پیدائش: 13 مارچ 1941ء
انتقال:9 اگست 2008ء
محمود درویش : عربی زبان و ادب کے نمائندہ شاعر
تتلی کا بوجھ، ایک شعری مجموعہ ہے، جس کے خالق فلسطینی شاعر محمود درویش ہیں، اب وہ اِس دنیا میں نہیں رہے لیکن یہ اقوامِ عالم پر قرض ہے کہ اُن کی تتلی کو بوجھ سے نِجات دِلائیں۔ تتلی ایک استعارہ ہے اُن کے وطن فلسطین کے لئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمود دورویش کو عصر حاضر کےعربی ادب کا نمائندہ شاعر تصور کیا جاتا ہے۔ اُن کی عظمت کا گواہ تو آنے والے زمانہ ہو گا کہ اُن کے لکھے شعر کتنا عرصہ زندہ رہتےہیں لیکن ناقد ین اُن کو بیسویں صدی کے انتہائی معتبر نام قرار دیتے ہیں۔ اُن کی شاعری میں جنتِ گُم گشتہ یعنی سن اُنیس سو اڑتالیس اور پھر سن اُنیس سو سڑسٹھ میں مقبُوضہ ہو جانے والےارضِ فلسطین کا دُکھ اور صدمہ کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
تیرہ مارچ سن اُنیس سواکیالیس میں شمالی اسرائیل کے علاقے گلیلی کے ایک گاؤں میں پیدا ہونے محمود درویش کا کئی برسوں عارضہ قلب میں مبتلا رہنے کے بعد نو اگست کو انتقال ہوا۔ اُن کے مداحوں کا خیال ہے کہ فلسطین کی آزادی کا خواب اُن کو قبر میں بھی چین کی نیند سونے دے گا۔ مغربی کنارے میں محمود عباس کی حکومت تو محمود درویش کو فلسطینی ثقافت کا چلتا پھرتا شاہکار تصور کرتی ہے۔ وہ فلسطین کے قومی ترانے کے بھی خالق ہیں۔ سن اُنیس سو ترانوے میں اُنہوں نےخود سے فلسطینی عوام کے لئے ایک ایک منشور بھی مرتب کیا تھا۔ وہ اوسلو معائدے تک فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کی ایکزیکٹو کمیٹی کے رکن رہے۔
محمود درویش جس طرح ایک بے باک شاعر تھے ایسے ہی اُن کے سیاسی نظریات تھے۔ ہر معاملے پر وہ ایک مخصوص نکتہ نظر رکھتے تھے اور اُن کا مسلسل اظہار بھی کرتے رہےے۔ وہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے حامی ضرور تھے مگر وہ اِس میں سخت مؤقف کے حامی رہے۔ فلسطینی قیادت پر تنقید کرتے رہے۔ حماس اور الفتح کی اندرونی چپقلش کے بھی کڑے ناقد تھے اور اِس کو فلسطینی مسئلے کے لئے سخت نقصان دہ تصور کرتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ عربی شاعری کا دامن قصیدہ گوئی یا مرثیوں سے بھرا ہے۔ امراؤ القیس سے لیکر محمود درویش تک مرثیے کا رنگ بہر طور عربی شاعری میں بہت زیادہ میّسر ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اِس کی صورت بدلتی رہی ہے کبھی یہ عزیزوں کے لئے تو کبھی وطن سے جدائی پر۔ دوسرا پہلُو درویش کی شاعری میں بدرجہ اتم دکھائی دیتا ہے۔ اُن کے تیس کے قریب شاعر کے مجموعے ہیں اور تقریباً ہر شعری سطر مقبوضہ فلسطین کے دُکھ کا اظہار کرتی ہے۔ اِسی مناسبت سے اُن کو فلسطین کی سانس کہا گیا اور تمام فلسطینیوں کے احساسات درویش نے اپنے شعروں میں سموڈالے ہیں۔
اُن کی شاعری کی طرح اُن کے مجموعوں کے نام بھی چونکا دینے والے ہیں مثلاً بے بال و پر پرندے، زیتون کے پتے، انجام شب، بندوق کی روشنی میں لکھنا، گلیلی میں پرندے مر رہے ہیں، دور کی خزاں میں اترنے والی ہلکی بارش، اجنبیوں کا بستر اور وہ ایک جنت تھی وغیرہ وغیرہ۔
