طالبان کے غلبے کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ پاکستانیوں کی کثیر تعداد انہیں نجات دہندہ سمجھتی ہے۔ طالبان کے حامیوں کی ایک قسم وہ ہے جو نظریاتی حوالے سے انہیں اپنے قریب سمجھتی ہے لیکن ایسے حامیوں کی تعداد بھی کم نہیں جنہیں طالبان کے نظریات اور طرز حکومت سے کوئی دلچسپی نہیں مگر پاکستانی ریاست، پاکستانی حکومتوں اور بالائی طبقے کے ظلم و ستم سے وہ اس قدر عاجز آچکے ہیں کہ بالآخر انہیں طالبان جیسا نجات دہندہ بھی قبول ہے۔ پٹواری، تھانیدار، واپڈا اہلکار، سوئی گیس کے راشی ملازم، ملاوٹ کرنے والے بددیانت تاجر، تجاوزات کے ذریعے ماحول کو گندا کرنے والے دکاندار، راہگیروں کو کچلنے والے بدمست ڈرائیور، فرعونیت کے لہجے میں بات کرنے والے سرکاری عّمال، اقربا پروری ا ور دوست نوازی کرنے والے عوامی نمائندے ان عوام کو کمّی کمین سمجھتے ہیں۔ ایک ایک گلی پکی کرانے ا ور ایک ایک کنکشن لینے کے لیے شرفا کو برسوں پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ کوئی سیاسی جماعت، کوئی حکومت، کوئی مارشل لاء، عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں کرسکا۔ ہر نیا سال نئے ظلم لاتا ہے۔ مخصوص گروہوں کے کام کرانے والا ایک ٹولہ پارلیمنٹ سے نکلتا ہے تو دوسرا ٹولہ آ کر دوسرے گروہوں کے کام کرانا شروع کر دیتا ہے۔
پاکستانی عوام اس اشرافیہ سے عاجز آچکے ہیں جس پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا، جس کی گاڑیوں کے شیشے کالے ہی رہتے ہیں اور جو اسلحہ کی نوک پر سارے غلط کام آسانی سے کروا لیتی ہے۔ پاکستانی عوام نوکر شاہی کے ان گماشتوں سے خدا کی پناہ مانگ رہے ہیں جن سے ملاقات کرنا تو کجا، ٹیلیفون پر بات کرنا بھی ناممکن ہے اور جن کے دربان اور پی اے سائلوں کو نہ صرف دھتکارتے ہیں بلکہ موقع ملے تو ٹھڈے بھی مارتے ہیں۔ پاکستانی عوام ان حکمرانوں کو ہاتھ اٹھا اٹھا کر بددعائیں دے رہے ہیں جو خود تو چھینک آنے پر بھی اپنی تین تین بیگمات کے ساتھ لندن کا رخ کرتے ہیں لیکن کسی گائوں میں عام آدمی کے لیے ڈسپنسری قائم کرنی ہو تو بیس لاکھ روپے پر بھی سانپ بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ظلم اور ناانصافی کے ڈسے ہوئے یہ مظلوم بے کس اور بے بس عوام جب سنتے ہیں کہ طالبان اپنی عدالتیں لگا کر مجرموں کو سزائیں دیتے ہیں اور مظلوموں کو انصاف بہم پہنچاتے ہیں تو ان کے دلوں میں طالبان سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ طالبان کا مقابلہ کرنے والے سرکاری اہلکاروں سے آخر عوام کو کیا ہمدردی ہوسکتی ہے؟ یہی اہلکار اور ان کے افسر ہی تو ہیں جنہوں نے ان کی زندگیوں کو جہنم بنا رکھا ہے۔ عوام خواب دیکھ رہے ہیں کہ کیا عجب کل طالبان کو مکمل غلبہ حاصل ہوجائے تو وہ بددیانت راشی سرکاری ملازموں کو درختوں سے لٹکا کر پھانسیاں دیں۔ بجلی اور گیس سے عوام کو محروم کرنے والوں کو درّے ماریں۔ خوراک‘ ادویات اور معصوم بچوں کے دودھ میں ملاوٹ کرنے والے ’’حاجیوں‘‘ کو جلتے تنوروں میں پھینکیں۔ فساد معاشرے میں جس طرح پھیل چکا ہے اس کا علاج باریاں بدلنے والے کھرب پتی سیاستدانوں کے بس کی بات نہیں، نہ ہیان کی نیت ہے۔
