علی شاہد ؔ دلکش ایک متحرک اور فعال شاعر و ادیب ہیں۔ عالمی ادبی سطح پر درونِ ہندوستان اور بیرون ملک دیگر ممالک کے ادبی پلیٹ فارم پر ان کی منظوم تخلیقات و نثر نگاری دیکھنے کو ملتی رہی ہیں۔ آپ کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج ، مغربی بنگال، ہندوستان میں شعبہ کمپیوٹر سائنس میں درس و تدریس کے عہدے پر فائز ہیں۔ اردو زبان و ادب کا اولین آن لائن ماہنامہ ‘کائنات’ کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر ہیں۔ ماہنامہ طلوع ادب، پاکستان اور ہفت روزہ بروقت، کشمیر، انڈیا سے بھی لٹریری طور بر وابستہ ہیں۔ روزنامہ سری نگرِ جنگ، کشمیر کے مستقل کالم نگار بھی ہیں۔
رواں مصائبِ فلسطین کے مدنظر علی شاہد ؔ دلکش کی اردو شاعری میں فلسطینی عوام اور اس مقدس سرزمین سے یکجہتی اور عقیدت کا دلی اظہار قابلِ ذکر ہے۔ موضوعِ گفتگو علی دلکش کی یہ مرصع غزل ہے جو فلسطین اور اس سے متعلق و منسوب ہے۔ اہل فلسطین کی محبت میں لکھی متذکرہ غزل کا ہر شعر اپنے اندر ایک علیحدہ معنویت لیے ہوئے ہے۔ اشارے کنائے اور استعارے کے ساتھ ساتھ شعریت بھی خوب بے۔ اس غزل کا ہر شعر الگ الگ معانی کو ظاہر کرتا ہے۔
اس غزل کا آغاز بیت المقدس کے مکینوں کے لیے پرتپاک سلام اور خراج عقیدت کے ساتھ ہوتا ہے، جس میں روحانی تعلق کا احساس ہوتا ہے۔ علی شاہد ؔ دلکش کی اس غزل میں فلسطینیوں کی معصومیت اور بہادری کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے جنہوں نے انصاف اور آزادی کی جدوجہد میں مشکلات اور قربانیاں برداشت کیں۔ اس نظم میں مسجد اقصیٰ کی اہمیت اور شہداء سے گہرے عقائد کا بھی اعتراف کیا گیا ہے۔
غزل کا تخلیقی عنصر موضوعِ فلسطینی کاز اور مصیبت میں اس کے عوام کا ناقابل تسخیر جذبہ ہے۔ یہ فلسطینی آبادی کے انصاف اور آزادی کی تلاش اور ان کے ثقافتی اور روحانی ورثے کے تحفظ میں جدوجہد، قربانی اور اٹل ایمان کو اجاگر کرتا ہے۔
مرصع غزل کو مربوط اور تسلسل کی ایک سیریز کے طور پر تشکیل دی گئی ہے۔ ہر ایک شعر میں سلام عقیدت ، توجہات اور ستائشی کلمات شامل ہیں۔ شاعر کا لہجہ فلسطینی عوام کے لیے احترام، تعریف اور گہری ہمدردی کا ہے۔ شاعر پوری غزل میں ایک مستقل تال اور بہاؤ کو برقرار رکھتا ہے، جس سے اس کے جذباتی اثرات اور غزل کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے۔
‘فلسطین’ سے منسوب مرصع غزل میں مندرجہ ذیل ادبی آلات بھی استعمال کیے گئے ہیں:
تصویر کشی: اس غزل میں فلسطین کی کچلی ہوئی معصومیت، عزم کے مضبوط درختوں اور ظلم کے طوفان میں جلتے چراغوں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ یہ منظر کشی قارئین میں ایک طاقتور جذباتی ردعمل کو جنم دیتی ہیں۔
علامتیت: بیت المقدس، مسجد اقصیٰ، اور قبلہ اول فلسطینی جدوجہد، ان کیب روحانی اہمیت اور ان کے اٹل عزم کی علامتی نمائندگی کرتے ہیں۔
“قبلہ اول سے محبت کرنے والی روحوں کو سلام” جیسے جملے میں دہرائی جانے والی آوازوں کا استعمال متذکرہ غزل میں ایک سریلی کیفیت کا اضافہ کرتا ہے۔
استعارہ: شہداء کا معصوم فرشتوں سے موازنہ اور فلسطین سے محبت کرنے والوں کے خون کو یقین کی علامت سے منظوم نگاری کی گہرائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ نِڈر ہو کر معرکہ آرائیاں کرنے والے فلسطین کے غازیوں اور جواں مردوں کو عزم آہن لیے مضبوط شجر کا استعارہ بھی لا جواب ہے۔
