پاکپتن اور ساہیوال کی ادبی سیاحت
گزشتہ دو دن سے مختلف علمی و ادبی مصروفیات کی وجہ سے حالتِ سفر میں ہوں ۔ یونیورسٹی آف لاہور پاکپتن کیمپس کے صدرِ شعبہ ڈاکٹر شعیب عتیق خان اور عزیز دوست ڈاکٹر رحمت علی شاد نے کمال مہربانی سے ایم فل اردو کے چار اسکالرز کے زبانی امتحان کے سلسلے میں پاکپتن شریف کی حاضری کا موقع دیا ۔ ملکہِ ہانس سے گزرتے ہوئے وارث شاہ کی روح کو سلام پیش کیا ۔ یونیورسٹی پہنچا تو ڈاکٹر مشتاق عادل نے محبت اور گرم جوشی سے استقبال کیا وہ حال ہی میں شعبہ اردو کی فیکلٹی کا حصہ بنے ہیں اور ہفتہ وار چھٹی کے باوجود مجھ سے ملاقات کے لیے یونیورسٹی میں موجود تھے ۔ شعبہ اردو میں صدرِ شعبہ ڈاکٹر شعیب عتیق خان کے علاوہ ڈاکٹر یوسف اعوان ' پروفیسر ضیاء اللہ خان ' پروفیسر دلبر حسین اور سائرہ بانو کے علاوہ ڈاکٹر مشتاق عادل مستقل فیکلٹی ممبرز ہیں جبکہ ڈاکٹر رحمت اللہ شاد اور چند دیگر احباب وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر کام کر رہے ہیں ۔ خوب صورت کیمپس اور حسنِ انتظام دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ' سفر کی تھکن اتر گئی اور دل و دماغ کو سکون ملا ۔ روحانی و قلبی تسکین بابا فرید الدین گنج شکر کی خوشبو نے عطا کر دی اور ایک شاگردِ رشید پروفیسر ندیم صادق کے شکر کے تحفہِ خاص نے اس سرشاری میں مزید مٹھاس گھول دی ۔ شعبہ اردو میں چار اسکالرز کے زبانی امتحان کا تجربہ بھی خوشگوار رہا ۔ موضوعات نسبتاً نئے تھے ۔ بہاولنگر کے معروف شاعر اور پیارے دوست سید عامر سہیل کی غزل گوئی ' شعبہ اردو لاہور یونیورسٹی پاکپتن کیمپس کے اساتذہ کی علمی و ادبی خدمات' مولانا اکرم اعوان کی شاعری اور منتخب مرد و خواتین سفرنامہ نگاروں کے سفر ناموں کا تقابلی مطالعہ جیسے موضوعات پر سلیقے سے کام کیا گیا تھا جسے شعبے کے ناموراساتذہ کی راہنمائی کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔ دوپہر کا کھانا پاکپتن کے مقامی بانسری نواز کی بانسری کی دھنوں نے مزید لذیذ بنا دیا ۔ قبل از عصر محترم ڈاکٹر مشتاق عال کے ساتھ ساہیوال کی طرف روانہ ہوا اور سید افضال حسین گیلانی کے فرزندِ ارجمند اور سید مراتب اختر کے بھتیجے معروف مذہبی اسکالر اور مدیرِ صوت ہادی سید علی گیلانی سے ملاقات کی انھوں نے اپنے والدِ گرامی کی کتاب وناں دی چھاں تے سسی کا تازہ ایڈیشن عطا کیا اور ڈھیروں دعاؤں سے نوازا ۔ شام کو معروف محقق شاعر اور خوبصورت دوست ڈاکٹر افتخار شفیع نے ملاقات کا شرف بخشا ان کی گفتگو نے نہ صرف تازہ دم کر دیا بلکہ فکر و آگاہی کے نئے در وا کر دیے ۔ بعد از عشاء عزیزم اللہ یار ثاقب کے ہمراہ معروف شاعر اور نعت خوان برادرم علی رضا خان کی دعوت پر ساہیوال ادبی فورم کی ادبی تقریب میں شرکت کی ۔ یہ شامِ پذیرائی شبِ ملاقات میں بدل گئی ۔ ممتاز راشد لاہور ی کے اعزاز میں منعقدہ اس تقریب میں ادبیات لاہور شاخ کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل محمد جمیل اور اسلام عظمی صاحب کے علاوہ ساہیوال کے بزرگ شعراء پروفیسر ریاض حسین زیدی اور پروفیسر ارجمند احمد قریشی ' اسلم سحاب ہاشمی ' واصف سجاد ' رامش منہاس اور عارف رانا سے خوب صورت کلام سننے کو ملا ۔ یہ بتانے کی یقیناً ضرورت ہے کہ اس تقریب کی صدارت کا بوجھ سید ریاض حسین زیدی نے اپنے کندھوں سے اتار کر مجھ ناتواں کے کندھوں پر ڈال دیا جسے طوہا کرہاً اٹھانا پڑا ۔ خوبصورت شاعری کے ساتھ ساتھ ممتاز راشد لاہوری کے فکرو فن پر پر مغز گفتگو اور مقالات سننے کا موقع بھی ملا اور سب سے بڑھ کر لاہور سے آئے معزز مہمانوں سے تعارف بھی ہوا ۔ خوش رہیں محترم احباب جن کے دم سے زندگی حسین ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