کسی طور یہ کہا جاسکتا ہے کہ درویش نے قدیمی عربی شعراء کی شعری روایت کو پوری طور اپنے اوپر غالب نہیں ہونےدیا۔ اِس کی ایک اہم اور بنیادی وجہ معروضی حالات کا فرق بھی تھا۔ دوسرے جس دور میں وہ شعر کہتے تھے اُس میں پابند غزل کی جگہ جدید نظم نے لے لی تھی۔ اِس مناسبت سے بیسویں صدی کے بصرہ سے تعلق رکھنے والے عراق کےعربی زبان کےعظیم شاعر بدر شاکر السیاب اور گزشتہ صدی کے بغداد کے استاد شاعر عبد الوہاب البیتی کی شعری انداز کے امین قرار دیئے جا سکتے ہیں۔
محمود درویش اردو ادب کے عظیم شاعرمرزا اسد اُللہ خان غالب کی طرح بڑے انا پرست تھے لیکن ایسے میں وہ معروف یہودی شاعری یہودا آمی شائی کے طرز کلام کے بھی مداح تھے اور اُن کو اپنا مد مقابل تصور کرتے تھے۔ درویش کےخیال میں یہ آنے والا وفت تعین کرے گا کہ ایک ہی زمین کے لئے آمی شائی کے خیالات معتبر قرار پائیں گے یا اُن کے۔
اپنے وطن سے بے وطنی کا عذاب تمام عمر اُن کے ساتھ رہا حتیٰ کہ موت بھی دور امریکہ میں آئی۔ اُنیس سال میں اپنا پہلا مجموعہ اسرائیلی شہر حیفہ میں شائع کروانے کے بعد وہ لبنان اور پھر سوویٹ یونین پہنچے، ایک سال ماسکو یونی ورسٹی میں پڑھتے رہے لیکن بے چین طبیعت وطن کی محبت کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی سو مصر سکونت اختیار کرلی جہاں وہ مشہور اخبار الاہرام میں ملازم بھی رہے۔ سن اُنیس سو تہتر میں انہوں نے یاسر عرفات کی تنظیم پی ایل او میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ سن اُنیس سو پچانوے سے وہ فلسطینی علاقے رام اللہ میں رہائش پذیر تھے۔
محمود درویش نے شاعری صرف عر بی زبان میں کی تھی لیکن وہ انگریزی، فرانسیسی اور عبرانی بڑی روانی سے بولتے تھے۔
اُن کو کئی ادبی انعامات سے نوازا گیا جن میں لوٹس پرائز کے علاوہ فرانسیسی حکومت کا ایک اعلیٰ تمغہ بھی شامل ہے۔ اُن کے شعری مجموعے کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں اُن کی شاعری پر کئی ایک طویل مضامین اردو جریدوں میں شائع ہونے کی وجہ سے وہ ادبی حلقوں میں پہچانے جاتے ہیں۔ اُن کی نظموں میں عربی ادب کی روایت کے مطابق غنائیت کا عنصر بے بہا تھا اور اِسی وجہ سےعرب دنیا کے نمایاں موسیقاروں نے اُن کو خاص انداز میں کمپوز بھی کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(انسان کے بارے میں۔۔۔۔)
اردو ترجمہ
اُنہوں نے اُس کے دہن پر زنجیریں لگا دیں
اُس کے ہاتھوں کو مُردوں کے پتھر سے باندھ دیا
اور کہا: تم قاتل ہو!
وہ اُس کی غذا، اُس کے ملبوسات، اُس کے پرچم چھین لے گئے
اور اُسے زندانِ مرگ میں پھینک دیا
اور کہا: تم چور ہو!
اُنہوں نے اُسے ہر بندرگاہ سے نکال باہر کیا
وہ اُس کی جواں سالہ محبوبہ لے گئے
اور پھر کہا: تم پناہ گیر ہو!
اے خوں میں آغشتہ آنکھوں اور ہاتھوں والے!
یقیناً رات سریع الزوال ہے
نہ تو کوئی حراست گاہ ہمیشہ باقی رہے گی
اور نہ حلقہ ہائے سلاسل ہی!
نیرو مر گیا، لیکن روم نہیں مرا
وہ اپنی آنکھوں سے لڑتا رہا!
اور خشکیدہ سنبل کے بیج
وادی کو سنبلوں سے لبریز کر دیں گے!
(محمود درویش)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسطینی شاعر محمود درویش کی ایک مشہور نظم کا اردو ترجمہ:
[شناختی کارڈ]
درج کرو!
میں عرب ہوں
میرا شناختی کارڈ نمبر پچاس ہزار ہے
میرے آٹھ بچے ہیں
اور نواں بچہ موسمِ گرما کے بعد دنیا میں آ جائے گا
پس کیا تم غصہ کرو گے؟
درج کرو!
