہم بھی اس پر جھولتے ہوئے کافی سے لطف اندوز ہوں گے۔ ‘ اُنہوں نے فوراً ہماری امیدوں کے غبارے سے ہوا اس طرح نکال دی کہ ہماے کان سنسنانے لگے ’ جی نہیں، کافی پینے سے آپ کا بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے آپ کا موڈ بگڑتا ہے اور میری شام۔ دوم یہ کہ ہمارے افلاطون بچے ہمیں دو گھڑی اکیلا چھوڑیں گے تو ہی ہم سُکھ سے چائے ، کافی اور خاندان وغیرہ میں اضافے کے بارے میں سوچیں گے۔ ویسے بھی میں اس چیز کے بہت خلاف ہوں کہ جہاں ماں باپ ہوں وہاں بچوں کو بے وقت اور بے وجہ بالکل نہیں آنا چاہئے۔ ‘ ہم نے ان کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ’ بالکل صحیح کہا تم نے، بلکہ میں تو سمجھتا ہوں جہاں بچوں کا باپ ہو ، وہاں بھی بچوں کو نہیں صرف ان کی امّاں کو آنا چاہئے ۔ مگر تم ہو کہ ہر وقت ملازمہ کو صفائی کے بہانے بھیج کر ہماری جاسوسی کراتی رہتی ہو۔ ملازمہ کے آنے سے کمرہ تو صاف ہو جاتا ہے مگر نیت خراب ہوجاتی ہے۔‘ مذاق میں کہاگیا آخری جملہ بہت سنجیدہ لیا گیا تھا جس کا اندازہ ہمیں کرختگی سے کیے گئے ان کا اگلا سوال سن کر ہو گیا تھا’ کریڈٹ کارڈ لائے ہیں آپ؟‘ بیگم کی شاہ خرچیوں کا بوجھ ہماراکریڈٹ کارڈ مردانہ وار اور اس کا بِل ہم مردہ دلی سے اُٹھا رہے تھے ۔ مرد انگی اور مردہ دلی کے درمیان جو ذات پھنسی یہ یہ بوجھ اُٹھا رہی تھی،اس کے بارے میں بیگم کی رائے تھی کہ ’بہت ناشکری ہوتی ہے ( موئے مردوے ،ہنہ!)۔‘
ایک دن بیگم سے شرط لگ گئی تھی،ہم نے پوچھا کہ ایک رپے میں کتنے آنے ہوتے ہیں، پہلا جواب تھا جتنے آنے آ سکتے ہیں اتنے آنے ہوں گے۔ ہم نے گھور کر دیکھا تو پہلے سے بڑھ کر اعتماد سے بولیں ’جتنے ہوسکتے ہیں اُتنے ہی ہوتے ہیں‘۔ ہم نے اکسایا تو کچھ دیر سوچتی رہیں اور پھر بولیں ’سو آنے‘۔ ہم ہنس پڑے تو شک سے ہماری طرف دیکھا اور پوچھا ’ ذیاد ہ ہیں یا کم‘۔ ہم نے کہا ’ کافی ہیں، مہینے کا خرچ کل آیئگا‘۔ مطمئن ہوتے ہوئے بولیں’ شرط ہارنے کے پیسے نکالیں جلدی سے‘۔ ہم نے پیسے تو دئے نہیں مگر ان کی حساب دانی کےاعتراف میں جھٹ ان کے گالوں پر’ پرامسری نوٹ‘ ثبت کردیا کہ سند رہے اور بہ وقت ضرورت کام آئے۔ وہ پھر بھی ناراض ہو گئیں، حالانکہ ہم تو برسوں سے پرامسری پریم نوٹوں پر ہی جی رہے ہیں، ہم نے تو کبھی برا نہیں منایا۔
ایک دن ڈنکے کی چوٹ میں دعو ی ٰ کرنے لگیں کہ ’ میں نے آج تک اپنے ماں باپ کو تنگ نہیں کیا‘ ۔ ہمارے منہ سے بے اختیار نکل گیا، بالکل درست فرمایا آپ نے، کیوں کہ آپ نے ، اپنے نہیں ہمارے والدین کو آوازار کیا ہے۔ روز رخصتی سے اج تک آپ کے والدین تو بلا ٹلنے کی خوشی میں آپ کی بلائیں اُتارنے نہیں تھکتے۔ ان کی دان کردہ چھوئی موئی بوجھ سےتو کندھے اور نظر تو ہمارے جھکے ہوئے ہیں۔