مخصوص غزل کا آغاز بیت المقدس اور فلسطین کی گلیوں اور شہریوں کو سلام پیش کرتے ہوئے مزید احترام اور تعلق کا رشتہ قائم کرتے ہوئے ہوتا ہے۔ “پاک دامن / خالص پاؤں” کا حوالہ بے دردی سے کچلنے والے فلسطینی عوام کی معصومیت اور کمزوری کی علامت ہے جنہوں نے مصائب کا سامنا کیا ہے۔ شاعر نے فلسطینیوں کی نڈر مزاحمت کو خوب خراج تحسین پیش کرتا ہے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کو عمدہ خراج عقیدت بھی۔
“عزم آہن لیے مضبوط درخت” نیز “ظلم کے طوفان میں جلتے چراغ” کی تصویر کشی انصاف کے حصول میں فلسطینیوں کے غیر متزلزل جذبے کی حقیقی و سچی نشاندہی کرتی ہے۔ قابل ذکر طور پر فلسطین سے محبت کرنے والوں کے خون کو ناحق بہائے جانے سے تعبیر کیا گیا ہے، جس میں لوگوں کو درپیش ناانصافیوں اور مصائب پر زور دیا گیا ہے۔
غزل کا اختتام قبلہ اول کی طرف جھکنے، مسجد اقصیٰ کے زائرین کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ہی فلسطینی کاز کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اعادہ کرتے ہوئے ہوتا ہے۔
مجموعی طور پر موضوعِ بحث غزل کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ علی شاہد ؔ دلکش کی شاعری فلسطین کی محبت و حمایت کا ایک متحرک اور ہمدردانہ اظہار ہے، جو جذبات کی گہرائی اور اس کے لوگوں کے قوتِ برداشت کو بیان کرنے کے لیے ادبی آلات کا استعمال کرتی ہے۔ راقم الحروف (رحمت عزیز خان چترالی) کا کھوار ترجمہ علی شاہد ؔ دلکش کے فلسطین کے لیے طاقتور شاعرانہ پیغام کی رسائی کو مزید وسعت دیتا ہے، جس سے چترال، مٹلتان کالام اور گلگت-بلتستان کے وادی غزر کی کھوار برادری کے وسیع تر قارئین تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے۔ اہل فلسطین سے منسوب علی شاہد دلکش کی غزل مع کھوار ترجمہ زیر نظر یوں ہے:
سر زمیں بیتِ مقدس کے مکینوں کو سلام
اے فلسطین ترے شہر کی گلیوں کو سلام
کھوار:بیت المقدسو سرزمینہ ہال باک رویانتے مه سلام، اے فلسطین ته شہرو گنزولانتے سلام
پاک دامن جو بے رحمی سے کچل ڈالے گئے
اَن گِنے پھول کی معصوم سی کلیوں کو سلام
کھوار:پاکدامن روئے کا کہ بے رخمیو سورا لیچھی مارونو ہونی، بے اشمار گمبوریان معصوم بڑوکھانتے مه سلام
غاصبوں سے لڑے جی جاں سے نڈر ہو کے سبھی
جاں ہتھیلی پہ لِیے سارے شہیدوں کو سلام
کھوار:یہودیان سوم ژنگ آرینی نو بوھرتوئیی سف، ژانان پھانہ لاکھیرو سف شہیداننتے سلام
ہیں ڈٹے ظلم کے طوفان میں جتنے بھی شجر
عزم آہن لیے مضبوط درختوں کو سلام
کھوار:ظلمو طوفانو پروشٹہ روپھی شینی کندوری کی کآن مان، چومرو غون ڈنگ جذبہ گنیرو ہے مضبوط کانانتے سلام
ظلم کے خون سے بچے ہوئے جتنے بھی شہید
ان فلسطین کے معصوم فرشتوں کو سلام
کھوار: ظلمو لیاری کندوری کی پھوپھوک شہید ہونی، فلسطینو ہے معصوم فرشگاننتے سلام
بیت اقدس کے لیے دست دعا ہے جو اُٹھا
قبلہ اول سے محبت بھرے جذبوں کو سلام
کھوار:بیت المقدسو بچے کاکی ہوستان اسنیے دعا آریر، قبلہ اولو بچے محبتاری ٹیپ جزبانتے سلام
تیز اور تند ہوا میں بھی ہے روشن جو چراغ
ظلم کی آندھی میں ان جلتے چراغوں کو سلام
کھوار:تیز اوچے تھن ہوا دی کیہ دیوا کی روشت شیر، ظلمو تیز طوفانہ ہے چوکیرو چراغانتے مه سلام
خوں محبانِ فلسطین کا ناحق جو بہا
ناز بردار شہیدوں کے عقیدوں کو سلام
کھوار: فلسطینو سوم محبت کوراکان کوس کی ناحق لیئی یو چوٹیتائے، ہتے ناز بردار شہیدانن عقیدانتے سلام
اولیں قبلہ پہ سر سب کا جو شاہد ؔ ہے جھکا
مسجدِ اقصیٰ کی اطہر گلی کوچوں کو سلام
کھوار:اے شاہد قبلہ اولو معژیتہ سفان سور سجدا بغانی، اقصو معزیتو پاک گنزول اوچے کوچاہانتے سلام
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...