ایک ‘ثالث’ کی حیثیت اور دنیا بھر میں مسلم دنیا کا ایک حقیقی نمائندہ سمجھے جانے کے بعد پوری دنیا میں تعریفیں لپیٹنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے ترک صدر کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میں آرام سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ اردگان پاکستان سے اگلے انتخابات آسانی سے جیت سکتے ہیں۔ لنک
زرا غور سے طبقات ناصری، تاریخ فیروز شاہی اور دیگر مستند کتب تاریخ کا مطالعہ کریں ۔ پورے کے پورے ہندوستان پر ترکوں ، افغانوں ، مغلوں اور ایرانیوں کی حکومت کبھی نہیں نہیں رہی بلکہ شمالی ہند اور اس سے ملحقہ علاقوں پر اثر و نفوز تھا اور یہ آپس میں ایک دوسرے کی گردن زدنی کرتے رہے ہیں۔
بہت فرق ہے ترک اور منگولوں میں ۔ مغل بنیادی طور پر فارسی میں منگولوں کو کہا جاتا ہے اور عربی میں “مغول” اور “تتر” کے الفاظ ہیں مغلوں کے لیئے اور مغل چنگیز خان کے دوسرے بیٹے “چغتائ” کی نسل سے ہیں اور جو بابر و دیگر ہندوستان آئے وہ “چغتائ برلاس” کہلاتے ہیں۔
بابر بذات خود اپنے آپ کو “مغل” کہلانا پسند نہیں کرتا تھا اور خود کو “ترک” کہتا تھا اور اس نے اپنی “تزک بابری” میں لکھا کہ “مغل وحشی ہیں ( uncouth barbarians ). بابر کی ماں براہ راست چنگیز خان کے خاندان سے تھی اور بابر کا باپ تیمور لنگ کے خانداُن سے تھا اور تیمور ماوراالنہر کا ترک کہلاتا تھا مگر اسکا بھی تعلق دور سے منگولوں سے ملتا تھا دراصل چغتائ کی نسل آکر ازبکستان کے قبائل میں خلط ملط ہوئ تو موجودہ مغل نسل وجود میں آئی۔ بابر کے چچا زاد بھائی مرزا محمد حیدر دوغلت کی کتاب تاریخ رشیدی سینٹرل ایشیا کے مغلوں پر ہے۔
اسی طرح “ترخان” اور “ارغون” بھی دور پرے سے مغل ہی ہیں اور بلوچستان میں جو ہزارہ برادری ہے وہ بھی چنگیز خان کی نسل سے ہیں براہ راست اور جو سندھ میں حیدرآباد کے مشہور ادیب اور عالم مرزا قلچ بیگ تھے (جنکے خاندان سے ڈاکٹر زوالفقار مرزا ہیں) وہ بھی نسلا” شیعہ مغل ہی ہیں۔
مغلوں یا منگولوں نے چنگیز خان کے پوتے ہلاکو کے دور میں مذہب تبدیل کیا۔ کوئی عیسائ ہوا، کوئی سنی ہوا کوئی شیعہ ہوا اور اس طرح ارتقاء ہوا۔ مرزا قلیچ بیگ کا خاندان بنیادی طور پر جارجیا، روس سے آکر سندھ میں آباد ہوا اور ایران پر ہلاکو کی حکومت رہی تو وہاں جو مغل تھے وہ شیعہ سنی ہوئے۔
عثمانی ترکوں سے جو ہندوستان کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ اورنگزیب کے دور میں میر قمرالدین خان صدیقی بایافندی المعروف نظام الملک (حیدرآباد دکن کی آصف جاہ خاندان کے بانی) مغل دربار کا حصہ بنے مگر وہ بھی دراصل ازبکستان سمرقند کے تھے اور بعد میں انکے رشتے داروں کا تعلق عثمانیوں سے ہوا۔