ایک دن ہمارے ایک دوست اپنی بیوی کی ناصحانہ طبعیت کا گلہ کر رہے تھے۔ ہمیں توان کا شکوہ کرنا بہت برا لگا، نہ جانے لوگ بیویوں کی ڈانٹ ڈپٹ کا برا کیوں مان جاتے ہیں۔ آخر وہ ہماری بھلائی کے لیے ہی تو سختی سے پیش آتی ہیں تاکہ ہم عملی زندگی میں کامیا ب ہو سکیں۔ ظاہر ہے باہر کی دنیا کوئی گھر کا حلوہ تو ہے نہیں کہ منہ میں رکھا اور گُھل جائے ، جناب! لوہے کا چنا ہے کہ دانت کے ساتھ داڑھ بھی جا سکتی ہے۔ اگر ہم شوہروں کو گھر میں ناز براداری کی خوامخواہی فیسیلٹی مل جائے تو ہم بگڑ نہ جاویں؟ سمجھدار بیویاں( جیسے کہ موصوفہ بیگم) یومِ ابتدا ہی سے شوہرانہ ٹریننگ کا پروگرام شروع کر دیتی ہیں جس میں بالآخر فائدہ ’شوہران ‘ کا ہی ہوتا ہے کہ محلے اور دفتر میں روا رکھے گئے نارواسلوک سے دل نہیں ٹوٹتا اور نہ ہی خودکشی کرنے کا من کرتا ہے۔ عملی زندگی کی سختیاں جھیلنے کی عادت ہوجاتی ہے جو آگے چل کر ازدواجی زندگی کی کامیابی میں بہت کارآمد ثا بت ہوتی ہے۔ یہ بیگم کی بھرپور توجّہ ہی ہے جس کی پوچھ گچھ کے خوف کی وجہ سے ہم ’ شوہرز‘ اپنے دونمبر دوستوں سے کوسوں دور رہتے ہیں ۔
ایک دن بیگم نے پاؤں پٹختے ہوئے ہماری گھریلو چپل کے کَپل کو چٹاخ سے ہمارے سامنے پٹخ کر کہا ’ اب اگر یہ یہاں سے ہلی تو پھر گھر سے باہر ہی جا ئے گی‘۔ ہم نے کہا ’’ کمال کرتی ہیں آپ، اس کا تو مصرف ہی گھر کے اندر ہے، باہر تو ہمارے ساتھ آپ جاتی ہیں‘۔ پھر کیا ہونا تھا ، وہ جھٹ سے ناراض ہو گئیں اور کہا کہ ’بچےّ تو بچےّ ،باپ بھی چیزیں پھیلانے کے ماہر ہیں۔‘ ہم نے معنی خیزی سےمسکرا کر بیگم کی آنکھوں میں جھانکا تو وہ تَلملا کر کمرے سے باہر نکل گئیں۔ وہ نکلتے نکلتے بھی شرم سے بڑھتی گالوں کی گلابی چھپانے میں ناکام رہی تھیں۔ قسم لے لیجئے جو کبھی ہم نے بیگم کو خود سے زیادہ موٹی سمجھا ہو۔
ایک دن ہمارے بے ترتیب اور بڑھے بالوں کو دیکھ کر ہم سے پوچھا گیا ’آپ کو ان لٹوں سے پریشانی نہیں ہوتی‘۔ ہمار اجواب اثبات میں تھا۔ فوراً بولیں ‘جب پریشانی ہوتی ہے تو آپ انہیں جھٹک کر پرے کیوں نہیں کرتے۔‘ ہم نے اپنے غیر بگڑے بالوں کو بھی آوارہ کرتے ہوئے ان سے کہا ’دیکھو ، پریشانی توہمیں تمہاری موجودگی سے بھی ہوتی ہے مگر ہم تو تمہیں کبھی نہیں جھٹکتے۔ رہی بات کہ ہم اس حال میں کیوں رہتے ہیں، تو میری نظرمیں اس سوال سے زیادہ اس بات کو جاننے کی ضرورت ہے کہ ہم اس حال تک پہنچے کیونکر؟ ‘۔ ان کی سوالیہ نظروں کو پڑھتے ہوئے ہم نے پھر کہا ’اس کی وجہ بہت سادہ ہے ،ہمیں دیکھ بھال کا وقت تو آپ نے بچوں اور گھر کی دیکھ ریکھ میں وقف کر دیا ہے ۔ اس صورتحال میں ہم نے سوچا کہ ہماری روتی صورت نہ سہی، ہمارے الجھے اور بگڑے بال دیکھ کر ہی آپ چند لمحوں کے لئے ہماری طرف متوجہ ہو جائیں گی، اور بعینہ ایسا ہی ہوا بھی‘ ۔ ہم اپنی بات کا اثر ان کے چہرے پر دیکھ کر مسکرائے تو کچھ نہ سمجھنے کی ایکٹنگ کرتے یہ کہکر کمرے سے باہر چلی گئیں’ آپ مرد ذات بہت ناشکری ہوتی ہے، جتنا بھی کرو کم ہے۔‘ ان کے جانے کے بعد ہم نے ایک بار پھر مکرر ارشاد کرتے ہوئے اپنے مرد ذات ہونے کا شکر ادا کیا۔