یہ ظلم طالبان جیسے جنونی اور سودائی ہی ختم کر سکتے ہیں ۔پانچواں سبب یہ ہے کہ طالبان کو پاکستانیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نظریاتی کمک پہنچا رہی ہے۔ اس کا سبب اسلام کی ایک خاص تعبیر ہے جو پاکستان اور افغانستان سے باہر دنیائے اسلام میں شاید ہی کہیں نظر آئے۔ اسلام کی اس خاص تعبیر میں افغانستان اور پاکستان کی مقامی ثقافتوں کا عمل دخل ہے اور مقامی ثقافت کے ان مظاہر کو بھی اسلام کا لبادہ پہنا دیا گیا ہے جو افغانستان اور پاکستان کے باہر کے مسلمانوں کے لیے اجنبی ہیں۔ پھر بدقسمتی سے اس مذہبی گروہ کا ہیڈکوارٹر بھی پاکستان میں ہے جو دین کو صرف ظاہری ہیئت کے حوالے سے دیکھتا ہے، حقوق العباد سے مکمل روگردانی کرتا ہے۔ایک خاص کتاب کو [ معاذاللہ] سب کچھ سمجھتا ہے۔ لوگوں کو تلقین کرتا ہے کہ بس اسی کتاب کو پڑھیں ، سنیں اور سنائیں۔ یہ گروہ لوگوں کو یہ تک کہتا ہے کہقران کو سمجھ کر پڑھنا صرف علما کا کام ہے۔ان تمام عوامل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوام کی کثیر تعداد اسلام کو محض عبادات کا مجموعہ سمجھنے لگی ہے۔ عملی زندگی سے اسلام کا عمل دخل ختم ہوچکا ہے۔ نمازیں پڑھنے، روزے رکھنے اور حج کرنے کے باوجود اکثریت اکلِ حلال اور صدق مقال سے محروم ہے۔ وعدہ خلافی اور جھوٹ کو برائی سمجھا ہی نہیں جارہا۔ ملاوٹ، ٹیکس چوری، ناروا تجاوزات اور نقص چھپا کر مال فروخت کرنا ان لوگوں کا معمول ہے جو ظاہری لحاظ سے مذہبی نظر آتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے بالائی طبقات میں بھی طالبان کے حامی موجود ہیں۔ سید منور حسن، جنرل حمید گل ،جنرل مرزا اسلم بیگ، عمران خان اورلال مسجد کے با اثر خطیب مولانا عبدالعزیز جیسے طاقتور افراد طالبان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ نہیں معلوم اگر طالبان کو اقتدار مل گیا تو یہ سابق جرنیل ا پنی ظاہری وضع قطع میں ان کی پیروی کریں گے یا نہیں اور اپنا وہ معیار زندگی ترک کریں گے یا نہیں جس کا پاکستانی عوام کی اکثریت خواب میں بھی تصور نہیں کرسکتی مگر بہرطور یہ حضرات طالبان کے نظریاتی حامی ہیں اور یہ اکیلے نہیں، ان کے لاکھوں ہم خیال، پیروکار اور معتقدین ہیں۔ طالبان کے ہمدرد لامحالہ تمام اداروں میں بھی ہوں گے۔ جب کسی تحریک کے حامی پیدا ہوتے ہیں تو وہ صرف ایک خاص علاقے تک محدود نہیں ہوتے نہ کسی خاص انکم گروپ سے تعلق رکھتے ہیں نہ کوئی خاص زبان بولتے ہیں۔ یہ حامی تمام طبقات اور تمام علاقوں میں موجود ہوتے ہیں۔
ہم میں سے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان دنیا اور دنیا کے حالات سے بے خبر ہیں، غیر تعلیم یافتہ ہیں اور معاشرتی حرکیات (DYNAMICS) سے ناآشنا ہیں، غلطی پر ہیں۔ ان کی پیش قدمی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف پاکستان کے ظاہری بلکہ غیر ظاہری حالات سے بھی آگاہی رکھتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...