ٹرین اپنی اسپیڈ میں چل رہی تھی روشن کے سامنے ابھی بھی پاپا کی لال آنکھیں اور تمتماتا چہرہ گھوم رہا تھا وہ کہہ رہے تھے نکمے جب تک میں زندہ ہوں کھالے، پھر ایک ایک دانے کے لیے ترسے گا زندگی میں تو کچھ بھی نہیں کر پائیگا ۔
روشن کے انہی خیالوں میں ٹرین ہارن دیکر رک گئی۔ روشن نے کھڑکیوں سے جھانک کر دیکھا تو باندرا اسٹیشن اس کے سامنے تھا اس نے اپنا بیگ اٹھایا اور ٹرین سے اتر گیا ۔
اف اتنی بھیڑ ! لگتا تھا دنیا بھر کے آدمی ممبئی میں آ کے بس گئے ہوں انسانیت کا نام و نشان نہیں کسی سے کچھ پوچھو تو بتانے کو راجی نہیں تھا بڑی مشکل سے روشن کو ایک سیٹھ کے گھر کام مل گیا سیٹھ کا چھوٹا سا پریوار تھا میاں بیوی ایک لڑکا اور لڑکی۔
کچھ دن میں ہی سیٹھ اور اس کا لڑکا کمل دونوں اسے خوب پسند کرنے لگے تھے۔
اب سیٹھ جی اسے نوکر نہیں بلکہ گھر کا ایک رکن سمجھتے تھے ۔
روشن کو سیٹھ کے گھر کام کرتے ہوئے چھ مہینے ہو چکے تھے روشن نے سیٹھ کی لڑکی جس کا نام رچنا بھاٹیا تھا آج اس کی سالگرہ پر گانا گایا۔۔۔۔
دنیا میں سب کو پیاری لگے رچنا ہماری،
قربان کروں اس پہ اپنی زندگی ساری۔
مہمانوں کے جانے کے بعد سیٹھ کے لڑکے نے روشن سے کہا چلو تفریح کرتے ہیں وہ روشن کو لے کر ایک بنگلے پر جا پہنچا روشن نے اس سے پوچھا یہاں تیری رشتہ داری ہے کیا ؟ وہ بولا چپ! پاگل ہے تو۔
کمل نے کاؤنٹر پر کچھ پیسے جمع کیے پھر روشن کو ایک کمرے میں جانے کو کہا اور خود دوسرے کمرے میں چلا گیا روشن اندر گیا تو اسے کچھ عجیب سا لگا۔ اسے اندر گئے ابھی کچھ ہی پل گزرے تھے کہ ایک لڑکی آکر اس کے ساتھ نا زیبہ حرکت کرنے لگی۔ روشن نے اسے ڈانٹا ۔کیا کر رہی ہیں آپ ؟ اتنا بڑا بنگلہ اور آپ ایسا کر رہی ہیں شرم نہیں آتی آپ کو، تم عورت کے نام پر ایک دھبا ہو ۔کاش! مجھے پہلے پتہ ہوتا تو میں یہاں نہیں آتا ، کیا آپ کو اپنی عزت سے ذرا بھی پیار نہی؟ یہ سنتے ہی لڑکی کی نظریں جھک گئی وہ روشن کو غور سے دیکھنے لگی اس کے آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے بولی بابو میں یہ سب اپنی مرضی سے نہیں کرتی مجبوری میں کرتی ہوں۔ یہ ایک لمبی داستان ہے کیا تم سننا پسند کروگے ؟ روشن بولا بالکل، لڑکی بولی سنو۔۔۔۔۔
" میرا نام پوجا ہے میں لکھنؤ میں رہتی تھی اور وہیں ایک یونیورسٹی میں بی کام کر رہی تھی میں ایک اچھے خاندان سے ہوں رقص اور موسیقی کا مجھے بچپن سے شوق تھا یونیورسٹی کے ہر پروگرام میں حصہ لیتی تھی اور نام کمانا چاہتی تھی، کچھ دن بعد یونیورسٹی کے باہر میں نے ایک پوسٹر دیکھا جس میں لکھا تھا فلم میں کام کرنے کے لئے لڑکے اور لڑکیاں رابطہ کریں میں نے نمبر پر کال کیا پھر اس سے ملنے گئی اس نے اپنی فلم کے لئے مجھے سلیکٹ کر لیا اور بولا شوٹنگ کے لئے ممبئی چلنا ہوگا میں خوش تھی کہ مجھے فلم میں کام مل گیا میں گھر والو سے پوچھے بغیر خوشی– خوشی تیار ہو کر اس کے ساتھ ممبئی آگئی اس نے مجھے اپنے سینئر سے ملوایا وہ یہی جگہ تھی رات کو وہ آدمی غائب ہوچکا تھا میں پریشان ہوگئی اور باہر نکلنے کی کوشش کی مگر مجھے باہر نہیں نکلنے دیا گیا مجھے بتایا گیا کہ میں دو لاکھ روپئے میں بک چکی ہوں ۔ پھر مجھے نشے کا انجکشن دینے لگے جس سے میں اپنے ہوش و حواس کھو دیتی تھی بعد میں میں مجبور ہو کر اسی رنگ میں ڈھل گئی ۔ روشن پوجا کی روداد زندگی سنکر کافی غمگین ہوا پھر بولا— " اگر اس بارے میں پولیس میں کمپلین کروں تو"۔ پوجا بولی کچھ نہیں ہو سکتا گورنمنٹ نے لائسنس دے رکھا ہے میرے باہر نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے منہ مانگی قیمت دے کر ان لوگوں سے مجھے خرید لیا جائے روشن بولا کہو تو میں آپ کے والدین کو خبر کردوں وہ آپ کو چھوڑا لیں گے۔
پوجا بولی ہاں بابو چھڑا تو لیں گے مگر میں اس ذلت بھری زندگی سے چھوٹ کر جینا نہیں چاہتی۔ روشن بولا مجھے بہت غم ہوا آپکی داستان سن کر لیکن میں بہت غریب آدمی ہوں ۔ بہن بتاو پھر میں تمہارے لئے کیا کر سکتا ہوں ؟ پوجا نے بھیگی پلکوں سے کہا بھیا اگر آپ نے مجھے بہن کہا ہے تو اپنی بہن پہ ایک احسان کروگے ؟ روشن بولا بہن اس میں احسان کی کیا بات ہے بھائی بہنو پہ احسان نہیں کرتے آپ بتایئں تو یہ بھائی تمہارے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔
تو بھیا وعدہ کرو کہ میری التجا مانو گے
روشن نے وعدہ کر لیا تو پوجا بولی بھیا مجھے زہر لا دو
یہ سنتے ہی روشن کے ہوش اڑ گئے مگر وہ وعدہ کر چکا تھا ۔
وہاں سے لوٹنے کے بعد روشن بہت غمگیں رہنے لگا اس کی آنکھوں کے سامنے پوجا کی بھیگی پلکیں ہمیشہ گردش کرتی رہتی ۔
ان چند مہینوں میں رچنا بھاٹیا روشن سے پیار کرنے لگی تھی اس نے روشن کا غم معلوم کرنے کی کوشش کی تو روشن نے اسے سارا احوال سنایا اسے بھی بہت دکھ ہوا روشن کو ہنسنا بولنا بالکل اچھا نہیں لگتا تھا بس وہ پوجا سے کئے گئے وعدے کے بارے میں ہمیشہ سوچتا رہتا رچنا اسے ہنسانے کی کوشش کرتی اسے رومانی جگہ پر لے کر جاتی سیٹھ اور اس کے لڑکے نے روشن کو سمجھایا یار اس دنیا میں بہت غم ہیں تم نے ابھی دیکھا ہی کیا ہے یہ ممبئی شہر ہے اگر تم ایسے ہی سب کے زخموں کا مرہم بننے لگے تو ساری زندگی نکل جائے گی ۔ صرف یہاں لوگ اپنے بارے میں سوچتے اوروں کے بارے میں نہیں۔
الغرض روشن نے دو چار دن ایسے ہی بتایا پھر وہ زہر کی پڑیا لے کر پوجا کے پاس پہنچ گیا پوجا کو زہر دیے دی ۔
پوجا نے اسے رکھ لیا اور روشن کو دعایئں دے کر غم کے شاتھ الوداع کہا۔