ایک دن وہ دن بھی بالا آخر ہوا ہوئے جب دھان پان سی بیگم کا صرف پاؤں بھاری ہوا کرتا تھا ، اب بیگم پاؤں بھار ی نہیں کرتیں بلکہ وہ خود نہ صرف بھاری بلکہ بھر کم بھی ہیں کہ اگر چاہیں تو ہمار ا بُھر کس نکالنے میں لمحہ بھی نہ لگائیں۔ شادی کے بلوغت کی حد میں پہنچنے کے بعد ان کے سسرائیلیوں کا وزن بھی ان ہی کے پلڑے میں پڑتا ہے۔ لیکن ہم پھر بھی خوش ہیں کہ وہ بھاری پڑنے کے باوجود ہم پر ہاتھ ہلکا ہی رکھتیں۔ اس ایڈونچر کی جانب دھیان نہ دینے کے لیئے ہم ان کے اَبھاری ہیں۔ ورنہ ہمارے دل میں تو برسوں سے یہ خواہش دبی ہے کہ بیگم ایک بار پھر اپنے موجودہ وزن کی طرح اپنا پاؤں بھی بھاری کریں اور ہم پنساری کی دکان جا کر شرما شرما کر اِملی اور کھٹ مِٹھی گولیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی نذر کریں۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ بیگم نے بغاوت کر دی ہے اور ہماری یہ خواہش اب کبھی پوری نہ ہوگی مگر پھر بھی دل کے کسی گوشے میں یہ چنگاری سلگتی رہتی ہے کیوں کہ دل تو بچہ ہے جی،من تھوڑا کچّا ہے جی۔
ایک دن بیگم نے بہت مستحکم اور پُر یقین لہجے میں ہمیں بتایاکہ’’ پچھلے اٹھائیس سالوں میں آپ بالکل نہیں بدلے، ویسے کے ویسے ہی رہے۔ وہی غیر اثر انگیز انداز، غیر متاثر کُن شخصیت،موجود ہوتے ہوئے بھی غائب غائب سے، آپ کا آدھا گنجا سر، مڑے تُڑے کان، پکوڑہ سی ناک، غیر مساوی اور بے ترتیب مونچھیں اور ایک دوسرے کو دیکھتی ہوئی آنکھیں۔ہم کئی ہفتوں تک بیگم کے بیان کردہ عجوبے کو آیئنے میں ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کرتے رہے ۔ بالاآخر تھک ہار کر چپکے بیٹھ گئے کہ چلو بیگم نے ہمیں اتنے غور سے دیکھ تو لیا جب کہ گزرے برسوں میں ہم نہ خود کودیکھ سکے اور نہ ہی آئینے کو کہ خود پر غور کر سکیں۔ ہمیں تو روٹی اور روزگار کے رگڑے نے ریس کا گھوڑا بنا کر رکھ دیا تھا۔ اب اس بڑھاپے میں خود انحطاطی کے وجوہات کو جان کر ہم کسی بھی خوداصلاحی پروگرام کا فعال حصّہ نہیں بن سکتے۔ یہ سب سن کر ہم نے جب بھی آیئنہ بینی کی کوشش کی، ہمیں تو اس میں کوئی اجنبی عکس ہی نظر آیا، کم بخت آیئنہ بھی ہمیں ہم ہی سے چھپانے لگا تھا۔ ہم نے بیگم سے یہ ضرور پوچھا کہ شادی کے چودہ سال کے بن باس کو دو سے ضرب لگا کر اٹھائیس کیوں کر دیا؟ تو جواب ملاکہ عمر قید میں جرم کردہ گُنی گناہگارکو جو چودہ سال ملتے ہیں وہ آدھے ہو کر سات رہ جاتے ہیں مگر ناکردہ گناہوں کی پاداش میں یہ سزا دگنی ہو جاتی ہے۔ وہ کیا سمجھیں اور کیا سمجھاناچاہتی تھیں،’ میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا‘ والا معاملہ ہو گیا تھا۔ ہم گہری سانس بھر کے بیوقوفی چھپائے سیانے بن کر چپ سادھے بیٹھے رہے۔
