یہ تنازعہ مکڑی کےجالےکی شکل اختیار کرتا چلا جا رہا ہےکہ فلسطین کس کا ہے ؟
مسلمانوں کا یا یہودیوں کا۔۔۔؟!
اسرائیل کا دعوی ہےکہ یہ ان کی جاگیر ہے جبکہ تاریخ مسلمانوں کی ملکیت پر گواہ ہے۔ اگر ہم تاریخ پر طائرہ بھی نظر ڈالیں تو یہ بات ہویدا ہو جائے گی کہ یہ سرزمین اسلام کے زیر رسوخ رہی ہے اور اغیا رکا اس سے دور دور تلک کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہاں۔۔۔!یہ اور بات کہ کچھ عرصہ کے لئے اس ارض مقدس پر غیروں نے اپنا قبضہ جما لیا تھا۔ ۱۰۹۶ عیسوی میں صلیبی جنگ کے پیرایہ میں یہ بات ذکر کی جاتی ہےکہ یہ پاک علاقہ کچھ برسوں کےلئے اپنوں سےدور ہوگیا اور نرغہ اغیار کی نذر ہو چلا تھا ۔ وہاں سے مسلمانوں کو بے دخل کردیا گیا تھا لیکن اہل اسلام نے کبر و نخوت کے شیشےچکنا چور کرکے ظالم حکمرانوں کے پرخچے اڑادیئے ۔ بالآخر کم و بیش نوے برس کے استبدادی اقتدار کو زوال آگیا ۔ جس کے نتیجہ میں فلسطینیوں کو گھر واپسی نصیب ہوئی۔ اس زمانہ سے لے کر خلافت عثمانیہ کے خزاں تک یہ اسلامی بہار میں پروان چڑھتا رہا۔
یہودیوں کےپاس کبھی بھی خود کی کوئی جائیداد نہیں رہی ہے۔ لہذا انہوں نے اس ارض مقدس کے خلاف جال بننا شروع کر دیا ۔
ایک رپورٹ کےمطابق ۱۹۰۴ عیسوی سے ۱۹۱۴عیسوی تک چالیس ہزار یہودیوں نے وہاں ہجرت کی ۔ اس وقت ان کی تعداد فقط آٹھ فیصد تھی جبکہ عرب بانوے فیصد تھے۔ ۱۹۱۶عیسوی میں یہ خط ارض فرعون وقت برطانیہ کے زیر تسلط آچلا ۔اسی کے ایک سال بعد ہی برطانوی کابینہ کے خفیہ اجلاس میں اسرائیل کو منظوری دے دی گئی۔ ۱۹۴۷عیسوی میں اقوام متحدہ نےبھی اس قرارداد کو قبول کردیا۔ اگلے سال ہی عرب اور اسرائیل کے مابین جنگ چھڑ گئی۔ جس کے چلتے شیطان نے وہاں اپنے منحوس قدم جما لئے ۔ وہ ۷۸ فیصد زمین پر قابض ہو گئے۔ رفتہ رفتہ شیطانی نفوذ بڑھتا رہا یہاں تک کہ نوے فیصد آراضی پر اس نے اپنے نخوت کے جال پھیلادیئے۔
عالمی امن کی دعویدار کمیٹی چپ چاپ یہ ساراطاغوتی کرتب دیکھتی رہی اور اس کےزبان سے سرزنش کےچند جملات تک نہ جاری ہو سکے۔ ستم بالائے ستم یہ ہےکہ دوسروں کی ملکیت کو ہتھیا کر خود مالک کو ہی ظلم و استبداد کا نشانہ بناجا رہا تھا مگر اس کےکان پر جوں تک نہیں رینگی۔
اسرائیل دعویدار ہے چونکہ یہاں پر بنی اسرائیل کے درمیان بہت سے انبیاء مبعوث برسالت ہوئےتھے۔ اس لئے یہ ہمارا حق ہے۔ ہم بسر و چشم اس بات کے معترف ہیں کہ حضرت اسحاق ، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت داود، حضرت سلیمان، حضرت زکریا، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام وغیرہ وہیں مبعوث ہوئے تھے۔ لیکن سوال یہ ہوتا ہےکہ انہوں نے اللہ کےرسول کی مانی کب ہے۔۔۔؟!
ان باعظمت ہستیوں کے گزند پہونچانا، ان پر پتھر برسانا، ان سے ہمہ وقت بر سر پیکار رہنا اور ان کے خون ناحق سے ہاتھوں کو رنگین کرنا ان کی یہ ساری حرکتیں تاریخ کےدامن میں محفوظ ہیں۔ قرآن پا ک میں متعدد مقامات پر یہودیوں کی سرزنش کی گئی ہے.
اَفَكُلَّمَا جَآءَكُمۡ رَسُوۡلٌۢ بِمَا لَا تَهۡوٰٓى اَنۡفُسُكُمُ اسۡتَكۡبَرۡتُمۡۚ فَفَرِيۡقًا كَذَّبۡتُمۡ وَفَرِيۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ
تمہارا مستقل طریقہ یہی ہے کہ جب کوئی رسول علیھ السّلام تمہاری خواہش کے خلاف کوئی پیغام لے کر آتا ہے تو اکڑ جاتے ہو اور ایک جماعت کو جھٹلا دیتے ہو اور ایک کو قتل کردیتے ہو
(سورۃ البقرة – آیت 87)
ان میں سارےکہ سارے ایسے تونہ تھے بلکہ وہ حضرات بھی تھے جنہوں نے پیغام الہی کو آنکھوں سے لگایا اور دل میں بسالیا۔ جس کے معنی یہ ہوتےہیں کہ اب وہ احکام الہیٰ کےسامنے سر تسلیم خم کئے ہیں اور انبیاء الٰہی کے فرمودات کی بجا آوری کے لئے حاضر ہیں۔
اب کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہوجائے کہ چونکہ ان میں سب نہ سہی مگر بعض نے تو اطاعت خدا و رسول کی تھی۔ لہذا، یہ ان کی بنسبت اس زمین کے وارث قرار پائے۔ ایسا بالکل نہیں ہے!یہ محض خام خیالی ہے۔ بہتر ہےکہ اسےذہن سےمحو کردیا جائے ۔ اس لئے کہ اگر وہ اپنےدور کے رسول کے حکم پر عمل پیرا ہوتےتو دین الٰہی کے حکم کےماتحت جو بھی وقت کا نبی ہو اس کا اتباع کرنا لازم ہوجاتا ہے اور نبی اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ لہذا، ان لوگوں کو رسول کا تابع ہونا چاہئے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ تابع رسول تو در کنار وہ دشمن رسول بن گئے تھے اور وراثت صرف ان کا حق ہے جو وقت کےنبی کا اتباع کرے۔
عضر حاضر کی یہودیت کا گذشتہ انبیاء کرام سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ ورنہ آئین شریعت میں اس قدر من مانی نہ کر تے کہ کتاب کا مطلب ہی بدل جائے۔ یہودی اسلام دشمن نہیں، انسان دشمن کی شکل میں پنپ رہی ہے ۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہنا چاہئے کہ ظلم کی عمر زیادہ نہیں ہوتی ۔ اب وہ صبح جلد ہی نمودار ہونے والی ہے جب مستضعفین ، زمین کے وارث قرار پائیں گے اور منادی حق بنانگ دہل اعلان کرے گا ۔
’جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کا زھوقا‘(سورہ اسراء ۸۱)
“