اورنگزیب کی موت کے بعد ایرانیوں اور تورانیوں میں طاقت کے لیئے رسہ کشی شروع ہوئی تو اس میں مسلکی بنیاد پر جھگڑے شروع ہوئے۔ سعادت علی خان برہان الملک (نواب واجد علی شاہ کے جد امجد) اور نظام الملک (دکن ریاست کے جد امجد) کی آپس کی چپقلش سے نادر شاہ افشار (ایرانی) کو شہہ ملی۔ وہ ہندوستان پر چڑھ دوڑا (پاکستان کا نظریاتی قائد افغانی احمد شاہ ابدالی اسی نادر شاہ جیسے قصائی کی فوج میں افسر تھا) برہان الملک نے نادر شاہ کو انگلی کی اور نادر شاہ نے جو کچھ دہلی میں کیا وہ مستند تاریخ کا حصہ ہے حتی کہ میر تقی میر کی سوانح حیات میں اس بھیڑیا صفت کا ذکر ہے۔
میسور کے حکمران (1799) ٹیپو سلطان نے جب عثمانی خلیفہ سے مدد مانگی تو اس نے دغا کرتے ہوے وہ خط اس وقت کے برطانوی بادشاہ کو بجھوا دیا تھا۔ (ڈاکٹر مبارک علی)
اگر یہ مزعومہ دعوی مان لیا جاۓ کہ مسلمان ترکوں نے ۶۰۰ سال ہندوستان میں حکومت کی تو پھر یہ بھی بتائیں کہ غزنوی اور غوری نے ایک دوسرے کیساتھ غزنی میں کیا وہ کیا تھا ؟ پڑھیں طبقات ناصری تو روح کانپ اٹھے گی اور پھر شمالی ہند کے مسلمان حکمرانوں کو بار بار کیوں افغانوں اور ایرانیوں کی ضرورت پڑتی تھی انہیں خط لکھتے تھے۔ شاہ ولی اللہ و دیگر کہ آؤ مغلوں کو بچاؤ ورنہ یہ گئے۔ احمد شاہ ابدالی اور غالبا” نادر شاہ کو بھی شمالی ہند کی مسلمان اشرافیہ نے خط لکھ کر بلوایا کہ حملہ کرو نہیں تو مرہٹے اور سکھ چٹنی کردیں گے اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی نے سب کی چٹنی کردی۔
ترکوں کی حکومت “حجاز” (موجودہ سعودی عرب) اور مسلمانوں کو “ترکوں کے مظالم اور شرکیہ اور بدعتی حکومت” کے خلاف شیخ محمد بن عبد الوہاب اور انکے رشتے دار محمد بن سعود (موجودہ آل سعود کے جد امجد) نے بغاوت کردی اور پے درپے بغاوتیں کرکے ۱۹۲۴ میں ترکوں کی شرکیہ اور بدعتی حکمرانی ختم کی۔
ترکوں کی حکومت صرف ہندوستان پر ہی نہیں سعودی عرب پر بھی تھی اور عرب مسلمانوں کو ترکوں کی غلامی سے نجات دلانے کے لیئے شیخ محمد بن عبدالوہاب اور محمد بن سعود نے تحریک آزادی شروع اور ۱۹۲۴ میں ترک مظالم سے سعودی مسلمان آزاد ہوگئے۔
ترکوں کی ہندوستان پر ۶ سو سال حکومت اور سعودی عرب پر ترکی کا قبضہ مسئلہ حجاز اور ابن سعود (خلافت وفد رپورٹ 1926 آل سعود کی سعودی عرب میں حکومت کی ابتدا کی تاریخ) مرتبہ سید سلیمان ندوی، محمد علی جوہر، شوکت علی وشعیب قریشی
ترکوں نے ہندوستان پر ۶ سو سال حکومت کی اور اس میں یہ بھی ہوا کہ التتمش کی بیٹی رضیہ سلطان اور اسکے شوہر ملک التونیہ کو misogynist ترک سرداروں نے قتل کروادیا ۔ یہی ترک التمش تھا جب اس سے ترک جلال الدین خوارزم شاہ نے مدد مانگی کہ اس کو چنگیز خان سے بچائیں تو التتمش نے پناہ نہیں دی تو اسی جلال الدین خوارزم نے ملتان اور اچ شریف پر حملہ کیا ترک ناصر الدین قباچہ پر اور ملتان اور اچ شریف کو جلا کر راکھ کردیا یعنی خود چنگیز خان سے بچتا پھر رہا تھا اور پھر کلمہ گو مسلمانوں پر ہی چڑھ دوڑا ؟ یہ تھی ترکوں کی ۶ سو سالہ حکومت۔
ہندوستان کی تاریخ کمال امروہوی کی رضیہ سلطان اور کے آصف کی مغل اعظم کی واہی تباہی فلمیں نہیں بلکہ بہت تلخ اور نہایت پیچیدہ ہے۔ لہذا اس پر طبع آزمائی سے مستند کتاب پڑھ لیا کریں تاکہ چودہ ۱۴ طبق روشن ہوجائیں۔