ایک دن بیگم نے شکایت کی کہ ہم ان کی اپنی سہیلیوں سے گئی خفیہ باتیں سنا کرتے ہیں اور پھر لکھ بھی لیتے ہیں۔ ہم نے جواب دیا کہ ایک توجن باتوں کو آپ خفیہ کہتی ہیں وہ زبان زدِ عام ہیں ، محلے کی سب خواتین ، ملازماؤں اور ان کے ہز بیند حضرات کو پتہ ہیں ، دوسرے یہ کہ ہوتی بہت دل چسپ و مصالحہ دارہیں۔ اب تم لوگ اتنے مزے مزے کی حرکات و بات کرو اور پھر ہما رے ہی کان کے نزدیک اپنے موبائل فون پر ایک دوسرے کو بلند سر گوشیوں میں سناؤ اور ہم اسے ضابطہء تحریر میں بھی نہ لائیں۔ یہ تو ہو نہیں سکتا ورنہ ’کشت زعفران‘ کے لیے زعفرانی کشتے کا مواد کہاں سے ملے گا۔ ہمارے جواب میں لفظ ’ کشتہ ‘ سن کر وہ بدک گئیں ، ہاتھ جوڑ کر کہنے لگیں ‘بس کرو بڑے میاں! بڑھاپے کا نہیں تو کم از کم رمضان کا ہی لحاظ کر لو‘ ۔ ہم کچھ وضاحت دینے سے بہتر سمجھے کہ رمضان کے لحاظ کرتے تراویح کو نکل جائیں۔ تمار راستے ہم لاحول پڑھتے یہی سوچتے رہے کہ بیویاں اپنی دوستوں کو سہیلی کیوں بولتی ہیں، ہمیں تو ان کی کوئی بھی سہیلی سہل نہیں لگی ۔
آج عرصے بعد بیگم ہمارے پہلو میں لیٹنے کے بعد سرک کر ہماری طرف بہہ کر آگئیں اور اپنا سر ہمارےسینے پر ٹکا کر اپناہاتھ ہماری پھولی ہوئی توند پر رکھ دیا ۔ بھلا ہو اس پلپلے گدّے کا جس نے اپنی ہستی کو پچکاکر اپنی اخیر عمر میں ان کے بہاؤ کا اُمید افزا سامان پیدا کیا۔ ان کواپنے نزدیک محسوس کر کے ہماری سانس تیز تیز چلنے لگی جس کی وجہ سےتوند پر اتار چڑھاؤ کا جو تھلتھلاتا جوار بھاٹا شروع ہوا اسے بیگم نے ہلکے ہلکے تھپتھپا کر پر سکون کرنے کی کوشش کی۔ یہ اور بات کہ ہم جیسا پرانا مگر نظر انداز چاول، اس تھپکی کو موقع پرست ڈرائیور کی مانند’ ڈبل اے استاد‘ سمجھا۔ ہم نےبھی فرطِ محبت میں اپنے ضبط کی چادر سے پاؤں نکال ہاتھ پھیلا کر بیگم کو سمیٹنے کی کوشش کی۔ اُنہوں نے جیسے ہی ہماری ہتھیلیاں یا بڑھے ناخن اپنی پیٹھ پر محسوس کیے تو فوراً بولیں ’ اب کُھجا بھی دیں‘۔ ہم بہت خلوص سے کئی منٹوں تک ان کی پیٹھ سبک خرامی سے کھجاتے رہے ۔ جب وہ اچھی طرح ’ کُھج‘ گئیں تو منہ کے ساتھ ساتھ ہمارے ارمانوں پر بھی پانی پھیر کر خراٹے بھر تی نیند کی وادیوں کی سیر کو اکیلے ہی چل نکلیں۔ ہم دیر تک ان کی واپسی کے منتظر رہتے ہوئے نیم اندھیرے کمرے میں امید کی ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے۔ ہماری وہ رات بھی کسی وائپر کی طرح دائیں بائیں کروٹیں بدلتے ہی گذری۔ کبھی سوچتے ہیں کہ اگر کروٹ بدلنے کا سہارا نہ ہوتا تو ازدواجی بے عملی کی وجہ سے بسے بسائے مگر بیکار بستر پر بے سُدھ پڑے پڑے ’بیڈ سورز‘ کا شکار ہونے مین ذیادہ وقت نہ لگتا۔
https://www.facebook.com/groups/nairawayat/permalink/1819948491569466/