پالؔ، کلب ڈانسر کی چھوڑی ہوئی شاعرہ اور پاکستانی عوام
ــــــــــــــــــــــــــــ
پالؔ انگلینڈ میں میرا کلاس فیلو تھا، جب میں ماس کمیونیکیشنز کر رہا تھا۔ خالص برٹش انگریز، حد سے زیادہ متعصب اور کسی کو خاطر میں نہ لانے والا (میرے جیسے "براؤن" کو گھاس کیوں ڈالتا تھا یہ کہانی پھر سہی)۔ غضب کا ہینڈ سم بھی تھا مگر انٹرورٹ ٹائپ بندہ پچھلے چھ سال سے ایک ہی گرل فرینڈ پر گذارا چلائے جا رہا تھا، جو حال ہی میں اسے چھوڑ کر جرمنی کورس کرنے چلی گئی تھی۔ میں جب اس چھیڑنے کو پوچھتا کہ کونسا کورس ہے جو تمہارے "کورس" سے بہتر ہوگا۔ وہ ہنس دیتا اور کہتا مسٹر براؤن! کیرنؔ (اسکی گرل فرینڈ) بہت مہنگی لڑکی ہے، اور جرمن کرنسی بہت چیپ، مجھے کوئی فکر نہیں۔
خیر واقعہ کچھ اور ہے۔ پالؔ اکثر مجھے برٹش لڑکیوں کی اقسام پر لیکچر دیا کرتا اور بتاتا کہ وہ چھ سال سے ایک ہی لڑکی کے ساتھ کیوں ہے۔ ایک دن مجھے کہنے لگا، مامودؔ ! کسی بھی لڑکی سے دوستی کرلینا، مگر ایسی شاعرہ جس کو حال ہی میں کسی آوارہ لڑکے نے چھوڑا ہو، کبھی ہائے کا جواب بھی مت دینا۔ اور ہو سکے تو منہ گھر کی طرف کر کے بھاگ لینا۔ ہاہاہا ۔ ۔ ۔ میں حیرانی سے ہنسا، ایسا بھی کیا؟ مجھے پوئٹ لڑکیاں اچھی لگتی ہیں، میں نے اسے اکسایا۔
ہینڈسم برٹش بوائے نے اپنی نیلی آنکھیں سکیڑ کر میرے سر کی طرف دیکھا، جیسے سر کے اندر دماغ تلاش کررہا ہو پھر افسوس سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا، کیرنؔ سے پہلے میں ایک ایسی ہی لڑکی سے مل بیٹھا۔ وہ حد سے زیادہ حساس، بات بات پر رومانٹک ہونے والی اور بات بے بات روٹھنے والی لڑکی تھی۔ میں چونکہ اس وقت صرف اٹھارہ سال کا تھا، اس لیے بات بات پر روٹھنے والی کو بات بات پر رومینٹک ہونے والی کے لیے برداشت کرتا رہا۔ مگر سونے پر سہاگہ یہ تھا کہ اس کا ایکس بوائے فرینڈ ایک کلب باڈی گارڈ تھا، جس کے ساتھ وہ دو سال تک بہت ظلم سہنے کے بعد بریک اپ کرچکی تھی۔
اچھا۔ میری دلچسپی بڑھی تو پالؔ نے بات جاری رکھی۔ بس میرے یار! میری زندگی خراب ہوگئی۔ اس کے ایکس کا ہر ظلم مجھے تین تین بار سننا پڑتا۔ پھر میرے ہر نارمل اسٹیپ کو بھی وہ اپنے ایکس کے ظلموں سے جوڑ کر دیکھتی۔ ہر وہ بات جو اسکے ایکس نے کبھی نہیں مانی تھی، میرے کھاتے میں آ گئی۔ ایک دن کہنے لگی، فلاں کاسل میں چلیں، میں نے مصروفیت کی وجہ سے انکار کیا، تو کہنے لگی تم بھی جارجؔ کی طرح ظالم ہو، وہ بھی انکار کردیتا تھا میری ہر بات پر۔ مرتا کیا نہ کرتا مجھے جانا پڑا۔ ایک بار میرے لیے سرخ قمیص لے آئی جو رنگ مجھے سخت ناپسند تھا۔ منہ بنا لیا، کہ تم بھی جارجؔ بن گئے ہو۔ گھنٹوں انتظار کرواتی، میں اگر زرا سا جملہ بولتا تو کہتی تم جارجؔ کی طرح ٹارچر کرتے ہو مجھ پر۔ حالانکہ جارجؔ پندرہ منٹ انتظار کے بعد اسکو کئی بار چھوڑ کر جا چکا تھا۔ دو سال میں اس نے اسکو کم از کم پندرہ بار زدوکوب کیا تھا، جبکہ میرے شٹ اپ کہنے پر وہ مجھے مردانگی دکھانے کا طعنہ دے چکی تھی۔
انٹرسٹنگ ۔ ۔ ۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا، مگر یہ شاعرہ والی کیا بات ہے۔ ایسا تو کوئی بھی لڑکی کر سکتی ہے۔
نہیں، پال نے شدت سے نفی کی، شاعرہ اس لیے کہ ایسی لڑکی اپنے ایکس کے ہر ظلم کو رومینٹیسائز کردیتی ہے اپنے ذہن میں اور حتی الامکان اس ظلم کی کیفیت سے لطف اٹھانے لگتی ہے۔ اور جب میرے جیسا نارمل بندہ اسکی زندگی میں آتا ہے تو وہ اپنے آپ کو نارمل ڈیل ہوتا دیکھ کر ایک بے یقینی کا شکار ہو جاتی ہے۔ اور پھر ہر ہر طریقے سے چیک کرتی ہے کہ کب یہ بندہ بھی اسکے ایکس جیسا برتاؤ کرنے لگے گا۔ وہ اصل میں آپ کے ساتھ زندگی نہیں گذارتی، اپنے ایکس کے دیے ہوئے پلان کو ٹیسٹ کرتی ہے، اور آپ ہر روز ایک نئے امتحان کا سامنا کرتے ہیں۔ اسکا حساس یا شاعرہ ہونا اس کو ان دو انتہاؤں پر رہنے پر مدد دیتا ہے۔ عام لڑکی ہوتی تو پچھلا بھول کر اگلے کے ساتھ نئی زندگی اسٹارٹ کرتی۔
ہممممم ۔۔ ۔ میں نے گہرا ہنکارہ بھرا۔ شائد پال ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔
پچھلے چند سالوں سے، جب سے پاکستانی عوام نے عمران خان کو سنجیدہ لیڈر سمجھنا شروع کیا ہے، عوام، چینلز، صحافی، اور میرے جیسے خوامخواہ کے بلاگرز اس پر اپنی فرمائشوں کے ایسے ایسے انبار لاد چکے ہیں کہ مجھے اکثر پال کی یہ بات یاد آتی ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ بحیثیت قوم ہم وہی ظالم کلب ڈانسر کی چھوڑی ہوئی شاعرہ ہیں، جو پچھے بوائے فرینڈ سے تو ہڈیاں تڑواتی رہی ، مگر جو اس کو عزت و مان دینا چاہتا ہے، اس سے فرمائشیں کر کر کے اس کو بندر کا ناچ نچا دیتی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“