دوسرے دن اخبار کے مارفت سے پتہ چلا کہ پوجا نے زہر کھا کر خودکشی کرلی یہ خبر پڑھتے ہی روشن بہت غمگین ہوا اور سیٹھ کے پاس آکر بولا – " سیٹھ جی مجھے گھر جانا ہے" سیٹھ جی بولے—-"کیا بات ہے روشن؟"
روشن بولا—-" کچھ نہیں گھر والوں کی یاد آرہی ہے۔ اسی وقت سیٹھ نے روشن کا حساب کر دیا اور بولے روشن تم اپنے گھر جارہے ہو روکوںگا تو نہیں مگر تم ہمیشہ میرے دل میں رہوگے اور ہاں ہم سب تمہارا انتظار کریں گے سیٹھانی کی آنکھیں نم ہو گئیں سیٹھ کا لڑکا—"بولا یار جلدی آنا'
رچنا روشن کو پلیٹ فارم تک چھوڑنے آئی اور بولی —-" روسن کہیں تم پردیسیوں کی طرح مجھے بھول تو نہیں جاؤں گے کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نہ آؤ اور میرے ارمان دل ہی میں دم توڑ دیں"
روشن نے وعدہ کیا جلدی ہی واپس آؤں گا۔
الغرض روشن اپنے گھر آ گیا اس کے والد اسے دیکھتے ہی بولے —" آگئے کما کے! کتنے جوتے کھا کے آئے ہو؟" روشن کچھ نہیں بولا اس نے اپنے والد کو کچھ پیسے دیے اس پر وہ بولے بھیک مانگ کر لایا ہے کیا؟ کام دھندھا تو تجھ سے کچھ ہوتا نہیں۔
روشن سوچنے لگا کہ آخر وہ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ میں اپنی زندگی میں کچھ نہیں کر پاؤں گا اس کی ماں نے اس کے والد سے کہا ابھی میرا لڑکا پہنچا ہی ہے اور تم دل کی بھڑاس نکالنا شروع ہوگئے کم سے کم کچھ دیر تو چپ رہا کرو۔
وقت گزرتا گیا روشن کو گھر آئے دو مہینے ہو چکے تھے، ایک دن پاپا پلیٹ فارم سے ایک ناول لے کر آئے نہ جانے کیا سوچ کر انہوں نے روشن کو بلایا اور بولے—" دیکھ کتنا اچھا افسانہ ہے اس نے دیکھا تو اس پر لکھا تھا "بیتے لمحات " افسانہ نگارہ رچنا بھاٹیا ۔ روشن بولا یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے میں اس لڑکی کو جانتا ہوں اتنا سننا تھا کہ پاپا پھر سے بگڑ گئے ارے نالائق کرنا کرانا کچھ ہے نہیں، کہہ دے تاج محل بھی تو نے بنوایا تھا اور کتاب پٹک کر چل دئے۔ روشن نے کتاب کو اٹھایا اور رچنا بھاٹیا کی تصویر کو پیار بھری نظروں سے دیکھنے لگا اسے اس کا وعدہ یاد آیا۔ دوسرے دن اس نے اپنے والد سے کہا کہ وہ پھر سے ممبئی جانا چاہتا ہے انہوں نے اپنے عادت کے مطابق بڑبڑا کر اسے رخصت کردیا روشن جب سیٹھ کے گھر پہنچا تو سبھی بہت خوش ہوئے رچنا اپنے آپ کو روک نہ سکی وہ دوڑ کر روشن سے لپٹ گئی سیٹھ جی بوکھلائے کیونکہ انہیں آج پتہ چلا تھا کہ روشن سے رچنا پیار کرتی ہے۔
انہوں نے بنا کوئی اعتراض کئے دونوں کی شادی کردی دونوں اپنے کمرے میں تھے روشن نے رچنا کا گھونگھٹ اٹھایا اور اس کے گالوں کو چومنا ہی چاہتا تھا کہ ٹی۔ٹی نے اسے ہلا کر کہا— " ٹکٹ! ٹکٹ! کہاں کھوئے ہو جناب! روشن نے جیب سے ٹکٹ نکال کر ٹی ۔ٹی ۔ کو دیا اور پلیٹ فارم پر اتر کر ہزاروں لوگوں کی بھیڑ میں اوجھل ہو گیا ۔