ڈائنوسار کو کیسے اور کہاں پر ڈھونڈا جائے؟ نہ جاننے والے کے لئے یہ ناممکن سوال لگے لیکن اس کا فارمولا اتنا مشکل نہیں۔ جو سائنس دان اس کی تلاش کرتے ہیں، وہ پیلینٹولوجسٹ ہیں اور وہ اس کا طریقہ جانتے ہیں۔ اس کے تین بنیادی گر ہیں
1۔ صحیح عمر کی چٹان ڈھونڈیں
2۔ یہ چٹانیں سیڈیمنٹری ہونی چاہییں
3۔ ان کی تہوں کو قدرتی طور پر ایکسپوز ہونا ہے
زمین کی اپنی تاریخ جس طرح اس کے سینے میں دفن ہے، وہ ساتھ کی تصویر میں۔ اگر پیلیوزؤیک دور کی سٹڈی کرنا ہو تو اس کے نشان اتنی ہی عمر کی چٹانوں میں ملیں گے۔ جب ڈائنوسار ڈھونڈنا ہوں، تو پھر اتنی پرانی چٹانوں کو دیکھنے سے فائدہ نہیں کیونکہ اس وقت وہ ارتقا پذیر نہیں ہوئے تھے۔ ان کے لئے پھر ایسی چٹانیں دیکھنا ہوں گی جو ساڑھے چھ کروڑ سے لے کر بیس کروڑ تک پرانی ہوں۔ ارضیات کے علم سے زمین کا جیولوجیکل نقشہ موجود ہے جس سے ہر علاقے کی چٹانوں کی عمر کا پتہ لگتا ہے۔ پرانا ریکارڈ اس میں محفوظ ہے۔ نیا اوپر اور پرانا نیچے۔ لیکن زمین کی اس لائبریری کی معلومات وسیع رقبے پر پھیلی ہے۔ کچھ صفحات کہیں پائے جاتے ہیں تو کچھ کہیں اور۔ کہیں سے صفحے غائب ملتے ہیں اور کہیں پرانی اوراق کے اوپر اگلے زمانے میں کچھ اور لکھ دیا گیا ہوتا ہے۔ زمین کا اپنا ایک جیولوجیکل میٹابولزم ہے اور زمین کا لیتھوسفیئر تغیر کا شکار ہے۔ یہ لائیبریری خود وسیع اور تفصیلی معملومات رکھے ہے مگر اس کا مطالعہ اتنا آسان نہیں۔ انیسویں صدی سے قبل ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس کو پڑھا کیسے جائے۔ جیمز ہٹن نے زمین کے مطالعے کے طریقے پر سب سے پہلے کتاب لکھی اور پھر سب سے پہلے جیولوجیکل نقشہ برطانیہ کا تیار ہوا جو ولیم سمتھ نے کیا۔ اس نقشے سے پتہ لگتا ہے کہ کس جگہ پر جائیں تو کونسے دور کی چٹانیں ملیں گی اور اب دنیا کے تمام علاقوں کا یہ نقشہ ہمارے پاس موجود ہے۔
اس نقشے اور چٹانوں کی قسم دیکھ کر پھر زندگی کی اس دور کی باقیات کو ڈھونڈنا اب پہلے سے زیادہ آسان ہے۔ سیڈیمینٹری چٹانوں کے علاوہ دوسری چٹانیں پر زندگی نشان نہیں چھوڑتی اور زندگی کی تاریخ کی تلاش صحرا میں سب سے زیادہ کامیاب ہوتی ہے کیونکہ پودے نہ ہونے کے سبب اور ہونے والے کٹاؤ کی وجہ سے یہ نشان سطح کے قریب ہی مل جاتے ہیں۔ اب تک کتنے فوسلز دریافت ہو چکے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تعداد اربوں کی تعداد میں ہے۔ پیلینٹولوجسٹ کی اصل دلچسپی نئی دریافتوں سے ہے جس سے اس کہانی کے نئے باب پڑھنے کو ملتے ہیں۔
یہ تلاش تمام دنیا میں ہو رہی ہے، خواہ آسٹریلیا ہو یا بلوچستان، صحارا کا ریگستان یا کسی بھی برِاعظم کی کوئی اور جگہ۔ اس میں کچھ سال قبل ہونے والی ایک بڑی اہم دریافت ڈریڈ نوٹس نامی ڈائنوسار کی تھی جو کہ ہمارے آج تک کے علم کے مطابق اس زمین کی تاریخ پر بسنے والا سب سے بڑا جاندار گزرا ہے۔
ساتھ منسلک تصاویر اس کی دریافت کی ہیں جس کی مکمل کھدائی اور سٹڈی میں چار سال لگے۔ پھر ہر فوسل کے اپنے تجزیے کے لئے سائنس کے کئی اور شعبے آ جاتے ہیں۔
یہ دریافت ارجنٹائن کے صوبہ سانٹا کروز میں ہوئی۔ تصویر میں ڈریکسل یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے معروف پیلیوٹولوجسٹ کینتھ لیکووارا ہیں جو اس کی ملنے والی سینکڑوں ہڈیوں میں سے ایک کے ساتھ ہیں۔ کھدائی کا کام 2005 سے 2009 تک چلتا رہا۔ جبکہ اس پر ہونے والی تحقیق کا پہلا پیپر 2014 میں آیا۔ اس دریافت کی سینکڑوں لوگوں کی ٹیم میں تین پی ایچ ڈی سائنسدان شامل تھے۔
کینتھ لیکووارا سے پوچھا گیا کہ انتہائی محنت طلب یہ کام کرنے کا فائدہ کیا ہے اور انہوں نے قدیم زمین کے مطالعے کے اس تجربے سے کیا سیکھا تو ان کا جواب تھا کہ خاک میں پنہاں ہو جانے والی ان صورتوں کے مطالعے سے زندگی کی تاریخ جاننے کے ساتھ ساتھ سیکھنے والی سب سے بڑی دو چیزیں ہیں۔ انکساری اور پرسپیکٹو۔
ڈریڈنوٹس کے سائز کا موازنہ منسلک تصویر میں اور اس پر وکی پیڈیا کے آرٹیکل کا لنک