پلیجو کی شخصیت کا دوسرا رخ
سردار قریشی صحافی ہیں ۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے پلیٹ فارم کارکن سے صحافیوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرتے رہے اور انھیں اس جد وجہد کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔آج کل روزنامہ ایکسپریس میں وہ اپنی یادوں پر مبنی ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں۔ ان کے کالم کاعنوان’کالم کہانی‘ ہے ۔ اپنے تازہ کالم (مطبوعہ 16۔ جون 2018) میں انھوں نے پلیجو بارے اپنی یادیں بیان کی ہیں۔
چیئرمین ماؤ اور شمالی کوریا کے لیڈر کم ال سنگ کی سرخ کتابوں کی طرز پر پلیجو صاحب کے افکارو خیالات پر مبنی پاکٹ سائز کے کتابچے(جیل میں) ہمارے ان ساتھیوں کے پاس بھی ہوا کرتے تھے۔اگرچہ ہاری تحریک سے وابستہ دوست ان پڑھ تھے لیکن شام کو جب وہ بیرک کے باہر دائرے کی شکل میں بیٹھا کرتے تو یہ کتابچے ان کے ہاتھوں میں ہوتے، ان میں سے کوئی ایک جو خواندہ ہوتا پڑھ کر سناتا اور باقی سب سنا اور یاد کیا کرتے۔ ان میں اکثر یہ طوطے کی طرح رٹ رکھے تھے۔وہ ہم سے بات چیت کرتے وقت کارل مارکس،لینن،فیدل کاسترو اور گوریلا لیڈر چی گویرا سمیت کمیونسٹ لیڈروں کے اقوال اور جد وجہد کے حوالے دیتے تو مجھے بڑا عجیب لگتا ۔
شاگرد تحریک پلیجو کی عوامی تحریک کی طلبا تنظیم تھی۔ شاگرد تحریک سے وابستہ کچے ذہن کے نوجوان طلبا اور ناخواندہ کسان دوست پلیجو صاحب سے اس قدر متاثر تھے اور ان کا ذکر کچھ اس اندا ز سے کرتے تھے کہ بقول ہمارے دوست ناصر کاظمی ان جیسا لیڈر نہ پہلے کبھی گذرا اور نہ آیندہ کبھی پیدا ہوگا ۔خود پلیجو بھی اپنے متعلق بڑی غلط فہمی میں مبتلا تھے۔ف۔م۔لاشاری جو روزنامہ ہلا ل پاکستان کے ہفتہ وار میگزین کے انچارج تھے بتاتے تھے کہ ایک بار دوران انٹرویو جب انھوں نے پلیجو سے پوچھا کہ ان کے خیال میں اس وقت سب سے بڑا سندھی ادیب کون ہے؟ تو جواب ملا بندہ آپ کے سامنے بیٹھا ہے۔ عوام میں ان کی پارٹی کی کوئی فاولنگ نہیں تھی اور وہ بھی دوسری بہت سی قوم پرست پارٹیوں کی طرح پریس ریلیز کلچر کی پیداوار تھی۔نہ تو پلیجو صاحب خود اور نہ ہی ان کی پارٹی کے ٹکٹ پر کوئی امیدوار کبھی کسی بھی سطح کا الیکشن جیت سکا۔ان کے چھوٹے بھائی غلام قادر جونیجوالبتہ پیپلز پارٹی سے وابستگی کی وجہ سے ایک دو بار سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔بعد میں ان کی صاحبزادی سسی پلیجو نے ان کی جگہ لی۔ وہ سینٹ کی رکن اور سند ھ کابینہ میں وزیر بنیں۔ذاتی طور پر میرا پلیجو صاحب سے واسطہ 1991میں اس وقت پڑا جب میں سندھی روزنامہ ’ جاگو‘سے بطور نیوز ایڈیٹر وابستہ تھا۔انھوں نے مجھے فون کرکے شکایت کی کہ ان کی خبروں کو صحیح کوریج نہیں مل رہی۔ میں نے عرض کیا کہ انھیں میرے بجائے ایڈیٹر یا اپنے چھوٹے بھائی سے کرنی چاہیے جو اخبار کے ڈائیریکٹر بھی ہیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ خبریں تم سلیکٹ کرتے ہو اس لئے میں نے تم سے بات کرنا ضروری سمجھا ۔ پھر فرمایا کہ میرے کارکن تمہارے جانبدارانہ رویہ کی وجہ سے سخت مشتعل ہیں اور اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچے تو ہم سے پنگا نہ لو۔ میرے عرض کرنے پر کہ مجھے ان سے اس انداز گفتگو کی توقع نہیں تھی انھوں نے لائن کاٹ دی۔دوسری دفعہ فون پر ان سے ’ٹاکرا‘تب ہوا جب ایڈیٹر کے امریکہ جانے کی وجہ سے چارج میرے پاس تھا۔
پلیجو صاحب نے فون پر حکم دیا کہ انھوں نے تین سال قبل سندھ یونیورسٹی کے طلبا کو ایک لیکچر دیا تھا جس آڈیو ریکارڈنگ تحریری صورت میں وہ مجھے بھجوارہے ہیں۔یہ آج ہی ایڈیٹوریل پیج پر بطور لیڈر آرٹیکل لگانا ہے۔میر ی رگ ظرافت پھڑکی اور میں نے ان سے پوچھ لیا کہ انھوں نے اخبار خرید لیا ہے یا اس کے چیف ایڈیٹر بن گئے ہیں کہ اس طرح کے احکامات صادر فرما رہے ہیں؟آرٹیکل دیکھے بغیر میں اسے شایع کرنے کی حامی کیسے بھر سکتا ہوں۔ غصے میں آگئے اور فرمایا: لگتا ہے تمہیں ٹھیک کرنا ہی پڑے گا ۔1992میں جب پلیجو صاحب پانی کے مسئلے پر لانگ مارچ کی قیادت کر رہے تھے ،میں نے ’عوامی آواز‘میں اس حوالے سے ایک اداریہ لکھا جو انھیں سخت ناگوار گذرا۔آکاش انصاری نے جو ان کی پارٹی کے جنرل سیکرٹری تھے،مجھے فون کرکے خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیں۔ میری طرح ان کا تعلق بھی ضلع بدین سے تھا اور پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے ۔ ان سے میرے ذاتی مراسم نہیں تھے لیکن میں ان سے کہے بغیر نہ رہ سکا کہ یار آپ لوگ کرتے ورتے کچھ ہیں نہیں خالی دھمکیاں دیتے ہیں، جن کے ہم عادی ہوگئے ہیں،لہذا کوئی دوسرا راستہ نکالیں۔میرے ایک صحافی دوست نے جو پلیجو کو اپنا گرو مانتے تھے بارہا ان سے ملوانے کی کوشش کی مگر میں نے معذرت کرلی کہ وہ اتنے بڑے لیڈر اور کہاں ہم خاک نشین۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