فلسطینی عزم کا نشان، الاراقیب
یکم اگست کو فلسطینی بدوی گائوں الاراقیب کو 116ویں بار تباہ کردیا گیا۔ اسرائیلی بلڈوزروں کے اپنا بہیمانہ کام مکمل کرتے اور اسرائیلی فوجیوں کے اس علاقے کو خالی کرتے ہی، اس گائوں کے باسیوں نے اپنے گھروں کی تعمیرِ نو کا کام دوبارہ شروع کردیا۔ تقریباً 22خاندانوں کے کم وبیش 101لوگ یہاں آباد ہیں۔ اب تک وہ سب اس تکلیف دہ روٹین کے عادی ہوچکے ہیں۔ اس گائوں کو سب سے پہلے جولائی 2010ء میں مسمار کیا گیا تھا۔یعنی 2010ء سے اب تک اس گائوں کو فی سال 17بار ادھیڑا جاچکا ہے۔ اور ہر بار اس گائوں کے باسیوں نے اس کی تعمیر نو کی، دوبارہ تباہی کے لیے۔ اگر لگاتار تباہی اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ڈھٹائی سے فلسطینی بدوئوں کو اس علاقے سے نکالنے پر مصر ہے تو اس کی متواتر تعمیر نو فلسطین کی بدو کمیونٹی کے عزم و ہمت کا اعلیٰ ثبوت اور ایک مثال ہے۔الاراقیب اس تاریخی جنگ میں ایک مثال اور علامت کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگا کہ اسرائیل نے فلسطینی بدوئوں کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ مقصد ان بدوئوں کی ثقافت کو تباہ کرنا اور انہیں بالجبر ان کی آبادیوں سے بے دخل کرنا ہے، بالکل اسی طرح جیسا کہ جنوبی افریقہ میں نسلی عصبیت کے دوران کیا گیا۔ یہ جنگ جغرافیائی طور پر یروشلم میں النقب صحرا سے جبل الخلیل تک پھیل چکی ہے۔ اس جاری جنگ کا مرکز اراقیب کا گائوں ہے۔ نہ صرف یہ کہ اسرائیل نے متعدد بار بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس گائوں کو تباہ وبرباد کیا اور اس پر بلڈوزر چلائے بلکہ ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ اسرائیل اس گائوں کے بے گھر رہائشیوں کو بِل بھی دیتا ہے کہ وہ اپنے گھروں کی تباہی کے اخراجات اسرائیلی ریاست کو ادا کریں۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یہ خاندان جو عارضی گھروں میں رہ رہے ہیں اور اپنی بنیادی ضروریات بھی بہ مشکل پوری کر پاتے ہیں، اسرائیل نے انہیں 2ملین شیکل کا بل دیا ہے جوکہ تقریباً 6لاکھ ڈالرز کے برابر ہے۔
اسرائیل ، النقب صحرا میں موجود اراقیب اور 35دیگر دیہات کو اسرائیلی حکومت کے ماسٹر پلان کے مطابق’’غیر تسلیم شدہ‘‘ گردانتا ہے اور یوں ضروری سمجھتا ہے کہ انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے اور ان کی آبادی کو بدوئوں کے لیے بنائی گئی آبادیوں میں دھکیل دیا جائے۔تاہم، یہ دیہات خود اسرائیل سے بھی قدیم ہیںاور ایسے ’’ماسٹر پلان‘‘ ان گائوں کی حقیقت کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔اسرائیل حقیقت میں اس بدوی آبادی کو یہودی آبادی سے بدلنا چاہتا ہے، اور سات برسوں سے اسی باعث اس گائوں کے گھروں کو ڈھاتا آرہا ہے۔
فلسطینی بدو اپنے عزم اور اتحاد کے لیے مشہور ہیں۔ وہ اپنے آباواجداد کی تاریخ اور مصائب سے پوری طرح آگاہ ہیں جنہیں کئی نسلوں سے نسل کشی اور فلسطین سے باہر مہاجر کیمپوں میں دربدری کا سامنا کرنا پڑا یا پھر انہیں جبراً اپنے علاقوں سے نکال باہر کیا گیا۔ لیکن آج کی بدو کمیونٹی اس قسمت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے۔النقب کے بدوئوں کی نسل کشی کا اسرائیلی منصوبہ، مغربی کنارے کو کلونائز کرنے اور الجلیل اور فلسطینی مشرقی یروشلم میں یہودی آبادکاری سے قطعی مختلف نہیں۔ ان کی یہ تمام کوششیں ایک ہی معمول سے جاری ہیں، عربوں کو نکالنا اور ان کی جگہ اسرائیلی یہودیوں کو دینا۔
1965ء میں اسرائیل نے منصوبہ بندی اور تعمیرات کا قانون منظور کیاجس میں الجلیل جنوبی النقب میں کچھ فلسطینی عرب دیہات کو تو تسلیم کیا گیا جبکہ باقی کو نہیں۔ تقریباً ایک لاکھ کی لگ بھگ بدوئوںکو زبردستی ’’منصوبہ بندی سے قائم بستیوں‘‘ میں غربت کا سامنا کرنے کے لیے بھیج دیا گیا۔ بہت سوں نے اسرائیل کی ان منصوبہ بندبستیوں میں جانے سے انکار کردیا اور تب سے وہ اپنی بقا اور اپنی ثقافت اور طرزِزندگی کو زندہ رکھنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔انسٹی ٹیوٹ آف پیلسٹائن سٹڈیز (IPS)کے مطابق ان نام نہاد ’’غیرقانونی‘‘ دیہات میں اب بھی کم وبیش ایک لاکھ تیس ہزار لوگ آباد ہیں جنہیں اپنے گھروں کی بربادی کا مسلسل خطرہ درپیش ہے۔اہم بات یہ ہے کہ یہ بدو کمیونٹیاں اس اسرائیلی دعوے کی غلط بیانی کا ثبوت ہیں کہ آبادکارفلسطینی نہیں یہودی تھے۔ان اعداد وشمار پر ایک سرسری سی نگاہ بھی اس گمراہ کن دعوے کو جھٹلانے کو کافی ہے۔ IPSکے مطابق، 1935ء میں یعنی اسرائیل کے وجود میں آنے سے 13برس قبل، یہ بدو کمیونٹیاں 2