معروف بھارتی مؤرخ عرفان حبیب صاحب سے جب فلم “پدماوت” کی تاریخی سند پر سوال پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر صحیح معنوں میں تاریخی حقائق پر مبنی فلم بنادی جائے تو سینما میں صرف میں اور آپ بیٹھے دیکھ رہے ہونگے۔
علاء الدین خلجی ترک تھا اور ہمارے نظریاتی بزرجمہروں نے اسکو بڑا نیک بتایا ہے جبکہ طبقات ناصری و تاریخ فرشتہ و دیگر میں درج ہے کہ اپنے سسر اور چچا جلال الدین خلجی کو قتل کیا ، ۳۰ ہزار نو مسلم منگولوں کے خون سے ہاتھ رنگے ، پیغمبری کا دعوی کیا جبکہ انتہائ ظالم اور بدکار تھا۔
اور علاءالدین خلجی نے ظلم اور بدکاری کی جو فصل بوئی تھی اسکا شکار خود تو ہوا ہی مگر اولاد بھی ہوئی تو جو حضرات ہندوستان کے ترک بادشاہوں پر قصیدہ خوانی فرمارہے ہیں وہ زرا مسلمان مؤرخین کی ہی لکھی تاریخ پڑھ لیں اور توبہ کریں کہ کن بدکاروں کو اُمّہ کا ہیرو بنا رہے ہیں اور حیدرآباد دکن کے نظام جو ترک تھے اور عثمانی ترکوں سے رشتے داری بھی تھی تو خود انہوں نے حیدر علی اور ٹیپو سلطان کے ساتھ کیا کیا ؟ پڑھیں تاریخ ! تاریخ میں چٹ بھی میری پٹ بھی میری اور ٹیا میرے باپ کی نہیں چلتی۔
ماورالنہر کے مغلوں کی مستند ترین تاریخ جو بابر کے چچازاد بھائی “میرزا محمد حیدر دوغلت” نے “تاریخ رشیدی” کے نام سے مرتب کی ، بہت اہم کتاب ہے ، محفوظ کیجیئے اور پڑھیئے اور مغلوں کا شجرہ بھی دے دیا ہے
تاجک ، مغل اور ترک میں کیا فرق ہے The Turks in India; critical chapters on the administration of that country by the Chughtai, Bábar, and his descendants by Henry George Keene (1879)
تاجک ، مغل اور ترک میں کیا فرق ہے The Turks in India; critical chapters on the administration of that country by the Chughtai, Bábar, and his descendants by Henry George Keene (1879)
The Turks Of Central Asia In History And At The Present Day by M.A .Czaplika
سلطنت عثمانیہ کے عثمانی دراصل کون تھے اور خلافت بنو عباس کے لیئے کیا کرتے تھے ، پڑھیئے The Ottoman Turks
یہ تمام حقائق بتانے کے بعد یہاں یہ کالم ختم کرتا ہوں کہ تمام تر خامیوں کے باوجود “مغل” حکمران ہندوستان کے تمام حکمرانوں سے بہتر تھے اور انہوں نے ہندوستان کو اپنا وطن بنایا اور بہت کچھ دیا اس میں سب سے اہم چیز مجھ جیسا “شہزادہ”
ہے جو آپکے درمیان ہے
کالم میں جو کتابیں دی ہیں اور جو مختلف تزک مغلوں نے لکھیں وہیں یہ بھی درج ہے مغلوں کے جد امجد چغتائی خان (چنگیز خان کا دوسرا بیٹا) بے انتہا غصے کا تیز ، شراب کا دھتی اور مسلمانوں کا بدترین دشمن تھا اور منگولوں کے قانون “مقدس یاسا” کے نفاذ کی ذمے داری اسی کی تھی۔
اس قانون کو تورہ چنگیزی بھی کہا جاتا تھا – بابر کے چار بیٹے تھے ہمایوں (سنی) ، کامران مرزا ، عسکری مرزا (شیعہ) ، ھندال مرزا ۔ کامران مرزا اور عسکری مرزا نے ہمایوں کو بہت تنگ کیا اور اس کے ۶ سالہ بیٹے اکبر کو یرغمال بنایا اور افغانستان میں جب یہ آپس میں لڑ رہے تھے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...