میں عرب ہوں
اور یارانِ محنت کش کے ہمراہ پتھر کی کان میں کام کرتا ہوں
میرے آٹھ بچے ہیں
میں اُن کے لیے
نان اور ملبوسات اور کاپیاں
پتھروں سے باہر نکالتا ہوں۔۔۔
میں تمہاری چوکھٹ سے خیرات نہیں مانگتا
نہ خود کو تمہارے آستانوں پر حقیر ہی بناتا ہوں
پس کیا تم غصہ کرو گے؟
درج کرو!
میں عرب ہوں
میرا صرف نام ہے
کوئی لقب نہیں
میں ایک ایسی سرزمین میں صابر ہوں
جہاں ہر کوئی وفورِ غضب میں زندگی بسر کرتا ہے
پیدائشِ زمانہ سے قبل
ادوار کے شروع ہونے سے قبل
سرو اور زیتون سے قبل
اور گھاس کے اگنے سے قبل
میری جڑیں اس زمین میں پنجہ گاڑ چکی تھیں
میرے باپ کا تعلق ہل چلانے والے خاندان سے ہے
کسی نجیب خاندان سے نہیں
میرا دادا کسان تھا
بے حسب و بے نسب!
قبل اس کے کہ وہ مجھے کتاب پڑھنا سکھائے
اُس نے مجھے سورج کا طلوع ہونا سکھایا
میرا گھر پہرے دار کی کوٹھری کے مانند ہے
شاخوں اور سرکنڈوں سے بنا ہوا
پس کیا تم میری حیثیت سے راضی ہو؟
میرا صرف نام ہے
کوئی لقب نہیں
درج کرو!
میں عرب ہوں
بالوں کا رنگ: کوئلے کی طرح سیاہ
آنکھوں کا رنگ: بھورا
اور میری شناختی علامات:
میرے سر پر عربی رومال اور اُس پر سیاہ حلقہ ہے
جو کہ محکم پتھر کی مانند ہے
اور لمس کرنے والے کے ہاتھ کو چھیل ڈالتا ہے
میری پسندیدہ ترین غذائیں
روغنِ زیتون اور پھلیاں ہیں
میرا پتا:
میں ایک دور و دراز اور فراموش شدہ گاؤں سے ہوں
جس کی سڑکیں بے نام ہیں
اور جس کے تمام رجال مزرعات اور پتھر کی کانوں میں کام کرتے ہیں
پس کیا تم غصہ کرو گے؟
درج کرو!
میں عرب ہوں
اور تم نے میرے اجداد کے باغات چرا لیے ہیں
اور وہ زمین بھی
جہاں میں اپنے تمام بچوں کے ہمراہ کاشت کاری کیا کرتا تھا
تم نے میرے لیے اور میرے تمام پوتوں کے لیے
کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا ہے
سوائے ان پتھروں کے۔۔۔
تو کیا تمہاری حکومت
– جیسا کہ کہا گیا ہے –
ان پتھروں کو بھی چھین لے گی؟
لہذا
درج کرو
صفحۂ اول پر سب سے اوپر:
میں لوگوں سے نفرت نہیں کرتا
نہ کسی پر تجاوز ہی کرتا ہوں
لیکن۔۔۔
جب مجھے بھوک لگے گی
تو غاصب کا گوشت کچا چبا جاؤں گا
خبردار رہو۔۔۔
خبردار رہو۔۔۔
میری بھوک سے
اور میرے غصے سے!
(محمود درویش)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمود درویش کی نظم "عاشق من الفلسطین" کی چند سطریں ملاحظہ فرمائیں :
" لوٹ آؤ،… تم اب جہاں بھی ہو، جو کچھ بھی بن گئی ہو… میرے بدن … اور چہرے کی گرمائی ،…میرے سنگیت اور رزق کا نمک…مجھے لوٹا دو …زیتون کی کوئی شاخ مجھ سے لے لو،…میرے المیے کی کوئی سطر ،…خیال کی کوئی لڑی…بچپن کا کوئی کھلونا…مصائب کی اس چہار دیواری میں سے کوئی اینٹ…کہ ہمارے بچے، بچوں کے بچے ، رستے کا سراغ رکھیں…اور لوٹ آئیں… تمہاری آنکھیں فلسطینی ہیں…تمہارا نام فلسطینی… تمہارے خواب، خیال، تمہارا بدن، تمہارے پیر… تمہاری چپ، تمہارے بول…تم حیات میں بھی فلسطینی ہو… موت میں بھی فلسطینی رہو گی ۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود